خاموشی کے فوائد

آج کل ن۔لیگ، پی۔ٹی۔آئی اور کسی حد تک کم پی پی پی کے لیڈران کی روز ٹی وی پر نہایت نامناسب، غیرمہذبانہ گفتگو سُن کر بہت افسوس ہوتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے ملکی و قومی ثقافت اور اسلامی قوانین و احکامِ الٰہی بالکل عنقا ہوگئے ہیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے ایک پرانا قصّہ یاد آگیا۔ مدّت بیتی ایک کہانی، قصّہ کسی کتاب (شیخ سعدیؒ یا مولانا رومیؒ) میں پڑھا تھا۔

واقعہ یوں بیان کیا گیا تھا کہ ایک خودساختہ عالم ایک دوسرے شہر میں گیا اور ایک مسجد میں مسافر بن کر بیٹھ گیا۔ ہاتھ میں تسبیح اور نمازیں اور ورد میں مشغول ہوگیا۔ کسی سے ایک لفظ بھی نہ بولا صرف سلام جواب اور عبادت میں مصروف رہا۔ لوگوں (نمازیوں) نے اسے بہت بزرگ اور روحانی شخصیت سمجھ کر تحفوں سے نوازنا شروع کردیا۔ کچھ عرصے بعد اس کو خیال آیا کہ میں خاموش رہتا ہوں اور ایک لفظ نہیں بولتا تو میری اتنی عزّت ہے اگر گفتگو کرنے لگوں تو اور بھی زیادہ عزّت ہوگی اور زیادہ تحفہ تحائف ملیں گے۔ بس یہ سوچ کر اس نے ایک دن نماز کے بعد نمازیوں کو روک کر خطاب کرنا شروع کردیا۔ چند ہی لمحوں میں تمام حاضرین ایک ایک کرکے وہاں سے چلے گئے اس کو احساس ہوگیا کہ اس نے منہ کھول کر غلطی کی ہے اور اسکی غیرعقلمندانہ گفتگو اس کو لے ڈوبی۔ اس کے بعد نہ ہی کوئی اس کے پاس آیا اور نہ ہی کوئی تحفہ دیا۔ دوسرے دن علی الصبح اُٹھا اور مسجد کی دیوار پر لکھا، ’’اگر میں اپنا منہ نہ کھولتا اور اپنی بیوقوفی کا اظہار نہ کرتا تو یہ دن دیکھنا نصیب نہ ہوتا‘‘۔

شیخ سعدیؒ کا شمار نہ صرف ایران بلکہ دنیا کے عظیم ادبا و شعرا میں شمار ہوتا ہے۔ایران میں تو ہر بچہ ان کے نام سے واقف ہے۔ آپ نے گلستانِ سعدیؒ کے باب چہارم میں خاموشی کے فوائد پر چند حکایات بیان کی ہیں۔ ایک حکایت یہ ہے کہ، ’’میں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ مجھے جو بات کرنے سے روکا گیا ہے (یا میں رک گیا ہوں) تو وہ اس وجہ سے ہے کہ اکثر اوقات اتفاقاً اچھی اور بُری باتیں منہ سے نکل جاتی ہیںاور دشمنوں کی نگاہیں بُرائی کے سوا کہیں نہیں پڑتیں (دشمن صرف مخالف کی بُرائیوںیا بُری باتوں پر نظر رکھتا ہے)۔ دوست بولا، ’’دشمن وہی اچھا ہے جو نیکی، اچھائی نہ دیکھے‘‘۔مطلب یہ ہے کہ دشمن ایک نیکوکار آدمی کے پاس سے صرف اس لئے گزرتا ہے کہ وہ اپنی دروغ گوئی، جھوٹ سے اس نیک آدمی پر سرکشی و تکبّر کی تہمت لگا دے‘‘۔دیکھئے یہ حکایات میں نے اس لئے لکھی ہیں کہ پچھلے چند ہفتوں سے سابق وزیر اعظم خود اور ان کے ساتھی مسلسل نہایت بے ربط، غیرمہذب، عقل و فہم سے بے بہرہ باتیں کرتے رہے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ سلسلہ دانیال عزیز، طلال چوہدری، پرویز رشید وغیرہ نے شروع کیا مگر بعد میں اور لوگ بھی اکھاڑے میںکود پڑے۔آئیے پہلے مریم نواز کے حالیہ انٹرویو پر کچھ بات کرتے ہیں۔ یہ انٹرویو انھوں نے کسی امریکی اخبار کو دیا ہے۔

آپ نے اپنی اعلیٰ انتظامیہ صلاحیتوں پر فخر کیا ہے اور کہا ہے کہ مرحوم میاں شریف اور میاں صاحب دونوں اسکے قائل تھے۔ ماشاء اللہ مُبارک۔ آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کی بہت کم عمر میں شادی ہوگئی تھی اور اس وجہ سے بچوں کے بڑے ہونے کی وجہ سے انکے پاس بہت وقت ہے۔ معمولی سی تعلیم سے تو عقل و فہم اور معلومات میں اضافہ نہیں ہوجاتا۔ آپ نے یہ بھی کہا کہ پارٹی ورکرز کا ان کو ن۔لیگ کی صدارت سنبھالنے کا اصرار تھا۔ ماشاء اللہ کیا پارٹی ورکرز اور کیا لیڈر۔ مریم نواز نے پہلے تو JIT میں پیشی کے دوران ایسا رویہ (اور فیشن) اختیار کیا گویا کسی بڑی مہم کو سر کرنے آرہی ہیں۔ جب دونوں بھائی آئے تو وہ بھی ایسا لگا کہ کشتی جیت کر آرہے ہیں۔ آپ یہ بھول گئے کہ اسکی تشکیل ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ یعنی سپریم کورٹ نے کی تھی اور JIT کے ممبران تجربہ کار افسران تھے۔ آپ کے ساتھیوں نے آپ کو عقل و فہم، سمجھ بوجھ سے بے بہرہ کردیا۔ ہر شخص بیٹی، بیٹوں اور آپ کے کانوں میں مشوروں کی بوچھاڑ کررہا تھا۔ آپ نے سپریم کورٹ اور اس کے نہایت معزز جج صاحبان پر غیرمہذب گفتگو کی۔ آپ کے قانونی مشیروں نے (جنھوں نے ختم نبوّت عہد میں تبدیلی کی تھی) آپ کو نہیں سمجھایا کہ عدلیہ اور اعلیٰ ججوں کے خلاف گفتگو مہذبانہ رویے کی نفی ہے۔ آپ نے معزز ججوں پر وہ الزامات لگائے گویا وہ عمران خان یا زرداری کے تنخواہ دار تھے یا ہندوستانی بی جے پی کے پے رول پر تھے۔ وہ بھی انسان ہیں پوری عمر قانون گوئی میں گزری ہے۔

پاکستانی ہیں محب وطن ہیں کسی ڈکٹیٹر سے ہدایات یا احکامات نہیں لے رہے ہیں۔ میاں صاحب آپ نے، آپ کی بیٹی اور آپ کے ساتھیوں نے قانونی جنگ گالیوں، بدزبانی اور بہتان بازی سے جیتنے کی کوشش کی۔ آپ اگر خاموشی اختیار کرلیتے اپنے ساتھیوں اور بیٹی کی زبان بندی کرتے تو ملک کی سیاست کا ماحول بہت بہتر ہوتا اور آپ کے لئے مفید ہوتا۔ اب بھی آپ اور آپ کی بیٹی اور ساتھی اس فہم میں مبتلا ہیں کہ عدلیہ و معزز جج صاحبان پر غلیظ حملے کرکے آپ یہ مقدمہ جیت جائینگے۔ آپ کے قانونی مشیروں نے یہ نہیں سمجھایا کہ سزا پہلے اور مقدمہ کا نعرہ عوام کو دھوکا دینے کا ہے۔ سزا ایک تسلیم و مصدقہ جرم پر دی گئی اور اب مقدمہ رشوت ستانی اور ناجائز جائدادوں پر چل رہا ہے۔ آپ جاہل لوگوں کو بیوقوف بنا سکتے ہیں سمجھدار لوگ پورا معاملہ جانتے ہیں۔ اب بھی آپ نے اگر مخالفانہ رویہ بند نہ کیا تو جیل جانے کا خطرہ ہے۔ میاں صاحب آپ نے اور آپ کے ساتھیوں نے (اور بہت حد تک عمران خان صاحب نے) سیاست کو ایک غلاظت کا ڈھیر بنا دیا ہے پوری دنیا میں ہماری بدنامی ہورہی ہے۔

وزراء بھی اس ڈھیر میں بڑھ چڑھ کر اپنا حصّہ ڈال رہے ہیں۔ نہایت احمقانہ بیانات دے رہے ہیں کہ نواز شریف کے ہٹنے سے ترقی رُک گئی ہے، لوڈشیڈنگ ہونے لگی ہے ،معیشت تباہ ہو رہی ہے۔ ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ ملک پر مودی نے قبضہ کرلیا ہے یا عمران خان نے حکومت سنبھال لی ہے۔ کیا شاہد خاقان عباسی گوالیار یا الور سے آئے ہیں۔دیکھئے لوگوں کی عقل سلب ہونے کے معاملے میں احکام الٰہی بھی ہیں (سورۃ بقرہ، سورۃ اعراف، سورۃ انفال اور سورۃ محمدؐ دیکھئے)۔ اس کے علاوہ چند دانشوروں کے بھی اقوال ہیں۔ مثلاً ایک یونانی فلسفی کا قول ہے کہ ’’جن کو اللہ تعالیٰ تباہ کرنا چاہتا ہے پہلے ان کی عقل سلب کرلیتا ہے‘‘۔ تلسی داس نے کہا ہے ’’پربھوجی داروں دُکھ دینی۔پہلے باکی مت ہر لینی۔ یعنی اللہ جس کو بڑا دکھ دینا چاہتا ہے پہلے اسکی عقل سلب کرلیتا ہے‘‘۔ اور ایک چینی فلسفی Lao Tzu نے کہا تھا کہ عوام پر حکومت کرنا (بیوقوف بنانا) بہت مشکل ہے کیونکہ وہ بہت سمجھدار ہوتے ہیں‘‘۔ ہمارے پیارے نبی ؐ نے فرمایا کہ جو قومیں دوہرا قانون اپناتی ہیں وہ یقیناً تباہ ہوجاتی ہیں‘‘۔

(اہم نوٹ) پچھلے کالم (یوم حساب) میں آپ کی خدمت میں ملک میں ملاوٹ کی لعنت پر تبصرہ کیا تھا۔ اس میں دوائوں کا بھی ذکر تھا۔ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ تمام مقامی کمپنیاں جو غیر ملکی لائسنسزکے تحت یہاں دوائیں بناتی ہیں وہاں ملاوٹ کی قطعی گنجائش نہیں ہے۔ اچھی، نامور دوائیں بنانے والی کمپنیوں کی پروڈکٹ میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ ہوتا یہ ہے کہ چند ضمیرفروش اشخاص ان کمپنیوں کے نام کے جعلی و نقلی پیکٹ، بوتلیں بنا کر ان میں کیلشیم وغیرہ کی گولیاں بنا کر بیچ دیتے ہیں اور چند بے ضمیر دکاندار ان سے مل کر یہ دوائیں فروخت کرتے ہیں۔ اصلی دوائوں سے قیمت کم رکھ کر عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ ایسی لاتعداد فیکٹریاں اور مجرم پکڑے جا چکے ہیں۔ حکومت کو موثر نظام بنانے کی ضرورت ہے یہی حال کھانے کی اشیا کا ہے۔ اچھے برانڈ کی کاپی کرکے لوگوں کی صحت کو دائو پر لگایا جاتا ہے۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملکوں کی بہ نسبت ہمارے یہاں ملاوٹ کی مقدار بہت کم ہے ہمارے لوگوں کے دلوں میں کہیں نا کہیں خوف خدا جاگ جاتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے