عالم بالا/سات آسمان پار
بمقام اتفاق ہائوس
پیارے بیٹو!نواز، شہباز
سلام دعا کے بعد عرض ہے کہ جب سے میں نے سنا ہے کہ تمہارے درمیان سیاسی ہم آہنگی نہیں رہی اور باہر کے لوگ کوشش کررہے ہیں کہ آپ دونوں میں اختلافات بڑھ جائیں ایک بھائی گرفتار ہو کر جیل میں چلاجائے اور دوسرا مایوس ہو کر گھر میں بیٹھ جائے۔میری نیند اڑ گئی ہے اور مجھے یاد آرہا ہے کہ کس طرح میں نے سارے خاندان کو مکھن سے بال کی طرح جیل سے نکال لیا تھا اور پھر سعودی عرب کی مقدس سرزمین پر ہم سب نے آپس میں اچھے دن گزارے، تم لوگوں نے میری زندگی کے آخری سانس تک ایسی خدمت کی کہ عالم بالا کے لوگ بھی ا ٓج تک اس پر عش عش کرتے اور تمہیں دعائیں دیتے ہیں۔
تمہارا بھائی عباس شریف اس وقت میرے پاس بیٹھا ہے، اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور بار بار وہ ایک ہی بات کہہ رہا ہے کہ دونوں بھائیوں کے درمیان سیاسی اختلاف ہمارے خاندان کے زوال کا سبب بنے گا۔
جان پدر!
عباس شریف نے ابھی مجھے بتایا ہے کہ ہفتہ دس دن پہلے تم دونوں بھائی پوتوں اور نواسوں کے ساتھ میری اور عباس کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے آئے اور وہاں پھولوں کی چادریں بھی چڑھائیں۔ سنا ہے وہاں میرا پسندیدہ نعت خوان’’جامی‘‘ بھی موجود تھا۔ وہاں لازماً میاں محمد بخش کا کلام بھی پڑھا گیا ہوگا تمہیں تو علم ہی ہے کہ مجھے میاں محمد بخش کا کلام کس قدر پسند ہے۔ اتفاق ہسپتال کے ایک بلاک کا نام بھی میں نے، میاں صاحب کے نام پر رکھا تھا۔ یہاں بھی میں ان کا کلام سنتا رہتا ہوں دو دفعہ میاں محمد بخش کے محل میں جاکر حاضری بھی دی، پچھلی دفعہ میں وہاں گیا تو میاں صاحب کے روبرو ایک خوش الحان شخص یہ شعر پڑھ رہا تھا؎
نہ کوئی رو ملاحظہ اوتھے، نہ کوئی عذر بہانہ
جو کجھ کرسیں سو ایہو مل سی، ڈاڈہا عدل شاہانہ
ترجمہ :وہاں نہ کوئی رو رعایت ہے اور نہ کوئی بہانہ چلے گا، جو کچھ کریں گے اس کا بدلہ ملے گا، وہاں کا عدل بہت سخت ہے۔ یہ شعر سنتے ہی مجھ پر خوف سے کپکپی طاری ہوگئ اور مجھے یقین ہوگیاکہ پاناما کا فیصلہ ہمارے خلاف آئے گا اور یہ شعر دراصل میرے لئے اشارہ ہے۔ بدقسمتی سے ایسا ہی ہوا، ابھی کل میں نے میاں محمد بخش صاحب کو رقعہ بھیجا ہے کہ میرے خاندان کے لئے اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعا کریں تاکہ مشکل وقت آسان ہوجائے۔ میاں صاحب نے جواباً لکھا کہ دونوں بھائیوں میں اتفاق رہا تو بہتری کی امید ہے ساتھ ہی یہ شعر بھی لکھ بھیجا۔
بھائی بھائیاں دا درد ونڈادے
تے بھائی بھائیاں دی باہنواں
باپ سرے دا تاج محمد
تے مانواں ٹھنڈیاں چھانواں
ترجمہ :بھائی ہی بھائی کا درد بانٹتے ہیں بھائی ہی بھائیوں کا بازو ہوتے ہیں، باپ سر کا تاج ہوتے ہیں جبکہ مائیں ٹھنڈی چھائوں کی طرح ہیں۔
نواز بیٹے!
میں نے اپنی وفات سے پہلے جدہ میں تمہیں خاندان کا سربراہ مقرر کردیا تھا اور میرے علم میں ہے کہ تم نے یہ ذمہ داری بڑی اچھی طرح نبھائی، عباس شریف کے خاندان کا اس کی وفات کے بعد پوری طرح خیال رکھا۔ شہباز شریف کو بھی ہمیشہ اس نے جو چاہا تم نے بڑا دل کرکے سب کچھ دیا۔ اب اگلی نسل کی باری آگئی ہے جو پختہ رشتہ تم اور شہباز میں ہے وہ حمزہ اور مریم یا سلیمان اور حسین و حسن نواز شریف میں نہیں ہوسکتا۔ میں نے تمہارے اور شہباز کے درمیان ہمیشہ منصفانہ تقسیم کی ہے، پرویز الٰہی کی بجائے شہباز شریف کو وزیر اعلیٰ بنانے کی تجویز بھی میں نے دی تھی۔ تمہیں یاد ہوگا کہ اگلی نسل میں سے پہلے شریف گروپ آف انڈسٹریز کا ایم ڈی حسین نواز شریف کو بنایا گیا تھا مگر جب حمزہ پڑھ کر واپس آیا تو میں نےخاندانی لڑائی یا کزنز کی چپقلش سے بچنے کے لئے حمزہ شہباز شریف کو انڈسٹری کا انچارج بنادیااور حسین نواز شریف کو میں نے اپنے ساتھ شریف میڈیکل کمپلیکس میں لگالیا۔ یوں میں نے اس معاملے کو خوش اسلوبی سے سلجھالیا تھا اور دونوں نے اپنا کام بہت اچھی طرح کیا۔ اسی طرح جدہ میں جب شہباز شریف کو پارٹی صدر بنانے کا معاملہ آیا تھا تو میں نے اس کی سفارش کرکے تمہیں زور دیا تھا کہ اسے صدر بنادو اور واقعی وہ فیصلہ بھی صحیح ثابت ہوا۔
پیارے بیٹو!!!
عالم بالا میں افواہ اڑی ہوئی ہے کہ میاں شریف کے بیٹے آمنے سامنے آگئے ہیں اور سب مخالف انتظار میں ہیں کہ یہ کب لڑیں گے تاکہ سب ہمارے روایتی خاندان کے گھر جلنے کا تماشا دیکھیں۔ جو بات تمہیں سمجھانے کی ہے وہ یہ ہے کہ اولاد کی محبت بھی بہت بڑا فتنہ ہوتی ہے ،مشترکہ خاندان ہو یا ایک مشترکہ سیاسی جماعت اس میں اپنی اپنی اولاد کو ترجیح دو گے تو اس کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ میری تجویز سمجھو یا وصیت سمجھو تم دونوں بھائی ایک کمرے کو بند کرکے اس میں بیٹھ جائو اور اس وقت تک کمرے کو نہ کھولو جب تک تم میرٹ پر جانشین کا فیصلہ نہ کرلو۔مریم ہو یا حمزہ، تم دونوں کو برابر کا چانس دے کر فیصلہ کرو۔جس طرح زندگی بھر تم دونوں بھائی آگے پیچھے چلتے رہے ہو ان کی بھی اسی طرح کی ٹیم بنادو ،ہاں اگر تم دونوں پر اولاد کی محبت اس قدر غالب آگئی کہ بھائی کی محبت کم ہوگئی ہے تو پھر دونوں کے زوال کو کوئی نہیں روک سکتا۔ شہباز کو بھی سوچ سمجھ کر چلنے کی ضرورت ہے اور تمہیں بھی اپنا جارحانہ انداز کم کرنے کی ضرورت ہے۔ دونوں کھلے دل سے درمیانی راستہ اختیار کروگے تو مصالحت کی راہ نکل آئے گی وگرنہ تمہارے سیاسی دشمن تمہیں چیر پھاڑ کر پھینک دیں گے۔
عزیز از جان بیٹو!
مجھے علم ہے کہ اولاد کی محبت میں بیویاں سب سے آگے آگے ہوتی ہیں، جانشینی کے حوالے سے بیویوں کی بات نہ سنو ورنہ تمہارا کبھی اتفاق نہیں ہوگا۔ یہ بھی سوچ لیناکہ اگر تم الگ الگ ہوگئے یا تم نے علیحدہ علیحدہ سیاسی راستہ اپنالیا تو پھر بات آپس کی لڑائی تک پہنچے گی جو کسی صورت مناسب نہیں، راستہ وہ اپنائو جس میں سارے خاندان اور پارٹی کی بہتری ہو۔ اقتدار کے راستے سے اگر خاندان کی بحالی ہوتی ہے تو ٹھیک ورنہ سیاست کا راستہ کھلا ہے جدوجہد کرو۔ کلثوم کی طرح سڑکوں پر نکلو جدوجہد کرو تو سرخرو ہوجائوگے لوگ کہتے ہیں تمہارے بیٹے پھانسی چڑھ سکتے ہیں مگر جیل نہیں کاٹ سکتے ، میں نے کہا کہ میرے بیٹے جیل کیوں کاٹیں انہوں نے غلط کیا کیا ہے؟ اگر ان کا منصفانہ ٹرائل ہو تو وہ بری ہوجائیں گے۔ باقی تم فکر نہ کرو میں نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل جیلانی سے بات کی ہے وہ دن رات تاریں ہلا رہے ہیں اور کوشش کررہے ہیں کہ کوئی این آر او ہوجائے مگر مسئلہ یہ ہے کہ نئے عسکری خانوں کی ان سے واقفیت بہت کم ہے وگرنہ پہلے تو یہ چٹکی بجاتے تھے اور کام ہوجاتا تھا مگر اب انہیں بھی مشکل پیش آرہی ہے کیونکہ یہ ان کی بات ہی نہیں سن رہے۔ سب گھروالوں کو درجہ بدرجہ سلام۔
تمہارا ابّا جی محمد شریف بقلم خود