سر رہ گزر سیاسی گفتگو منع ہے، بحکم جمہوریت

سیاست کا وہ حال دیکھا کہ جمہوریت نے اپنے بچائو کی خاطر پہلی بار یہ حکمنامہ جاری کر دیا ہے کہ سیاسی گفتگو منع ہے، البتہ نورا کشتی پر کوئی پابندی نہیں، جب جمہوریت کا نام لے کر سیاستدانوں کو تحفظ دینے اور ان کے اختیارات کو لامتناہی بنانے کے لئے جمہوری ایوانوں میں کام زور پکڑ جائے تو سمجھ لیں کہ جمہوریت کشتنی ہے اور سیاست ناگفتنی، سیاسی سوجھ بوجھ کسی میں ہو نہ ہو دولت کا ہونا ضروری ہے، مگر یہ دولت سفید رنگ کی نہ ہو، کیونکہ کھیر بھی سفید رنگ کی ہوتی ہے اور ٹیڑھی کوئی بھی ایماندار، دیانتدار سیاست کے لئے فٹ نہیں، واضح رہے کہ ہم جب بھی سیاست، دولت، جمہوریت، اقتدار کی بات کرتے ہیں اس سے مراد صرف پاکستانی برانڈ ہوتا ہے، جن معاشروں پر ہم رشک کرتے ہیں وہ ہم پر شک کرتے ہیں، کیونکہ کھا کھا کر ہمارے دانت سفید چمکیلے ہو گئے ہیں اور؎
چٹے دند نہ کسے نوں رب دیوے
تے لوکی بھیڑے شک کر دے
ہم دو بیان نورا کشتی کے حوالے سے پیش کرتے ہیں، مثلاً نواز شریف کہتے ہیں زرداری کسی کو خوش کرنے کے لئے گالیاں دے رہے ہیں، پیپلز پارٹی نے کہا ہے آپ نے کس کو خوش کرنے کے لئے ہم سے ملاقات منسوخ کر دی، سیاسی آلودگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ سیاسی اسموگ سے حادثات کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، اہل سیاست کبھی آپس میں لڑتے دکھائی دیں تو جان جائیں کہ وہ کسی ’’اور‘‘ سے لڑ رہے ہیں، اسے سیاسی نظر بندی کا عمل کہتے ہیں جسے اقبال نے اس طرح بیان کیا تھا؎
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
٭٭٭٭
خدارا لاہور کو مویشیوں سے پاک کیا جائے
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کی اپنے صوبے میں اعلیٰ ترین حسن کارکردگی کو جس غلاظت نے گہنا دیا ہے وہ ہے لاہور کے رہائشی علاقو ںمیں مویشی رکھنے کا بیمار کن مسئلہ، اب تو یہ حال ہو گیا ہے کہ پورا لاہور گوبر اور پیشاب کی بدبو سے مہلک اٹھا ہے، کیا یہی وہ ’’پیرس‘‘ ہے جسے لاہور کہتے ہیں اور خادم اعلیٰ کا سب سے اعلیٰ خواب ہے، چند پوش آبادیوں کو ہر آلائش سے استثنا حاصل ہے لیکن اس شہر کا اکثر حصہ جو دراصل بادشاہ گر ہے اس کے باسی، کس ماحول میں رہتے ہیں اس کے لئے وزیر اعلیٰ ان بستیوں کا دورہ کریں جہاں اکثریت کے ساتھ مویشی بھی اکثریت میں رہتے ہیں، طرح طرح کی بیماریاں، ہوا چلتی ہے تو بدبو بردوش چلتی ہے اور نسیم و صبا کے تو جیسے نام ہی بدل گئے ہیں، جب مویشی لاہور سے باہر منتقل کرنے کے لئے قانون سازی ہو چکی ہے تو پھر کیوں اس پر عملدرآمد نہیں ہوتا، جو لوگ انسانوں کے دوش بدوش مویشی پالتے ہیں، وہ بدمعاش ہیں، مسلح ہیں، اور جتھے بنا کر رہتے ہیں اس لئے کوئی شریف آدمی ان کے سامنے اف نہیں کر سکتا بس آکسیجن کی جگہ بدبو پھیپھڑوں میں اتارتا رہتا ہے، ہمارے پاس کئی لوگ آئے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شیر دل ہیں، اپنے کالم کے ذریعے ان تک ہماری فریاد پہنچائیں، یہ آلائشی نہر کے کنارے ہربنس پورہ سے واہگہ تک پھیلی ہوئی ہے، اس کے علاوہ بھی لاہور کی اکثر آبادیوں میں مویشی موجود ہیں، خالص دودھ تو کیا یہ گوالے خالص ہوا بھی نہیں لینے دیتے، براہ کرم وزیر اعلیٰ پنجاب لاہور کی عوامی بستیوں کو مویشیوں سے پاک کرنے کے لئے کریک ڈائون کریں، ورنہ ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں کہ
لسے دا کی زور محمد نس جانا یا رونا
٭٭٭٭
ہا ہا کار اور دی اینڈ
بھارت کے ایک مندر پر پاکستان کا قومی پرچم لہرا دیا گیا، ہندوئوں کو ’’دی اینڈ‘‘ کی دھمکی، ویڈیو وائرل ہو گئی، بھارت میں ہاہا کار مچ گئی۔ ایک مندر کی دیوار پر یہ بھی لکھا ہوا دیکھا گیا ’’ہندوئوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیں گے،
بھارت نے جب سے اپنے ایک ہزار سال کے حکمرانوں کو ان کی رعیت ہوتے ہوئے ان کے خلاف بھارت کی زمین ان پر تنگ کر دی ہے، اور مقبوضہ کشمیر میں بڑھتے ہوئے مظالم اور زور پکڑ گئے ہیں، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اب پورا ہندوستان مقبوضہ ہے، اور اسے آزاد کرنے کے آثار سوشل میڈیا سے مندروں کی دیواروں پر نظر آنے لگے ہیں۔ ہندوئوں نے ان مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کی ہے جو کل تک ان کا آقا تھا، مگر بہترین آقا ہونے کا ثبوت دیا، بھارت کے انتہا پسند ہندو یاد رکھیں کہ اللہ اکبر کا نعرہ کسی وقت بھی لگ سکتا ہے، 39کروڑ بھارتی مسلمان اقلیت نہیں بنائے جا سکتے، کشمیر کا مسئلہ بھی اب بہ انداز دگر حل ہو گا، کیونکہ پورا ہندوستان مسلمانوں کا ہے، برطانوی سامراج نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا ہندوئوں سے نہیں جب سے ہندوستان آزاد ہوا ہے ہندوئوں نے مسلمانوں کے ہندوستان پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے گویا کشمیر ہی کیا پورا بھارت مقبوضہ ہے اور اس کو آزاد کرانے کی نشانیاں اب نظر آتی رہیں گی، انتہا پسند ہندو تنظیمیں اور ان کی حکومت راہ راست پر نہ آئی تو سارا بھارت مقبوضہ کشمیر ہو گا۔ باہر سے کچھ بھی نہ ہو گا، بھارت کے اندر ایک اکھنڈ پاکستان کی تحریک اٹھ سکتی ہے، ہندو شرافت کو کمزوری سمجھ بیٹھا ہے، بھارت یاد رکھے کہ اسلحہ نہیں جذبہ لڑتا ہے، اب ہاہا کار سے کام نہیں چلے گا، ایک اچھا ہمسایہ بن کر رہے کشمیر آزاد کرے، اور مسلم اکثریت کو اس کا مقام دے ورنہ
جو ملک چھین لینے کا ڈھب جانتے ہیں
وہ ترکیب ورکیب سب جانتے ہیں
٭٭٭٭
سیونگ فیس یا فیس ڈی فیسنگ؟
….Oبلاول زرداری بھٹو کا پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے کے خلاف ملک گیر احتجاج کا اعلان،
اسے کہتے ہیں بھٹو ازم، یہی وہ عوامی مشن ہے جسے پی پی اپنا کر عروج رفتہ کو دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔
….Oعدل کے نظام پر کوئی یقین نہیں بس خدا کے فضل پر یقین ہے،
کیوں عدل کو خدا کے فضل سے الگ کر رہے ہیں؟ ایسا نہ کریں!
….Oرحمان ملک:میاں صاحب کو مشکل وقت میں آصف زرداری یاد آ جاتے ہیں۔
یہ طعنہ ہے یا میثاق جمہوریت یاد دلانے کی کوشش، کہ آئو مل کر جمہوریت کو اپنی خدمت پر لگا دیں۔
….Oپوپ فرانسس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دنیا ایک بار پھر بڑی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔
کاش دنیا آپ کے خدشے پر کان دھرتی، وہ تو ہوا کے گھوڑے پر قیامت کی جانب رواں دواں ہے۔
….Oفلم سیونگ فیس کی مرکزی کردار رخسانہ بی بی:شرمین عبید چنائے کی فلم میں کام کرنے پر رشتہ داروں نے منہ موڑ لیا، فلم کی ڈائریکٹر شرمین کے دھوکے سے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہوں، میری زندگی برباد کر دی گئی، میں کس کے آگے جا کر فریاد کروں؟
رخسانہ بی بی آپ شرمین عبید چنائے کے سامنے جا کر فریاد بذریعہ عدالت کریں، یہ لوگ جو انسانیت کے علمبردار ہوتے ہیں، یہ آپ جیسے غریبوں کو استعمال کرکے ہی دولت شہرت کماتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے