اور یوں میں دمشق پہنچ گیا‘ اس دمشق میں جہاں وقت بھی رک رک کر چلتا ہے کہ مبادا تاریخ کی آنکھ نہ کھل جائے‘ جس کی ہواؤں میں گزرے زمانوں کی باس اور آنے والے ادوار کی مہک ہے اور جس کے بغیر معاشرت مکمل ہوتی ہے‘ تہذیب اور نہ ہی ثقافت‘ میں دوست احباب کو بتائے بغیر شام کی طرف نکل گیا‘ خاندان کو بھی دمشق پہنچ کر اطلاع دی۔
میرا خیال تھا میں جس کو بھی بتاؤں گا وہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا اور مجھے روک لے گا چنانچہ میں نے ہفتے کا آخری پروگرام کیا اور بیروت کی فلائیٹ لے لی‘ لبنان جنگ کے شکار شام کا واحد زمینی راستہ ہے‘ شام کی فلائیٹس بند ہیں‘ مسافر بیروت پہنچتے ہیں‘ گاڑی لیتے ہیں‘ سرحد پر پہنچتے ہیں اور دمشق پہنچ جاتے ہیں‘ بیروت سے دمشق 120 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
میں نے 80 کلو میٹر لبنان اور 40 کلو میٹر شام میں طے کیے اور دو گھنٹے میں دمشق پہنچ گیا‘ لبنان اور شام کے ویزے بھی مشکل ہیں‘ یہ دونوں ملک اپنی حکومتوں کی اجازت کے بغیر ویزے نہیں دیتے‘ شام کے سفیر شناسا تھے‘ وہ اپنی جان پر کھیل گئے‘ ویزہ دے دیا‘ لبنان کو شام کا ویزہ دکھا کر قائل کر لیااور یوں اسلام آباد سے دوبئی‘ دوبئی سے بیروت اور بیروت سے آخر میں وہ شہر جسے صرف شہر کہنا زیادتی ہے۔
دمشق شہر‘ شہر نہیں میوزیم ہے‘ اس کی ہر گلی‘ ہر مکان‘ ہر کوچے اور ہر اینٹ پر تاریخ درج ہے‘ تاریخ اس کی ہواؤں میں باقاعدہ سانس لیتی ہے اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے جو بھی دمشق آیا وہ اس میں جذب ہو گیا وہ مذہب ہو‘ فاتح ہو‘ عالم ہو یا پھر مسافر دمشق نے اسے پھر واپسی کا راستہ نہیں دیا‘ دنیا میں مکہ اور مدینہ کے بعد سب سے زیادہ صحابہؓ ‘ محدث‘ عالم‘ دانشور اور صوفی دمشق میں مدفون ہیں‘ آپ کو جگہ جگہ مزارات ملتے ہیں اور ہر مزار آپ کے پاؤں جکڑ لیتا ہے‘ آپ مزار کا کتبہ پڑھتے ہیں اور پھر حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔
میں نے اپنے سفر کا آغاز حمیدیہ بازار سے کیا‘ یہ بازار ترک حکمران سلطان عبدالحمید نے 1863ء میں بنوایا تھا‘ یہ کورڈ مارکیٹ ہے‘ بازار کی چھت بلند اور لوہے کی بنی ہوئی ہے‘ دائیں بائیں گلیاں ہیں اور ان گلیوں میں ہزاروں چھوٹی بڑی دکانیں ہیں‘ بازار کی تمام گلیاں مسجد امیہ کی طرف نکلتی ہیں‘ واقعہ کربلا کے بعد یزید کی فوج اہل بیت کو اسی بازار کے ذریعے جامع امیہ تک لے کر آئی تھی‘ یہ بازار اس وقت بھی بازار تھا لیکن یہ سوق حمیدیہ نہیں کہلاتا تھا۔
یہ کورڈ بھی نہیں تھا اور شاید یہ اس وقت پختہ بھی نہیں تھا‘ جامع امیہ بھی اس وقت چھوٹی تھی‘ مسجد کی جگہ یزید کا محل اور دربار ہوتا تھا‘ اہل بیت کو دمشق تک لایا گیا‘ حمیدیہ بازار کی گلیوں سے گزارا گیا اور یزید کے محل پہنچا دیا گیا‘ حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کے سر نیزوں پر آویزاں تھے اور اہل بیت ان سروں کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے‘ مورخین لکھتے ہیں ۔
حضرت زینبؓ نے لشکر یزید سے فرمایا ‘تم لوگ ہمیں کسی ایسے راستے سے دمشق میں داخل کرو جہاں زیادہ رش نہ ہو‘ سر مبارک بھی اہل بیت سے آگے رکھنا تا کہ غیر محرم خانوادہ رسولؐ کو نہ دیکھ سکیں لیکن یزید کے لشکریوں نے یہ دونوں فرمان مسترد کر دیے‘ اہل بیت کو جان بوجھ کر مصروف ترین وقت میں مصروف ترین بازار سے گزارا گیا‘ دمشق پہنچ کر شہداء کربلا کے سر بھی خواتین کے پیچھے کر دیے گئے‘ لوگ پہلے مظلوم اہل بیت کو دیکھتے تھے‘ پھر ان کی نظریں امام عالی مقام ؓ کے سر مبارک پر پڑتی تھیں اور یوں وہ گریہ و زاری پر مجبور ہو جاتے تھے۔
کربلا کے شہداء کے سر یزید کے محل میں لا کر رکھ دیے گئے‘ اہل بیت کو بھی سروں کے ساتھ قید کر دیا گیا‘ یہ جگہ آج بھی موجود ہے اور یہ مشہد الرأس کہلاتی ہے‘ یزید نے اہل بیت کو چند دن قید میں رکھ کر اپنے دربار میں بلوایا‘ وہ خود اپنے حواریوں کے ساتھ بلند چبوترے پر بیٹھا تھا‘ اس نے حضرت زینبؓ اوردوسری مستورات کو سامنے زمین پر کھڑا کر دیا‘ حضرت زینبؓ اور یزید دونوں کے چبوترے آج بھی موجود ہیں۔
یزید کا محل اور دربار دونوں پیوند خاک ہو چکے ہیں اور خاک وقت کے ہاتھوں اڑ کر صحراؤں کا رزق بن چکی ہے لیکن یزید کے ظلم کی بو اور خانوادہ رسولؐ کی مظلومیت کی خوشبو دونوں آج بھی مسجد امیہ کے درودیوار میں زندہ ہیں‘ حضرت زینبؓ جس جگہ کھڑی تھیں۔
میں نے اپنا ہاتھ وہاں رگڑا اور پھر آنکھوں اور سینے پر لگایا‘ یزید کی بالکونی بھی سامنے موجود تھی‘ حضرت زینبؓ کے چبوترے کے ساتھ حضرت یحییٰ ؑ کا مزار تھا‘ حضرت یحییٰ ؑحضرت ذکریا ؑ کے صاحبزادے تھے‘ حضرت ذکریا ؑ حضرت مریم ؑ کے سگے خالو تھے‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں بڑھاپے میں اولاد نرینہ عطا کی اور اس کا نام یحییٰ تجویز کیا‘ حضرت یحییٰ ؑنے حضرت عیسیٰ ؑ کو دریائے اردن میں بپتسمہ دیا تھا۔
دمشق میں اس وقت ہیرودس کی حکومت تھی‘ بادشاہ اپنی سوتیلی بیٹی یا بھتیجی سے شادی کرنا چاہتا تھا‘ اس نے حضرت یحییٰ ؑ سے فتویٰ مانگا‘ حضرت یحییٰ ؑنے انکار کر دیا‘ بادشاہ نے انکار کے باوجود لڑکی سے شادی کر لی‘ لڑکی نے بادشاہ سے حضرت یحییٰ ؑکا سر مانگ لیا‘ ہیرودس کے فوجیوں نے حضرت یحییٰ ؑکا سر مبارک کاٹ کر دمشق بھجوا دیا‘ یہ سر بعد ازاں یہاں دفن کر دیا گیا‘ سر مبارک کے گرد چرچ بن گیا‘ یہ چرچ اموی دور کے شروع تک موجود تھا‘ یہ جگہ صدیوں سے عبادت گاہ چلی آ رہی تھی‘ یہ چرچ سے قبل یہودیوں کی عبادت گاہ تھی اور یہ یہودیوں سے پہلے رومی بادشاہوں کا ٹمپل تھا‘ مسلمانوں نے فتح شام کے بعد کلیسا ء کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد بنا دی۔
حضرت یحییٰ ؑ کا مزار کلیساء کے اندر تھا‘ کلیساء میں ایک بلند مینار بھی تھا‘ عیسائی عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ قیامت سے قبل اس مینار پر اتریں گے‘ عیسائیوں نے کلیساء کے مینار پر حضرت عیسیٰ ؑکا چبوترا بھی بنا رکھا تھا‘ یہ جگہ اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان نے دو شرائط پر عیسائیوں سے حاصل کر لی اور اس جگہ خانہ کعبہ‘ مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ کے بعد دنیا کی چوتھی خوبصورت اور شاندار ترین مسجد بنا دی یوں مسجد امیہ مسلمانوں کا مقدس ترین مقام بن گئی۔
عیسائیوں کی شرائط میں مینار عیسیٰ ؑ کو قائم رکھنا اور شہر میں نئے کلیساء قائم کرنے کی اجازت شامل تھی‘ ولید بن عبدالملک نے یہ دونوں شرائط مان لیں‘ عیسائیوں نے اس کے بعد جہاں جہاں اشارے کیے‘ حکومت نے وہ زمین ان کے حوالے کر دی‘ عیسائیوں کو کلیساؤں کی تعمیر کے لیے فنڈز بھی دیے گئے‘ حضرت عیسیٰ ؑ کے مینار کو بھی مسجد کے میناروں میں شامل کر لیا گیا‘ یہ مینار آج بھی موجود ہے‘ یہ مسجد کی مشرقی سائیڈ پر ہے اور یہ سفید مینار کہلاتا ہے‘ مینار کی سیڑھیاں مسجد کے ہال میں کھلتی ہیں لیکن یہ سیڑھیاں ہمیشہ بند رہتی ہیں۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ قیامت سے پہلے دو فرشتوں کے ساتھ اس مینار پر اتریں گے‘ حضرت امام مہدی کے پیچھے نماز فجر پڑھیں گے‘ مسجد کا مرکزی دروازہ کھلوائیں گے‘ دجال اپنی فوجوں کے ساتھ مسجد کے گیٹ پر کھڑا ہو گا‘ جنگ ہو گی‘ دجال پسپا ہوگا اور حضرت عیسیٰ ؑ اسے ’’لد‘‘ کے مقام پر قتل کر دیں گے‘ یہ اس کے بعد مدینہ جائیں گے‘ یہ 45 سال زندہ رہیں گے‘ طبعی عمر پوری کریں گے اور روضہ رسولؐ میں ان کی چوتھی قبر بنا دی جائے گی۔
حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد حضرت مقعد خلیفہ بنیں گے‘ یہ 30 سال حکومت کریں گے اور پھر قیامت آ جائے گی‘ مسجد امیہ کے ہال میں حضرت ہود ؑ اور حضرت خضر ؑ کے مقامات بھی ہیں‘ حضرت خضر ؑ اس مقام پر نماز پڑھنے کے لیے تشریف لاتے تھے جب کہ حضرت ہود ؑ قدیم زمانے میں اس مقام پر عبادت فرماتے تھے۔
حضرت امام حسینؓ کے سر مبارک اور اہل بیت کے قید خانے تک جانے کے لیے مسجد کے صحن میں آنا پڑتا ہے‘ میں مسجد کا پورا صحن عبور کر کے آخری کونے میں گیا‘وہاں ایک بڑا دروازہ تھا‘ دروازے کے اندر دو ہال اور ایک گیلری تھی‘ ہال میں حضرت زین العابدین ؓ کا مصلیٰ تھا‘ آپ نے وہاں ایک ہزار نفل ادا کیے تھے‘ مصلیٰ سے آگے چاندی کا ایک طاق تھا‘ روایت کے مطابق یزید کی فوج نے حضرت امام حسینؓ کا سر مبارک اس طاق میں رکھا تھا۔
طاق کی دوسری طرف سر مبارک کا روضہ شریف تھا‘ چاندی کی جالیوں کے اندر سبز کپڑا تھا اور کپڑے کے اندر قبر مبارک‘ قبر کے سرہانے عمامہ بندھا تھا‘ ایک روایت کے مطابق حضرت زین العابدینؓ امام عالی مقام کا سر مبارک کربلا لے گئے تھے اور آپ نے اسے امام کے جسم اطہر کے ساتھ دفن کر دیا تھا‘ دوسری روایت کے مطابق صلیبی جنگوں کے دوران جب دمشق پر عیسائی قبضے کا خطرہ پیدا ہو گیا تو مصر کے فاطمیوں نے 1153ء میں سر مبارک نکالا اور یہ اسے قاہرہ لے گئے‘ سر مبارک جامعہ الازہر کے قریب دفن کر دیا گیا اور اس کے گرد مسجد حسینیہ بنا دی گئی۔
مجھے قاہرہ کی مسجد حسینیہ میں بھی حضرت امام حسینؓ کے روضہ مبارک کی زیارت اور دعا کی سعادت حاصل ہوئی‘ مسجد امیہ کا یہ حصہ مشہد الرأس کہلاتا ہے‘ یہ یزید کے محل میں شامل تھا‘ محل ختم ہوگیا‘ اس کا بڑا حصہ مسجد امیہ میں شامل ہو گیا لیکن اہل بیت کے صدقے مشہدالرأس آج بھی قائم ہے اور روزانہ ہزاروں لوگ اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔
مسجد امیہ حقیقتاً تعمیراتی شاہکار ہے‘ مسجد کے ہال‘ دیواریں اور فرش بھی کمال ہیں اور اس کا صحن‘ بیرونی دیواریں اور گیٹ بھی‘ یہ مسجد جمالیات کا نقطہ انتہا ہے‘ ولید بن عبدالملک نے بیرونی دیواروں اور گنبد پر ہزاروں ٹن سونا لگوایا‘ دیواروں میں سونے سے باقاعدہ پچی کاری کی گئی ‘ یہ پچی کاری سورج کی روشنی میں چمکتی ہے تو آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں‘ مسجد کے چار دروازے ہیں‘ یہ چاروں دروازے چار بڑے محلوں میں کھلتے ہیں اور یہ محلے شہر کی پیچ دار گلیوں میں تقسیم در تقسیم ہو کر گم ہو جاتے ہیں‘ مسجد کی بیرونی دیواریں مسجد قرطبہ اور محلے قرطبہ شہر سے ملتے جلتے ہیں‘ یہ دنیا کی واحد مسجد ہے جس میں ایک مؤذن اذان نہیں دیتا‘ مؤذنوں کا گروپ کھڑا ہو کر اذان دیتا ہے اور مختلف آوازوں میں گندھی یہ اذان دل میں اتر جاتی ہے۔
اذان کی آواز باری باری تمام میناروں سے آتی ہے‘ اذان کا ایک حصہ ایک مینار سے نشر ہوتا ہے‘ دوسرا دوسرے اور تیسرا تیسرے سے اور آخر میں تمام مینار اللہ اکبر اللہ اکبر سے گونج اٹھتے ہیں اور یہ آوازیں بعد ازاں نسوں میں گردش کرتے لہو کی طرح دمشق کی قدیم گلیوں میں اتر جاتی ہیںاور پورے شہر پر ایک مقدس غلاف سا چڑھ جاتا ہے‘ میں جمعہ کی شام کو مسجد کے مغربی دروازے کے سامنے چار سو سال پرانے قہوہ خانے میں بیٹھا تھا‘ مغرب کی اذان شروع ہوئی اور میں نے اپنی کھلی آنکھوں سے پورے شہر کو حی علی الفلاح میں ڈوبتے دیکھا‘ میری آنکھیں بھیگ گئیں‘ وقت ٹھہر گیا۔