جماعت اسلامی کا تنزل _ ایک سنجیدہ بحث

ایک دفعہ پھر حلقہ این اے چار کے نتیجے نے جماعت اسلامی کی مجموعی کارکردگی؛ ساکھ اور سیاسی وجود پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے.
انتخابی میدان میں جماعت کی بدترین شکستوں نے مجھ سمیت ہر درد دل رکھنے والے باشعور اور سنجیدہ فرد کو تشویش و اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے
آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بناء پر ایک قدیم معتدل مذہبی و سیاسی جماعت دن بدن نہایت سرعت کے ساتھ رو بہ زوال ہے اور اسکی جگہ ایک جدید نومولود پرتشدد خالص مسلکی چھاپ رکھنے والی تحریک لبیک یار سول اللہ برتری کی جانب چلی جا رہی ہے.
اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جس پر ابھی تک موروثیت کے منحوس سائے نہیں پڑے اور مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ اکثر جماعتی کارکن دیگر مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کے برعکس ہر پلیٹ فارم پر اپنا موقف اخلاقیات و شائستگی کے دائرے میں رہ کر بیان کرتے ہیں اور ردعمل میں شائستگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اسی طرح جماعت کے افراد جدید تعلیم سے آراستہ و پیراستہ ہو کر قرآن و سنت کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں جماعتی ڈسپلن نظم و ضبط بھی اپنی مثال آپ ہے.
لیکن سوال یہ ہے کہ آئین و قانون اور جمہوریت پر یقین رکھنے والی یہ جماعت آخر اپنی سیاسی حیثیت کیوں کھو بیٹھی ہے؟
وہ اضلاع جو کبھی جماعت کا گڑھ خیال کیے جاتے ہیں وہاں چند سو ووٹوں کا ملنا بھی محال ہو چکا ہے .
اس تنزلی کو طعن و تشنیع الزامات اور ٹھٹھہ بازی کا نشانہ بنانے کی بجائے اس المیے پر ہر باشعور سیاسی و مذہبی فرد کو نہایت درد مندی کے ساتھ حقیقت اور سنجیدگی کے ساتھ سوچنا سمجھنا چائیے زوال کے اسباب و وجوہات پر حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جانا چاہیے.
جماعت کو اپنے اندرونی جماعتی سسٹم کا دائرہ کار وسیع کرنا چائیے دعوت اور دیگر شعبہ جات کو سیاسی ونگ سے بالکل الگ رکھنا چائیے.
سیاسی میدان میں صالح و غیر صالح کی تفریق ختم کر کے ہر فرد کو احتسابی عمل سے گزارنے کے بجائے ہر ایک کے لیے دروازے کو کھلا رکھنا چاہیے زندگی کے حقیقی و جاندار ایشوز پر بات کیجئے اور عملی طور پر خدمت خلق کے میدان کا انتخاب کیجئے
اردگان کے رول ماڈل کی سب تعریف کرتے ہیں لیکن اسے اپنانے سے سب گریزاں ہیں جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کو سیاست میدان میں مذہبی جذبات کا استعمال کرنے کی بجائے اردگان کی طرح عوامی سیاست شروع کرنی چاہیے .
سیاسی حوالے سے جماعتی قائدین کا دہرا معیار باشعور کارکن کو بری طرح کنفیوز کر ڈالتا ہے جماعت کی سیاست ہر نئے امیر کے آنے بعد بدل جاتی ہے پرانی پالیسی منسوخ ہو جاتی ہے. پھر وہ استحکام باقی نہیں رہتا جو سیاسی جماعتوں کی مستقل لچکدار پالیسیوں کے لیے از حد ضروری ہوتا ہے.
سیاسی میدان میں قائدین سے لیکر کارکنان تک جماعت دو صفوں میں بٹی نظر آتی ہے جماعت کے قائدین میں سے فرید پراچہ اور لیاقت بلوچ صاحب کے فرزندان ن لیگ کے ٹکٹ سے کھڑے ہو کر انتخابی میدان میں اترے جماعت کا ایک حلقہ ن لیگ کا حامی ٹھہرایا جاتا ہے. سوشل میڈیا پر کچھ جماعتی دوست ن لیگ کی حمایت میں جاتے ہیں اور کچھ خان صاحب کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں جماعت کے امیر محترم سراج الحق صاحب( جنکے خلوص و سادگی میں کوئی شک نہیں )بے لاگ احتساب کے لیے سپریم کورٹ جاتے ہیں جسکے نتیجے میں وزیر اعظم کو نااہل قرار دے دیا جاتا ہے لیکن پھر یہ چنگاری یک دم بجھ جاتی ہے اور چراغوں میں روشنی باقی نہیں رہتی. صوبے میں اپنی اتحادی پارٹی کی کرپشن خلاف کوئی آواز نہیں بلند ہو رہی.
جماعت کے ووٹ کی تقسیم کے اسباب میں سے بڑا سبب شاید قائدین کی سیاسی پالیسیاں اور یک طرفہ ٹریفک ہے جسنے باشعور کارکنان کو سیاسی میدان جماعت سے دور کر دیا ہے.
ہمیں سیاسی میدان میں بڑے بڑے ایسے نام نظر آتے ہیں جو کبھی جماعت کا پانی بھرتے رہے اب معاصر جماعتوں میں کلیدی عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں.
مذہبی طبقے میں جماعت کو جس طرح جگہ بنانی چاہیے تھی شاید وہ نہ بنا سکی جس کی بڑی یہ ہے کہ جماعت ہر مسلک سے بالاتری کا دعوی کرتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جماعت بھی بری طرح مسلکی بھنور میں پھنس چکی ہے جسکا دائرہ کار فکر مودودی کے اردگرد گھومتا ہے دیگر مذہبی جماعتوں کی طرح یہ مذہبی حلقے میں فکر مودودی رح کے ساتھ اپنا وہ مقام بحال نہ کرا سکی.
باخبر حضرات یہ بھی کہتے ہیں جماعت کے اندر پراپرٹی مافیا کافی عرصہ سے اپنا کھیل کھیل رہا ہے جس نے سب سے پہلے جماعتی لوگوں کو ڈسا جسکا اثر جماعت کے ووٹ بینک پر بھی پڑا.
بہرحال یہ چند گزارشات جماعتی احباب کی خدمت میں پیش کرنی تھیں سو ہم نے کر دیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے