ارشد محمود پاکستان کے سنجیدہ لکھاری ہیں‘ ان کی کتاب ’’تصور خدا‘‘ نے تہلکہ مچا دیا تھا‘ میں نے پچھلے دنوں یہ کتاب پڑھی تو میں ورطۂ حیرت میں چلا گیا اور میں بار بار اپنے آپ سے پوچھتا رہا ’’یہ کتاب پاکستان میںکیسے چھپ گئی‘‘ ہم ایک بند معاشرے کے مقفل لوگ ہیں‘ ہم اپنی ایک انچ کی ناک سے آگے نہیں دیکھ سکتے۔
ہم لوگ اپنے سو گرام کے کانوں سے ڈیڑھ سو گرام آوازوں سے زیادہ سن بھی نہیں سکتے اور تین سو میٹر کی سوچ پر محیط دماغ بھی دو سو میٹر سے زیادہ نہیں سوچ سکتا‘ ہم کنوئیں کے ایسے مینڈک ہیں جو خود جمپ لگا کر کنوئیں سے باہر نکلتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کو نکلنے دیتے ہیں‘ ہمارے ملک میں جہالت کھلی پھر رہی ہے اور علم پر قفل چڑھے ہیں۔
ہم نے ستر برسوں میں ملک میں کوئی صاحب علم پیدا نہیں ہونے دیا اور اگر کوئی نصیب کا مارا پیدا ہو گیا تو ہم نے اسے کمیونسٹ‘ ملحد‘ قادیانی اور کافر جیسے پتھر مار مار کر بھگا دیا‘ ہم نے اسے یورپ اور امریکا پہنچا کر دم لیا‘ ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی تھے لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی بھی تھے‘ اٹلی نے ٹریسٹ شہر میں انھیں جدید ترین لیبارٹری بنا کر دی‘ یہ لیبارٹری ڈاکٹر عبدالسلام سینٹر کہلاتی ہے‘ یہ سینٹر ہر سال فزکس کو سو ڈیڑھ سونئے پی ایچ ڈی دیتا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی تجربہ گاہ ’’سرن‘‘ ہے‘ یہ تجربہ گاہ جنیوا کے قریب فرانس کے علاقے میں قائم ہے‘ یہ ’’خدائی عنصر‘‘ تلاش کر رہی ہے‘ یہ ایک طویل تجربہ ہے جس میں دنیا جہاں کے سائنس دان ستر سال سے شامل ہیں‘ یہ تاریخ کا سب سے بڑا تجربہ ہو گا‘ یہ جس دن کامیاب ہو جائے گا انسان اس دن نہ صرف کائنات کی ہیئت سمجھ جائے گا بلکہ یہ کہکشاؤں میں چھلانگیں لگاتا پھرے گا‘ سرن کی پہلی مشین ڈاکٹر عبدالسلام نے بنائی تھی‘ یہ مشین آج بھی وہاں موجود ہے۔
کافروں نے سرن جیسے کفرستان میں ایک سڑک کافر ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کر رکھی ہے‘ یہ سڑک آئن سٹائن سے منسوب سڑک کے قریب واقع ہے لیکن ہم آج بھی یہ اعتراض کر رہے ہیں قائداعظم یونیورسٹی کا شعبہ فزکس ڈاکٹر عبدالسلام سے کیوں منسوب کیا گیا اور نااہل وزیراعظم کے اہل داماد کیپٹن صفدر اس تحریک کی قیادت کر رہے ہیں۔ چنانچہ ہمارے اس ملک میں ’’تصور خدا‘‘ جیسی کتاب کا چھپ جانا واقعی معجزہ تھا اور میں کئی دن تک اس معجزے کی سرشاری میں رہا‘ ارشد محمود صاحب کی دوسری کتاب ثقافتی گھٹن نے بھی متاثر کیا لیکن تصور خدا منفرد کتاب تھی۔
ارشد محمود فل ٹائم بزنس مین اور پارٹ ٹائم لکھاری ہیں‘ یہ سیالکوٹ میں مارشل آرٹ کی یونیفارم اور آلات بناتے ہیں‘ ان کی تمام مصنوعات ایکسپورٹ ہو جاتی ہیں‘ مجھے انھوں نے پچھلے دنوں ایک خط تحریر کیا‘ خط میں کاروبار کا ایک دلچسپ نکتہ اٹھایا گیا‘ میں یہ خط حکومت اور آرمی چیف دونوں کے سامنے رکھ رہا ہوں اور ان سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں‘ ہماری معیشت فوج‘ حکومت اور عدلیہ کی وجہ سے خراب نہیں ہو رہی‘ یہ ہماری حماقتوں اور بے وقوفیوں کی وجہ سے تباہ ہو رہی ہے اور ہم اگر ملک کو واقعی ترقی یافتہ دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یہ حماقتیں بند کرنا ہوں گی‘ ملک خود بخود اوپر چلا جائے گا ورنہ ہم اسی طرح ٹامک ٹوئیاں مارتے رہیں گے بہرحال ارشد محمود صاحب کے خط کی طرف آتے ہیں۔
’’آپ کو احساس ہوگا پاکستان کی معیشت اورریاست کے لیے زرمبادلہ کس قدراہم ہے‘ پاکستان کی ایکسپورٹس کم ہو چکی ہیں اور امپورٹس ہوش ربا اضافے کے ساتھ بڑھ رہی ہیں‘ گلف کے حالات بھی خراب ہیں‘ وہاں سے بھی پاکستانیوں کی واپسی تیز ہو رہی ہے‘ اس سے بھی پاکستان کے فارن ریزروز پر دباؤ بڑھتا چلا جائے گا چنانچہ ہمارے پاس اب ایکسپورٹس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا‘ آپ جانتے ہیں دنیا میں کسی ملک کی معاشی ترقی کا پیمانہ ’’ایکسپورٹ والیم‘‘ ہوتا ہے لیکن یہاں اسٹیٹ بینک کے افسر اپنے ٹھنڈے دفاترمیں بیٹھ کر ایسے قوانین بنا رہے ہیں جن سے ایکسپورٹرز کے لیے بزنس کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
یوں محسوس ہوتا ہے اسٹیٹ بینک کی پوری خواہش ہے ایکسپورٹ بزنس بند ہو جائے‘شاید اسٹیٹ بینک کو زرمبادلہ کی سرے سے کوئی پرواہ نہیں‘ میں پچھلے 17 سال سے سیالکوٹ میں مینو فیچرنگ اور ایکسپورٹ کے بزنس سے وابستہ ہوں‘ اس سال ہماری 15 کروڑ کی ایکسپورٹس ہوئیں‘ میںآپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں پاکستان میں ایکسپورٹ کا بزنس 100 فی صد ڈاکومنٹڈ ہے اور یہ اسٹیٹ بینک کے کنٹرول میں ہے۔
ہمارا سارا پراسس بینکوں کے ذریعے ہوتا ہے اور ہماراسارا ریکارڈ اسٹیٹ بینک کے پاس جاتا ہے‘ ملک میں جب باہرسے زرمبادلہ آتا ہے تواسٹیٹ بینک ہمارے تمام ڈالرز‘ یوروز اور پونڈز اپنے پاس رکھ لیتا ہے اور ہمیں مارکیٹ سے کم ریٹ پرپاکستانی کرنسی دے دیتا ہے‘ ہمیں اس پرکوئی گلہ نہیں لیکن پچھلے دنوں ہمارے ایک کسٹمرنے 35 ہزار پونڈ اسٹرلنگ بھیجے‘ ہم نے اسے مال برآمد کیا تھا‘ ہمارے دو بینکوں میں اکاونٹ ہیں‘ ہم اپنی سہولت سے کبھی ایک بینک اور کبھی دوسرے بینک کے ذریعے شپ منٹس بھجواتے رہتے ہیں۔
ہمارے کسٹمر نے مذکورہ رقم ہمارے دوسرے بینک میں بھیج دی (شپ منٹ اس بینک کے ذریعے نہیں ہوئی تھی)‘ ایسا ماضی میں کئی بار ہو چکا ہے‘ ہمیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا تھا‘ ایک بینک سے شپ منٹ گئی‘ پیسے دوسرے بینک میں آگئے‘ وہ دونوں بینک آپس میں ایک طے شدہ طریقہ کارکے مطابق اسٹیٹ بینک کوڈاکومنٹس اور رقم بجھوا دیتے تھے اور ہمارا حساب کلیئر ہو جاتا تھا لیکن اس بار ہمارے بینک نے دوسرے بینک کے ساتھ تعاون کرنے سے انکارکر دیا‘ ہمیں وجہ بتائی گئی اسٹیٹ بینک اب اس کی اجازت نہیں دیتا چنانچہ ہم یہ پیسے اس کمپنی کو واپس بھیج رہے ہیں ۔
جس نے بھجوائے ہیں‘ آپ اسٹیٹ بینک کی بزنس دشمنی اور ملک دشمنی کا اندازہ کیجیے 50 لاکھ روپے سے زائد کا زر مبادلہ ملک کے خزانے میں آیا لیکن پیسے واپس بھجوا دیے گے‘ہمارے کئی دن ضایع ہو گئے‘ بینکوں نے بیچ میں کافی پیسے سروس چارجز کے بھی کاٹ لیے‘ ہمارا کسٹمر اچھا تھا‘ وہ اگر بد نیت ہوتا تو وہ ہمیں دوبارہ پیسے نہ بھیجتا‘ وہ اپنا فرض پورا کر چکا تھا‘ وہ کمپنی اچھی تھی‘ اس نے ہمیں دوبارہ رقم بھجوا دی‘ آپ ٹھنڈے دل سے سوچئے اگر ایک بینک کاغذات لے کر کارروائی پوری کر دیتا تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑتا۔
زرمبادلہ نے بہرحال پاکستان کے خزانے میں ہی آ نا تھا‘ ہماری دو مزید شپ منٹس کے پیسے سنگاپور سے آئے ہوئے ہیں‘ یہ پیسے اسی بینک میں آئے ہیں جس کے ایکسپورٹ فارم سے شپ منٹ گئی تھی لیکن اب پھر ہمارے بینک نے ایک نیا بہانہ بنا کرکاغذات کو پراسس کرنے سے انکارکر دیا ‘بینک کا کہنا ہے اسٹیٹ بینک مجبور کر رہا ہے آپ یا تو ایل سی پر بزنس کریں یا پھر کیش اگینسٹ ڈاکومنٹس کریں‘ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے ہم شپنگ کاغذات اپنے بینک کے ذریعے کسٹمر کے بینک میں بھجوائیں اورکسٹمر وہاں پے منٹ کر کے شپ منٹ وصول کر لے‘ ہمارے کسٹمر چھوٹے سائز کے ہیں۔
یہ بینک ٹو بینک کاغذات پر کاروبار نہیں کرتے کیونکہ اس سے بینک اپنی فیسیںبھی بٹورتے ہیں اور کسٹمربھی پابند ہو جاتا ہے وہ کاغذات میں لکھی مدت کے اندر پے منٹ اپنے بینک کے ذریعے بھجوائے‘ ہمارے کئی کسٹمرز کو ان فارمیلٹیز کا پتہ نہیں‘ یہ کہتے ہیں مال جب ملے گا تو ہم چیک کریں گے اور پھر پیسے دیں گے‘ یہ بعض اوقات مال اپنے گاہکوں کو بھجوانے کے بعد ہمیں پیسے بھیجتے ہیں‘ یہ بزنس کے معاملات ہیں‘ ہم کسی سے ایڈوانس بھی لیتے ہیں‘ کسی سے آدھا ایڈوانس لیتے ہیں اور ہم بعض اوقات باہمی بھروسہ ہونے کی وجہ سے پے منٹ گاہک پر چھوڑ دیتے ہیں۔
وہ اپنی سہولت کے مطابق معقول مدت میں پیسے بھیج دیتا ہے‘ ہمیں بزنس لینے کے لیے اپنے گاہکوں کو پے منٹ کی سہولتیں بھی دینا پڑتی ہیں‘ دفتروں میں بیٹھی بیوروکریسی اگران معاملات میں خواہ مخواہ حائل ہوگی تو اس سے نہ صرف ہمارا بزنس کم ہوجائے گابلکہ ہمیں ناجائز طورپرتنگی بھی محسوس ہوگی اورہمارے مسائل بھی بڑھیں گے۔
ہمارا مسئلہ زرمبادلہ ہے‘ ہمیں چاہیے پاکستان سے زیادہ سے زیادہ ایکسپورٹ ہوں‘ یہاں روزگارملے اور پیسے کی سرکولیشن سے معاشی خوشحالی آئے‘ہم اگر یہ چاہتے ہیں تو پھر قاعدے قوانین لچک دار ہونے چاہئیں مگر کبھی ہمیں کہا جاتا ہے پیسے بھیجنے والا وہی ہونا چاہیے جو انوائس میں لکھا گیا ہے‘ یہ بھی ہمارے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
ملک کو زرمبادلہ سے غرض ہونی چاہیے‘ ہمارا کسٹمر ہمیں کسی بھی اکاونٹ سے پیسے دے! کیا حرج ہے؟ ہم نے ادھارمال بھی دیا ہوتا ہے‘ ہمارا کسٹمر اپنی سہولت سے پیسے بھجوا دیتا ہے‘ ہمیں اپنے پیسوں سے غرض ہوتی ہے وہ جلد از جلد آئیں‘ پاکستان کو اس سے کیا تکلیف ہے کہ پیسے کس نام سے آئے ہیں‘ جب ہم کہہ رہے ہیں یہ فلاں ایکسپورٹ شپ منٹ کے پیسے ہیں تو اسٹیٹ بینک کیوں نہیں مانتا؟
آپ یہ بھی بتائیے وہ کونسا بزنس ہے جس میں نقصان کے امکانات نہیں ہوتے؟ مینوفیکچرنگ میں غلطیاں ہوتی ہیں‘ کبھی مٹیریل غلط پڑ جاتا ہے اور کبھی گاہگ بھاگ جاتا ہے‘ پاکستان کے اندر بھی اگر کسی سے پیسے لینے ہوں تو جب تک دینے والے کی مرضی نہ ہو آپ اس سے لے نہیں سکتے چہ جائیکہ بندہ دوسرے ملک میں ہو‘ جہاں آپ جا بھی نہیں سکتے‘ ایکسپورٹ کا بزنس رسک اور بھروسے پرچلتا ہے لیکن ہمارے اسٹیٹ بینک میں مست بادشاہ بیٹھے ہوئے ہیں‘ ہماری اگرکسی شپ منٹ کے پیسے ڈوب جائیں یا کسی خرابی یا شکایت کی وجہ سے ہمیں گاہک کو ڈسکاؤنٹ دینا پڑجائے تواسٹیٹ بینک ہمیں کہتا ہے’’آپ نے اتنی مالیت کی ایکسپورٹ کی تھی۔
آپ اب اتنا زرمبادلہ لے کرآؤ‘‘ہم انھیں وجہ بتاتے ہیں تو یہ لوگ کہتے ہیں ’’ہم نقصان کو نہیں مانتے‘آپ پیسے پورے کریں ورنہ آپ پرمقدمہ چلے گا‘‘ آپ تصور کیجیے پیسے ہمارے‘ بزنس ہمارا اور نقصان بھی ہمارا لیکن دھونس اسٹیٹ بینک کی چنانچہ ہم مجبور ہو جاتے ہیں کہ نقصان زدہ شپ منٹ کی رقم ہم ہنڈی کے ذریعے باہر سے منگوا کراسٹیٹ بینک کا کھاتہ پورا کریں چنانچہ اسٹیٹ بینک کی حماقتوں نے ہمارے لیے کاروبار بالخصوص ایکسپورٹ کا کاروبار مشکل بنا دیا ہے لیکن پاکستان میں حکومتیں ہوں‘ سیاست دان ہوں یا پھر بیوروکریسی کسی کوکوئی پرواہ نہیں عام آدمی کے مسائل کیا ہیں؟ ملک میں کوئی سوچنے کے لیے بھی تیار نہیں‘‘۔