یوم آزادی گلگت بلتستان اور اپنوں کی غلامی!

آزادی بہت بڑی نعمت ہے ،دنیا کا ہر انسان آزادی کا متلاشی رہتا ہے، تمام شعبہ ہای زندگی میں ترقی اور پیشرفت کرکے کمال حاصل کرنے کے لئے آزادی بنیادی شرط ہے- جو قوم فکری طور پر آزاد ہوتی ہے وہ زندگی کے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواسکتی ہے- آزادی کے مقابل والی صفت کا نام غلامی ہے، غلامی کی بهی اتنی ہی قسمیں ہیں جتنے آزادی کے اقسام ہیں- اور غلامی کی قسموں میں سے بدترین قسم ضمیر وجدان اور فکری غلامی ہے، جو افراد فیزیکی طور پر تو آذاد نہ ہوں مگر ان کی فکر آذاد ہو تو وہ جیلوں کی بند کوٹهریوں میں قید ہوکر بهی کارنامہ ہائے نمایاں انجام دے سکتے ہیں ،جیسے ایران کے سابق صدر مرحوم ہاشمی رفسنجانی نے رضا شاہ کے زندان میں محبوس رہ کر تفسیر راہنما کے نام سے ایک نفیس قرآن کی تفسیر لکهی، شهید اول ودوم نے جیل خانے کے اندر فقہ کی عظیم کتابیں جو لمعہ کے نام سے معروف ہیں تحریر فرمائیں، امام خمینی نے دیار غیر میں جلاوطن ہوکر رہتے ہوئے ایران کے انقلاب کے لئے زمینہ سازی کی، خطوط کے ذریعے عوام کی راہنمائی کرتے رہے بالآخر رضا شاہ کی حکومت کا تختہ الٹ کر انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کرایا-

مگر وہ افراد یا قوم جو ظاہری طور پر تو آذاد ہو مگر ان کی ضمیر ووجدان اور فکر دوسروں کی غلام ہو وہ ہمیشہ تنزلی اور پستی کا شکار رہتی ہے، ترقی نامی چیز ان کا خواب بن کر رہ جاتی ہے، اور اگر کسی قوم نے دشمن سے تو آذادی حاصل کرلے مگر وہ اپنوں کے غلام بن کر رہے تو اس قوم کی حالت ناگفتہ بن کر رہ جاتی ہے، جس کی بین مثال گلگت بلتستان کی قوم ہے-

گلگت بلتستان کے مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بے پناہ قربانیاں دے کر مسلسل جدوجہد کرکے یکم نومبر ۱۹۴۷ کو ڈوگرہ راج سے اپنے خطے کو آذاد کرایا ،چنانچہ یہ دن گلگت بلتستان کے لیے یوم آزادی ہے۔ ہر سال یکم نومبر کو گلگت بلتستان میں لوگ آذادی کا جشن مناتے ہیں، شہروں اور اہم مقامات پر یوم آزادی گلگت بلتستان کی مناسبت سے تقاریب اور جلسے منعقد کرتے ہیں چونکہ یہ دن واقعا گلگت بلتستان والوں کے لئے بڑی خوشی کادن ہے، آزادی جیسی عظیم نعمت اپنی قوت بازو سے حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کادن ہے- لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈوگرہ راج سے تو گلگت بلتستان کی قوم کو آزادی ملی مگر آج تک اپنوں نے اس قوم کو غلامانہ زندگی گزارنے پر مجبور کر رکها , یوم آذادی گلگت بلتستان کے دوسال بعد وفاق نے اس خطے کو برائے نام پاکستان کے ساتھ الحاق تو کیا گیا مگر اسے آئینی و سیاسی اور معاشی حقوق سے محروم رکھا گیا اور ہے, جب بهی پاکستان کے مقتدر طبقوں سے خطہ بے آئین کے باسیوں نے اپنے حقوق کا مطالبہ کیا انہوں نے مختلف بہانے تراشتے ہوئے ہر دفعہ ان کے مطالبے کو مسترد کیاگیا در نتیجہ آج تک حقوق سے محروم رکها گیا – اگر ہم ان کے جعلی اور غیر حقیقت پر مبنی بہانوں کا خلاصہ دیکهنا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ مجموعی طور پر ان کے خود ساختہ بہانے چار چیزیں ہیں جن کا وہ بار بار تکرار کرتے رہتے ہیں- پہلی چیز یہ ہے وہ کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو حقوق دینے سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے،دوسرا بہانہ بقول ان کے یہ ہے کہ گلگت بلتستان وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات فاٹا کی طرح ہے – بعض کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان ملک کے دوسرے حصوں کی طرح ہے اور بعض کا عقیدہ یہ ہے کہ گلگت بلتستان آزاد کشمیر کا حصہ ہے –

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم ان بہانوں کو احتمال قوی کا درجہ بهی دے دیں تو ان محتملات کی بنیاد پر خطہ گلگت بلتستان کو یکسر طور پر حقوق سے محروم رکهنا کہاں کا انصاف اور کونسی منطق ہے؟ اگر گلگت بلتستان کو حقوق دینے سے کشمیر کاز کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو کشمیر کے برابر حقوق کیوں نہیں دیتے؟ اگر یہ فاٹا کی طرح ہے تو فاٹا کی طرح قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی کیوں نہیں دی جاتی؟ ۔اگر یہ ملک کے دیگر حصوں کی طرح ہے تو اسے مکمل صوبائی خود مختاری دینے سے انکاری کیوں ہیں؟ اگر گلگت بلتستان آزاد کشمیر کا حصہ ہے۔ تو آزاد جموں و کشمیر کی ریاست میں گلگت بلتستان کو نمائندگی دینے کی زحمت کیوں نہیں کی ؟۔ پس معلوم ہوتا ہے کہ پاکستانی حکمران پوری منصوبہ بندی سے جان بوجهہ کر گلگت بلتستان کو حقوق دینا نہیں چاہتے –

دوسرا سوال خود گلگت بلتستان کے لوگوں سے ہے کہ کب تک آپ حقوق سے محروم رہیں گے ؟
کیا ہمیں ہرسال یکم نومبر کو فقط یوم آزادی گلگت بلتستان کا جشن منانا کافی ہے؟ کیا ہمیں ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر صرف حقوق کی محرومی کے لئے آنسو بہاتے رہنا چاہیے؟ کیا گلگت بلتستان میں افرادی قوت کی کمی ہے؟ کیا گلگت بلتستان میں پڑهے لکهے باصلاحیت افراد نہیں؟ کیا جس طرح ڈوگرہ راج سے آذادی حاصل کی ہے اسی طرح حکومت پاکستان سے اپنے حقوق حاصل کرنے کی قوت وطاقت نہیں رکهتے ؟

سب کچهہ ہے – اللہ تعالی کے فضل وکرم سے گلگت بلتستان میں نہ افرادی قوت کی کمی ہے اور نہ تعلیم یافتہ افراد کی، ہاں احساس ذمہ داری کے فقدان ،احساس مسئولت ،بیداری، شعور ، صاحب بصیرت افراد ، ذاتی مفادات پر قومی اور اجتماع مفادات کو ترجیح دینے والوں اور اتحاد واتفاق کی کمی ضرور ہے- آج ہم دیکهتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں علماء ،قائدین، سیاستدان، عوامی نمائندے سمیت عوام میں احساس اور شعور بیدار کرسکنے والے افراد کی اکثریت اپنے اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے کسی نہ کسی طرح پاکستانی حکمرانوں کے ہاتهوں اسیر ہے ،ان کے اشارے سے وہ معاشرے میں فعال ہیں وہ وہی کرتے اور کہتے ہیں جو حکمران چاہتے ہیں جب تک گلگت بلتستان کے صاحبان علم وفکر بیدار ہوکر اتحاد واتفاق سے اپنے حقوق کی جهنگ نہیں لڑیں گے ہم اپنوں کے غلام ہی بن کر رہیں گے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے