فرقہ واریت کا خاتمہ! مگر کیسے؟

فرقہ وارانہ دہشت گردی پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ گزشتہ کچھ برسوں کے دوران ہزاروں افراداس فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں جن میں پروفیسر، دانشور، علماء ، وکلاء ، تاجر، ڈاکٹر ، انجینئر، سول و عسکری آفیسرز اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کے علاوہ نوجوان، طلبہ، بچے، بوڑھے اور خواتین شامل ہیں جن کو محض مسلکی وابستگی کی بنا پر نشانہ بنایا گیا ۔اس تشدد اور انتہا پسندی کی وجہ سے ایک طرف خوف اور منافرت کی فضا عام ہو رہی ہے اور دوسری طرف اعلیٰ صلاحیتوں کے حامل افراد بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ رجحان عالمی سطح پر پاکستان کے وقار اورتشخص کونقصان پہنچا رہا ہے ۔ اختلاف رائے میں کوئی عیب نہیں مگر آج بعض مقامات پر ہمارے مسلکی اختلافات دشمنی وعناد، الزام تراشی، کذب و افتراء یہاں تک کہ ایک دوسرے کی تکفیرسے بڑھ کر خون ریزی کی حد کو پہنچ گئے ہیں۔مذہبی حلقوں میں باہمی عداوتوں کے نتیجے میں دین اسلام کو بدنام اور مورد الزام ٹھہرایا جارہاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہماری سماجی و سیاسی زندگی پر بھی بہت زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔مسلکی اختلاف کی اس دلدل میں مذہب کی اعلی اقدار اور اخلاقیات کومکمل نظر انداز کر دیا گیاہے۔

اگرچہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ موقف پیش کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں کوئی فرقہ وارانہ تشدد نہیں ہے ، پاکستان میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل و غارت میں دشمن ممالک کی ایجنسیاں شامل ہیں۔ان کے نزدیک مسالک کے درمیان فروعی اختلافات ہیں جبکہ بنیادی عقائد پر کوئی اختلاف نہیں۔ تاہم دیگر مذہبی مفکرین اور سکالرزکے نزدیک یہ تصور مصنوعی اور سطحی نوعیت کا دکھائی دیتا ہے کیونکہ فروعی اور فقہی اختلاف کی بناء پرکوئی مسلک دوسرے مسلک کی تکفیر نہیں کرتا۔ ایک دوسرے مسالک کے بارے میں فتویٰ لگانے والوں میں برصغیر کے جید علمائے کرام بھی شامل رہے ہیں۔ سلامتی امور کے ماہرین کے مطابق بیرونی سازشوں کے امکانات سے قطع نظر حالیہ فرقہ وارانہ تشدد میں نہ صرف مختلف مسالک کے افراد ملوث ہیں ،بلکہ اپنے عمل کو جائز قرار دینے کے لئے اپنے مسالک کے اکابرین کے دیے گئے فتووَں کاہی سہارا لیتے ہیں۔

پاکستان میں اتحاد واتفاق کی بحث کے تناظر میں تمام مذہبی طبقات مسالک کی موجودہ تقسیم کو حقیقت مانتے ہیں اور ان کے ادغام کو خارج از امکان سمجھتے ہیں۔اس لئے سب اس بات پر متفق ہیں کہ اپنے اپنے عقائد و نظریات پر کاربند رہتے ہوئے اتحاد واتفاق کی کوششیں کی جا سکتی ہیں۔ اہل فکر و نظر کی جانب سے یہ تجویز سامنے آئی کہ فرقہ وارانہ تشدد کے موجودہ تصورات اور اسباب کا عمیق جائزہ لیا جائے تاکہ ا ن کی روشنی میں اتحاد امت کے لئے ایک متبادل بیانیہ اور لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے۔یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ متبادل یا جوابی بیانیہ (Counter Narrative)فقط کسی ایک دستاویز کا نام نہیں بلکہ یہ مسلسل سماجی تعامل کا نام ہے۔اس دستاویز سے مسلکی اور منافرت کے اثرات کو زائل کرنے میں یقینا مدد ملے گی۔ بیشتر مذہبی مفکرین کی رائے کے مطابق ماضی میں بھی پاکستان میں علمائے کرام نے بین المسالک ہم آہنگی کے لئے کوششیں کی ہیں جو کافی حد تک ثمر آور رہی ہیں جن کی بدولت فرقہ وارانہ تشدد ایک حلقے تک محدود رہا اور عوام اس سے لاتعلق رہے۔ الحمد للہ کہ آج بھی تقویٰ شعار،اعلیٰ کردار، اعتدال پسند اور صاحب بصیرت علماء و صلحائے امت کا ایک گروہ موجود ہے جو امت مسلمہ کے درد کو سمجھتا ہے اور پاکستان میں اتحاد امت کے لئے ہر محاذ پر کوشاں ہے۔
ماضی قریب میں ملی یکجہتی کونسل، متحدہ مجلس عمل سمیت کئی فورم معرض وجود میں آئے جس میں تمام مکاتب فکر کے جید علماء کرام نے مسلکی شدت پسندی کے خلاف بھرپور جہاد کیا،اسی طرح تمام مکاتب فکر کے جید اکابرین اجتماعیت اور وحدت کے موضوعات پر کتابیں لکھیں اورمسلکی منافرت کو کم کرنے میں کردار ادا کیا۔

گزشتہ عرصہ میں اسلامی مفاہمتی کونسل اورمجلس تحقیقات اسلامی کے ساتھ ایک تفصیلی نشست ہوئی چونکہ بہت سے امور زیرغور آئے، راقم نے اس فکری نشست کے چند چیدہ نکات پیش کئے جو کہ فرقہ واریت کے خاتمے میں موثر ثابت ہوسکتے ہیں۔

1: تمام مذہبی حلقہ ہائے فکر کے مابین باہمی میل جول ، مکالمہ اور تبادلہ خیال کے مواقع پیدا کریں اور ہم آہنگی کے بیانیہ کو زیر بحث لائیں۔

2: تنوع اور اختلاف کے فطری وجود اور آداب پر مباحث اور تربیتی نشستوں کا انعقاد کیا جائے۔

3: علمائے کرام کے متفقہ ہم آہنگی کے بیانیہ اور تحقیقی مواد کی نشر و اشاعت کے لیے منصوبہ سازی؛مذہبی جرائد و رسائل میں مضامین کی اشاعت مرکزی ذرائع ابلاغ میں ان موضوعات پر مباحث سوشل میڈیا کے ذریعے مکالمہ (فیس بک اور واٹس اپ گروپس بنائے جائیں)

4: بین المسالک ہم آہنگی اور رواداری کے لئے جید علماء کی سرپرستی میں ایک پرامن تحریک کا آغاز کیا جائے۔اور بین المسالک علماء کا ایک غیر سیاسی انجمن بنائی جائے جو مختلف مدارس اور مساجد میں جاکر ان موضوعات کو زیر بحث لائیں۔

5 برداشت ورواداری کے فروغ کے لئے شاعری اور ترانوں سمیت فنون لطیفہ اور صحت مندانہ سرگرمیوں کو فروغ دیا جائے۔

6 وطن سے محبت اور انسانی ہمدردی کی نظمیں اور ڈاکو مینٹریزبنا کر نشر کئے جائیں۔

7 علمائے کرام ، مدارس او رکالجز کے طلباء کو بین الاقوامی تعلقات ، سفارتکاری کے آداب اور موجودہ ریاستوں کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے آگاہی فراہم کی جائے۔

8 جدیدریاست کیا ہے؟ اس کے خدوخال کیا ہیں؟معاشرہ کی سماجی ضروریات کیا ہیں؟آئین کا کیا مقصد ہے ؟اس طرح کے موضوعات پر علمائے کرام کی تربیت اور تحقیق کی رغبت ان کو منفی سرگرمیوں سے روکنے میں مددگار ہو سکتی ہے۔

9 ہر مسلک کے اندر مصلحین اور داعیان اتحاد سے روابط قائم کریں اور مختلف سرگرمیوں کے انعقاد کر کے ان کو تقویت پہنچائیں۔

10 مسلکی اختلاف کے حوالے سے سول سوسائٹی کی تعلیم وتربیت اور ذہن سازی سب سے موثر کردار ادا کر سکتی ہے۔ معاشرے کے تمام با اثر طبقات کی ذہن سازی کو مستقل طو رپر موضوع بنانا چاہیے، اس لیے کہ کسی بھی رویے کو جب تک عام معاشرے کی طرف سے تائید اور ہمدردی نہ ملے، وہ جڑ نہیں پکڑ سکتا۔

11 دینی راہ نماوَں کی ذہنی ونفسیاتی تربیت بھی کام کا ایک اہم میدان ہے۔ اس کے لیے استعداد کار میں اضافہ کے باقاعدہ منصوبے بنانے چاہیے اور مستقبل کے متوقع دینی قائدین کو فکر وشعور کے ساتھ ساتھ ایسی عملی مہارتیں بھی سکھانی چاہئے جن سے ان کا کردار مثبت رخ پر ڈھل سکے اور وہ اپنی مساعی کو تعمیر معاشرہ پر مرکوز کر سکیں

12 مختلف تعلیمی اداروں میں اسلامک سٹڈیز کے ٹیچرز کی تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے اور انہیں اتحاد امت کے بیانیے پر خصوصی تربیت دی جائے۔

امید ہے کہ مذکورہ بالا تجاویز پر غور وفکر کے بعد ہم فرقہ واریت کی آگ کو بجھاسکتے ہیں .

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے