ہمیں ایک بار پھر پیچھے جانا پڑے گا‘ 12 اکتوبر 1999ء ہو گیا‘ میاں نواز شریف خاندان سمیت گرفتار ہو گئے‘ یہ اٹک قلعہ پہنچے‘ اسمبلیاں معطل تھیں‘پاکستان مسلم لیگ ن اپنی دو تہائی اکثریت کے ساتھ بوکھلائی پھر رہی تھی اور شاہد خاقان عباسی کی ہمشیرہ بیرسٹر سعدیہ عباسی میاں نواز شریف کی وکیل تھیں‘ جنرل پرویز مشرف نے تعلقات بہتر بنانے کے لیے سیاستدانوں کے ساتھ ملاقاتیں شروع کر دیں‘ یہ سب سے پہلے اے این پی کے رہنما اجمل خٹک سے ملے اور ان کے بعد راجہ ظفر الحق سے ملاقات کی‘ جنرل مشرف نے راجہ ظفرالحق کو پارٹی قائد بننے کا اشارہ دے دیا‘ راجہ صاحب نے وقت مانگ لیا‘ جنرل مشرف اس کے بعد اعجاز الحق سے ملے‘ ملاقات میں جنرل اکرم اورجنرل محمود بھی شامل تھے۔
اعجاز الحق نے جنرل مشرف کو اسمبلیاں بحال کرنے کے لیے راضی کر لیا‘ جنرل مشرف نے اعجاز الحق سے وعدہ کیا آپ لوگ اگر نواز شریف کو پارٹی کی قیادت سے ہٹا دیں تو میں اسمبلیاں بحال کر دوں گا‘ آپ کسی بھی ایم این اے کو وزیراعظم بنا دیں‘ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا‘اعجازالحق اور جنرل اکرم نے مل کر پریس ریلیز تیار کی اور یہ خبر اگلے دن اخبارات میں ’’اسمبلیاں بحال ہو سکتی ہیں‘‘ کی سرخی کے ساتھ ہیڈ لائن لگ گئی‘ اعجاز الحق بعد ازاں رائے ونڈ میں میاں شریف مرحوم سے ملے‘ ملاقات میں مجیب الرحمن شامی اور الطاف حسن قریشی بھی شامل تھے‘ اعجاز الحق نے میاں شریف سے عرض کیا ’’آپ اسمبلیاں بحال ہونے دیں‘ نیا وزیراعظم آنے دیں‘ ہم میاں نواز شریف کو بچا لیں گے‘‘ میاں شریف نے بڑا دلچسپ جواب دیا‘ وہ بولے ’’جنرل پرویز مشرف نے 1999ء کے شروع میں میاں شہباز شریف کو پیش کش کی تھی آپ میاں نواز شریف کو پچھلی نشست پر بٹھا کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ جائیں‘ ہم آپ کو سپورٹ کریں گے‘ میاں شہباز شریف یہ آفر لے کر میرے پاس آئے۔
میں نے شہباز شریف سے کہا‘ یہ لوگ اس شخص کو برداشت نہیں کر رہے جس کے پاس دو تہائی اکثریت ہے‘ یہ تمہیں کیسے برداشت کریں گے‘‘ میاں شریف نے اس کے بعد اعجاز الحق سے کہا ’’یہ اگر نواز شریف کو گنجائش نہیں دے رہے تو یہ اس کی پارٹی اور پارٹی کے نئے وزیراعظم کوبھی موقع نہیں دیں گے‘ میرا مشورہ ہے آپ لوگ نواز شریف کا ساتھ دیں‘ آپ ایک بار کٹا کٹی نکلنے دیں‘‘ اعجاز الحق کا جواب تھا ’’میاں صاحب اسمبلیاں معطل ہیں اور شریف فیملی پر ہائی جیکنگ اور کرپشن کے مقدمے چل رہے ہیں‘ ہمیں آخری کوشش کر لینی چاہیے‘ میں گارنٹی دیتا ہوں ہمیں خواہ قانون بدلنا پڑا ہم نواز شریف کو بچا لیں گے‘‘ بڑے میاں صاحب مان گئے‘ فیصلہ ہوا اعجاز الحق اٹک قلعے میں میاں نواز شریف سے ملاقات کر کے انھیں قائل کریں گے‘ جنرل مشرف کو میاں صاحب کی رضا مندی کی اطلاع دے دی گئی‘پنجاب کے ہوم ڈیپارٹمنٹ نے اٹک قلعے میں اعجاز الحق اور میاں نواز شریف کی ملاقات طے کر دی لیکن میٹنگ سے ایک دن پہلے نواز شریف کی وکیل سعدیہ عباسی اعجاز الحق سے ملیں اور انھیں میٹنگ کی منسوخی کا پیغام دے دیا‘ خاقان فیملی کے ضیاء الحق کے خاندان سے پرانے مراسم تھے۔
سعدیہ عباسی اور اعجاز الحق ایک دوسرے کو بچپن سے جانتے تھے‘ اعجاز الحق نے وجہ پوچھی تو سعدیہ عباسی نے محتاط الفاظ میں بتایا ’’نواز شریف کو آپ کی پیش کش قبول نہیں‘‘ یوں یہ ڈیل ختم ہو گئی‘ اسمبلیاں بحال نہ ہو سکیں‘ شریف فیملی کو جلاوطنی دیکھنا پڑی اور ن لیگ بری طرح ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے سنجیدہ رہنماؤں کا آج بھی یہ خیال ہے اگر میاں نواز شریف اس وقت اپنی قربانی دے دیتے‘ یہ سائیڈ پر ہو جاتے تو پارٹی بھی بچ جاتی‘ جمہوریت بھی اور ملک بھی اور میاں نواز شریف کی جلد واپسی بھی ممکن ہو جاتی۔
ہم اب 2017ء میں واپس آتے ہیں‘ آج بھی صورتحال 1999ء سے مختلف نہیں‘ میاں نواز شریف اقتدار سے فارغ ہو چکے ہیں‘ یہ مقدمات بھی فیس کر رہے ہیں اور یہ بظاہر اس شکنجے سے نکلتے بھی نظر نہیں آتے‘ میاں نواز شریف کو 1999ء میں چوہدری شجاعت حسین‘ خورشید محمود قصوری‘ راجہ ظفر الحق‘ ہمایوں اختر اور اعجاز الحق یہ سمجھا رہے تھے ’’میاں صاحب آپ تھوڑی دیر کے لیے ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ دیں‘ ہم سب بچ جائیں گے‘‘ لیکن میاں صاحب نہیں مانے اور یوں سارا نظام دس سال کے لیے ’’وائینڈ اپ‘‘ ہو گیا‘ آج یہ بات انھیں چوہدری نثار‘ شاہد خاقان عباسی‘ خواجہ آصف اور میاں شہباز شریف سمجھا رہے ہیں‘ یہ انھیں بتا رہے ہیں آپ وقتی طور پر پیٹرن انچیف بن جائیں‘ آپ میاں شہباز شریف کو پارٹی کا صدر اور مریم نواز کو ان کا اسسٹنٹ بنا دیں‘ شاہد خاقان عباسی کو آزادی کے ساتھ حکومت کرنے دیں اور پاکستان آ کر مقدمات فیس کریں‘ ہم سات ماہ نکال جائیں گے‘ ہم اگلا الیکشن بھی جیت جائیں گے لیکن میاں صاحب نہیں مان رہے‘ یہ 1999ء کی ضد پر قائم ہیں‘ یہ کہہ رہے ہیں میں ہوں تو سب ہیں‘ میں نہیں تو کوئی بھی نہیں اور یہ وہ نقطہ ہے جس کی وجہ سے معاملات خراب ہو رہے ہیں۔
ملک میں آنے والے دنوں میں تین اہم واقعات ہوں گے‘ پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر ایک مفاہمتی گروپ بن جائے گا‘ یہ گروپ اداروں سے ٹکراؤ کے خلاف بنے گا‘ یہ حکومت اور فوج کے درمیان مفاہمت کی کوشش کرے گا‘ مفاہمت ہو گئی تو ٹھیک ورنہ یہ گروپ اپنا راستہ الگ کر لے گا‘ یہ گروپ شہباز شریف کی حمایت بھی کرے گا‘ گروپ کی قیادت ایک بزرگ مسلم لیگی کریں گے‘ دو‘ عدلیہ حکومت کو حسن نواز اور حسین نواز کو زبردستی پیش کرنے کا حکم دے گی‘ یہ میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کا حکم بھی دے سکتی ہے‘ حکومت کے لیے ان دونوں احکامات کی پیروی مشکل ہو جائے گی اور یوں عدلیہ اور حکومت آمنے سامنے کھڑی ہو جائیں گی‘ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔
یوسف رضا گیلانی کی جگہ شاہد خاقان عباسی ہوں گے اور آصف علی زرداری کی جگہ نواز شریف مگر اس بار کالے کوٹ پاکستان پیپلزپارٹی پہنے گی اور تین، احتساب کا عمل آصف علی زرداری تک وسیع ہو جائے گا‘ نیب نے دو دن قبل چوہدری شجاعت حسین‘ چوہدری پرویز الٰہی اور عبدالعلیم خان کے خلاف نوٹس جاری کر دیے ہیں‘ یہ نیٹ پریکٹس ہو رہی ہے‘ یہ ’’سب کے احتساب‘‘ کا نقطہ آغاز ہے‘ اگلی باری آصف علی زرداری کی ہو گی‘ سپریم کورٹ نے 16 دسمبر 2009ء کو این آر او کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے بعد سرے محل اور سوئس اکاؤنٹس میں موجود60 ملین ڈالر کا ایشو دوبارہ زندہ ہو گیا تھا‘ یہ ایشو اس وقت بھی نیب کی فائلوں میں سلگ رہا ہے‘ بس عمران خان کے سپریم کورٹ جانے کی دیر ہے اور آصف علی زرداری کی ’’منی ٹریل‘‘ بھی کھل جائے گی‘ ان سے بھی پانچ سوال پوچھ لیے جائیں گے‘ ایک‘ سرے محل آپ کا تھا یا نہیں‘ اگر ہاں تو یہ کیسے خریدا گیا‘ منی ٹریل کہاں ہے اور اگر نہیں تو آپ نے یہ فروخت کیسے کیا‘ دو‘ سوئس اکاؤنٹس میں موجود 60 ملین ڈالرز آپ کے تھے یا نہیں‘ آپ کے تھے تو یہ کہاں سے آئے اور اگر آپ کے نہیں تھے تو آپ نے یہ رقم ان اکاؤنٹس سے کیوں نکلوائی‘ تین‘ آپ کے پاس سندھ میں ایک لاکھ ایکڑ زمین کہاں سے آئی۔
چار‘ آپ کے پاس 19 شوگر ملیں کہاں سے آئیں اور پانچ آپ کے ذرایع آمدن کیا کیا ہیں اور دنیا میں آپ کی جائیدادیں کتنی اور کہاں کہاں ہیں‘ یہ سوال آصف علی زرداری کو بھی میاں نواز شریف کے ساتھ لا کھڑا کریں گے اور یوں وہ وقت آ جائے گا جب ایک عدالت میں میاں نواز شریف پیش ہو رہے ہوں گے‘ دوسری میں آصف علی زرداری کھڑے ہوں گے اور تیسری عدالت میں چوہدری برادران‘ جہانگیر ترین اور علیم خان اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوں گے اور یہ وہ حقائق ہیں جو چوہدری نثار میاں نواز شریف کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور شاہد خاقان عباسی یہ بتانے کے لیے 30اکتوبر کو ’’نجی دورے‘‘ پر لندن گئے لیکن میاں نواز شریف وقتی طور پر بھی مائنس ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں‘ یہ واپس آرہے ہیں‘ یہ واپس آ کر لڑیں گے بھی اور یہ قومی اسمبلی سے ’’نااہلی کے باوجود قائد‘‘ کا بل بھی پاس کرائیں گے‘ سینیٹ نے 23 اکتوبرکو ’’نااہلی کے بعد کوئی شخص کسی سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں رہ سکتا‘‘ کی ترمیم پاس کر دی‘ یہ ترمیم اب حتمی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں پیش ہو گی‘ حکومت کا خیال ہے ن لیگ کے 70 ارکان اس دن قومی اسمبلی نہیں آئیں گے‘ میاں نواز شریف ان 70 ارکان کے لیے بھی واپس آ رہے ہیں‘ یہ پنجاب ہاؤس میں بیٹھ کر قومی اسمبلی میں اپنے ارکان پورے کریں گے اور یہ بل کو دوبارہ پاس کرائیں گے‘ یہ نیب کا بستر بھی گول کرائیں گے۔
شاہد خاقان عباسی کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی تائید حاصل تھی‘ یہ جنرل باجوہ کے قریب ہیں لیکن وزیراعظم نے 30 اکتوبرکو ’’نجی دورے‘‘ پر لندن جا کر‘ انڈر گراؤنڈ ٹرین میں سفر کر کے اور پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کو ساتھ لے جا کر غلطی کی‘ فوج میں اس قدم کو اچھا نہیں سمجھا جا رہا‘ یہ لوگ اسے پاکستان کی بے عزتی سمجھ رہے ہیں‘ یہ بے عزتی بھی مستقبل میں مسائل پیدا کرے گی‘ شاید اب شاہد خاقان عباسی میاں نواز شریف کی ڈیل نہ کرا سکیں تاہم میاں نواز شریف نے مریم نواز‘ کیپٹن صفدر اور حمزہ شہباز کی تقریروں‘ انٹرویوز اور سیاسی ٹویٹس پر پابندی لگا دی ہے لیکن یہ پابندی زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گی چنانچہ مجھے حکومت کے حالات اچھے دکھائی نہیں دے رہے‘ میاں صاحب حالات کو ایک بار پھر 1999ء کی طرف لے جارہے ہیں‘ یہ اگر نہ رکے اور یہ اگر ’’بھائی پربھی اعتبار نہ کرو‘‘ کی پالیسی پر قائم رہے تو پھر یہ اس بار بھی اندر ہو جائیں گے اور ان کی پارٹی بھی تتر بتر ہو جائے گی‘ ملک دوبارہ ٹریک سے اتر جائے گا۔