آج کے سیاسی کھیل، کل کیا ہوگا؟

چند ہفتے پہلے نواز شریف گھیرے میں آئے ہوئے اور کمزور دکھائی دیتے تھے۔ خطرناک صورت ِحال کا تو اُنہیں ابھی بھی سامنا ہے لیکن ایسالگتا ہے جیسے وہ کسی چوٹی کے کنارے سے گرتے گرتے سنبھل گئے ہیں۔ اب وہ تواز ن برقرار رکھتے ہوئے اپنے قدموں پر کھڑے ہیں۔

گزشتہ ہفتے اُنہیں تھوڑی سے کامیابی ملی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اُن کے اور ان کے اہل ِ خانہ کے خلاف بدعنوانی کے ریفرنسز کی سماعت کرنے والی احتساب عدالت کو ہدایت کی کہ نواز شریف کی اُس درخواست کی دوبارہ سماعت کی جائے جس میں اُنھوں نے موقف اختیار کیا ہے کہ اُن کے خلاف تینوں ریفرنسز کو یکجا کردیا جائے۔ قومی احتساب قانون اور دیگر قوانین اس کی اجازت دیتے ہیں۔ پھر بھی اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں احتساب عدالت نواز شریف کی یہ درخواست منظور کرلیتی ہے تو یہ ایک غیر معمولی بات ہوگی۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ کے بنچ نے معمول سے ہٹ کر نیب کو نواز شریف اور اُن کے قریبی عزیزوں کے خلاف ریفرنس فائل کرنے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ مذکورہ درخواست کی منظوری اس قانونی پوزیشن کے برعکس ہوگی۔ اُس وقت ایسا لگتا تھا جیسے نوازشریف کو اقتدار سے نکالنے کے بعد سپریم کورٹ بنچ کے فیصلے نے اُن کے تما م قانونی آپشنز کو مسدود کردیاہے۔ اس فیصلے نے اُنہیں قانون کے ایسے غیر معمولی کٹہرے میں کھڑا کردیا جہاں ایک جج صاحب کی عقابی نظروں کے سامنے چھے ماہ کے اندر مقدمے کا فیصلہ ہونا تھا۔ اب اگر نواز شریف کو یہ ’’ریلیف‘‘ مل جاتا ہے تو اُن کے اس موقف کو تقویت ملے گی کہ سپریم کورٹ فیصلے نے معمول کے قانونی طریق کار سے ہٹتے ہوئے ’’طے شدہ فیصلہ‘‘ سنایا تھا۔ اس کے نتیجے میں وہ اور ان کے قریبی عزیز سیاسی میدان سے دور ہوگئے۔ اسلام آبادہائی کورٹ اور احتساب عدالت، دنوں کے گزشتہ ہفتے کے فیصلوں سے تاثر ملتا ہے کہ جس طریقے سے نواز شریف کے ریفرنسز پر کارروائی ہورہی ہے، اس میں’’سب اچھا‘‘ نہیں ۔ سپریم کورٹ بنچ کی دو ٹوک اور واضح ہدایات کے باوجود اس میں درستی کی گنجائش موجودہے ۔یہ پیش رفت قانون کے ایوان، جہاں ان کا دم گھٹتا محسوس ہوتا تھا، میں شریفوں کے لئے تازہ ہوا کی ایک کھڑکی کے مترادف ہوگی۔

تاہم اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ مشکلات کے گرداب سے نکل گئے ہیں۔ انہیں بدعنوانی کے الزامات کا بدستور سامنا ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کیا ریفرنسز کو یکجا کرکے ایک مقدمہ بنا دیا جاتا ہے یا ان کی کارروائی تین مختلف عدالتوں میں ہوتی ہے۔ اس سے مقدمے کی نوعیت پر بہرحال کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بلکہ اگر کیسز کو ایک یکجا کرکے ایک ہی عدالت کے سامنے پیش کردیا جاتا ہے تو پھر اس کا فیصلہ جلدی ہونے کا امکان ہے۔ تین عدالتوں میں پھیلے ہوئے کیسز زیادہ وقت لیں گے۔ اس کے باوجود اس چھوٹی سی کامیابی کی ٹائمنگ بہت اہمیت کی حامل ہے۔ ایسا اُس وقت ہوا ہے جب نواز شریف لندن سے واپس آئے۔ اس سے پہلے لندن میں ان کی وفادارکابینہ یہ فیصلہ کرچکی تھی کہ اگر اُن کی پارٹی اگلے عام انتخابات میں نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئی تو شہباز شریف اُن کی طرف سے وزارت ِاعظمیٰ کے امیدوار ہوں گے۔ اس فیصلے کے بعد مسلم لیگ کی فعالیت کے بارے میں میڈیا میں چھائے ہوئے ہیجان کے بادل قدرے چھٹ گئے۔ اس کے ساتھ ہی قومی بحث سے یہ موضوع بھی غائب ہوگیا کہ تیس سے لے کر پچاس تک مسلم لیگی ارکان نواز شریف سے اپنی راہیں الگ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ زیادہ تر پارٹی ارکان پر ’’ضمیر کی آواز‘‘ کا ویسا دورہ نہیں پڑتا جیسا دوہفتے پہلے ریاض پیرزادہ پر پڑا تھا، اور جس دورے کے دوران مسٹر پیر زادہ پر آشکارہوا کہ بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کرنے والے نواز شریف کا پارٹی کی قیادت کرنا غیر اخلاقی حرکت ہے۔
مزید یہ کہ نواز شریف کا اگلے قدموں پر آکر جارحانہ پن دکھانے کا انداز قدرے دھیما ہوگیا۔ وہ ابھی بھی شکوہ شکایت کرتے سنائی دیتے ہیں کہ اُنہیں کسی وجہ کے بغیر نکال دیا گیا ، لیکن وہ ’’سازش کرنے والے خفیہ ہاتھو ں‘‘ کی طرف اشارہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اُن کی پرعزم صاحبزادی، مریم نواز کے بیانات اور ٹویٹس میں حدت موجود ہے لیکن اُن کا اندازبھی جچا تلا ہے۔ تاہم ملک کے بااثر حلقوں میں اُن کا ایسا تاثر قائم ہوچکا ہے کہ ان کے عام بیانات بھی نفرت کے پتھر دکھائی دیتے ہیں۔ بہرحال حکومت کی صفوں سے ہونے والی بیان بازی اب حدود و قیود کے اندر ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے نواز شریف کیمپ یہ بات سمجھ چکا ہے کہ جارحانہ پن کا مظاہرہ ایک وقتی اشتعال، چنانچہ سیاسی غلطی تھا، اور اس وقت پارٹی اس غلطی کا اعادہ کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

خاندان کی طرف سے پڑنے والے دبائو نے بھی اس سوجھ بوجھ کی آبیاری کی ۔ مریم نواز کی خاندان میں اختلاف کی تردید اور اپنے چچا، شہباز انکل سے والہانہ محبت کے اظہار کے باوجود شریفوں کی نئی نسل کے درمیان سنجیدہ معاملات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔ ان میں کچھ معاملات کا تعلق سیاسی میدان میں نواز شریف اور مریم نواز کے غلبے سے ہے۔ کچھ دیگر کا تعلق اس حقیقت سے ہے کہ شہباز شریف کے بیٹوں کا کاروبار پاکستان میں ہے جبکہ نواز شریف کے خاندان کے زیادہ تر اثاثے بیرونی ممالک میں ہیں اور موجودہ حالات میں ان سے ہونے والا سیاسی نقصان ناقابل ِ برداشت ہوگا۔ شبہاز شریف سمجھتے ہیں کہ اُن کے بڑے بھائی کے جذباتی بیانات اور ’’اسٹیبلشمنٹ کے محلات پر چڑھائی کرنے کی شوریدہ سری‘‘ اُن کا پاکستان کا وزیر اعظم بننے کا خواب چکنا چور کردے گی۔ شہباز شریف نے کئی برسوں کی محنت سے راولپنڈی کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کیے ہیں، اور اس سرمایہ کاری کا واحد مقصد یہی تھا کہ اگر شریفوں کے سر پر آسمان گرتا ہے تو وہ کم از کم اپنا تحفظ کرلیں۔ اُن کے خیال میں نواز شریف کا محاذ آرائی کا رجحان سیاسی خودکشی ہے ۔ اس کا اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔

شہباز شریف کے اس موقف سے اب پارٹی بھی مجموعی طور پر اتفاق کرتی ہے کہ نواز شریف کی محاذآرائی کی کوشش وہ تیر ِ نیم کش ہے جو اپنے ہدف سے بہت دور گر جائے گا۔ پارٹی کے سینئر رہنما، بشمول وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق اور خواجہ آصف بھی پر امن بقائے باہمی چاہتے ہیں، چاہے حقائق کتنے ہی غیر متواز ن کیوںنہ ہوں۔ اسحق ڈار کی حالت ِ زار اور چوہدری نثار کا مزاحمت سے گریز کا مشورہ پارٹی کو دانائی سکھانے کے لئے کافی ہے۔ تاہم میز کی دوسری طرف بیٹھا ہوا فریق ِ ثانی مفاہمت پر آمادہ نہیں تو پھر مزاج کی اس تبدیلی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں مریم نواز نے ایک چبھتا ہواسوال پوچھاجو لوگ این آر او کی بات کررہے ہیں(مقدمات سے بریت کی ڈیل جو سابق وزیر ِاعظم بے نظیر بھٹو نے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے ساتھ کی تھی) اُنہیں یہ بات بھی کرنی چاہیے کہ این آر او میں فریق ِ ثانی کون ہے؟ اس سوال کا جواب وہ خود بھی جانتی ہیں۔ اسی طرح نواز شریف، اُن کے بھائی ،شہباز شریف اور دیگر اہل خانہ، اور راولپنڈی کے ساتھ تنائو کم کرنے کے لئے مقرر کئے جانے والے ثالث بھی یہ بات جانتے ہیں۔

ایک حوالے سے مریم نواز درست کہتی ہیں کہ کوئی این آر او موجود نہیں ہے، لیکن اُن کی یہ بات غلط ہے کہ حالات کی حدت کم کرنے کے لئے کوئی مفاہمت نہیں ہونے جارہی، یاموجودہ سیاسی بحران، جس نے ملک کی فعالیت کو مفلوج کر رکھا ہے، کے حل کے لئے کوئی لچک پیدا نہیں کی جارہی۔ یہ احساس بھی اپنی جگہ پر موجود ہے کہ یہ مقدمہ نواز شریف کو کسی حد تک فائدہ پہنچا رہا ہے۔ اُن کا عدالت میں پیش ہونا، اور ان کی مظلومیت کی کہانیاں اُنہیں ایسا سیاسی ٹانک فراہم کررہی ہیں جس کی وجہ سے اس بحران میں ان کے قدموں میں لغزش دکھائی نہیں دی۔ جس جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے بنچ نے فیصلہ سنایا، اس کی وجہ سے شریفوں کے خلاف بعد میں ہونے والی تمام قانونی کارروائی کھوکھلی دکھائی دیتی ہے۔ کیا عجب فیصلہ تھا وہ بھی! اسے سناتے وقت باقاعدہ قانونی طریق کارسے گریز کیا گیا تاکہ گلیوں سے داد و تحسین کی صدا بلند ہو، لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد سب سے متنازع فیصلہ بن گیا۔

مختصر یہ کہ اگر یہ قانون کا بازو استعمال کرتے ہوئے قومی سیاسی منظر نامے پر نوازشریف کے کردار کو محدود کرنے کی کوشش تھی تو ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ اب وہ پہلے سے کہیں زیادہ میڈیا میں موجود ہیں۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہورہا ہے جب2018ء کے عام انتخابات تیزی سے قریب آتے جارہے ہیں۔ نواز شریف کی مظلومیت انتخابی جلسوں میں سنائی جانے والی زبردست کہانی ہوگی۔ اُن کا جیل جانا اُن کا سیاسی قد مزید بلند کردے گا۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس وقت نواز شریف کو سیاست سے باہر رکھنے کا واحد آپشن یہ بچا ہے کہ اُن کی پارٹی کو توڑ دیا جائے، اگلے انتخابات کو کنٹرول کرکے عمران خان کو آگے لایا جائے جو اپنی حماقتوں کی وجہ سے یہ فریضہ خود سرانجام دینے کے قابل نہیں۔
یہ فارمولہ پاک سرزمین پارٹی کو متعارف کرانے کے مترادف ہوگا۔ اس فارمولے کو کراچی کی ساز گار اور مرطوب سرزمین پر پروان چڑھانے میں برسوں لگے۔ اس کے باوجود یہ ابھی تک کمزور اور ناقص ہے۔ ابھی بھی اس کی مسلسل نگہداشت کی ضرورت ہے۔ پنجاب کی غیرمتعدل سرزمین پر تو اس کی آبیاری مزیدمشکل اور وقت طلب ہوگی۔ نیز پنجاب میں پاک سرزمین پارٹی جیسی کسی کوشش کا مطلب ملٹری ٹیک اوور ہوگا۔ اس کے بعد ہاتھ روکنا مشکل ہوجائے گا۔ اس راستے پر مسافت ہے ، منزل کوئی نہیں ہے۔ شروع میں خوشنما چراہ گاہیں اور لہلاتے ہوئے سبزہ زار دل خوش کردیتے ہیں لیکن پھرسنگلاخ چٹانوں اور عمودی ڈھلوانوں میں راستہ بنانا پڑتا ہے۔ اور یہاں نجات دہندہ کے ہاتھ شل ہونے لگتے ہیں۔

اگر میز کی طرف موجود، فریق ثانی کے دل میں یہی احساس جاگزیں ہے تو پھر گزشتہ ہفتے پیش آنے والے واقعات کو موجودہ بحران حل کرنے کا درمیانی راستہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ نواز شریف خاموشی سے مقدمات کا سامنا کرتے رہیں، جو چلتے رہیں گے، جبکہ اگلے عام انتخابات میں ایک مخلوط قومی اسمبلی وجود میں آجائے گی۔ تاہم اس دوران بہت سے مشکل مرحلے موجود ہیں۔ ان میں سب سے مشکل سینیٹ کے انتخابات ہیںجب مسلم لیگ واضح برتری حاصل کرتے ہوئے بہت سے قوانین بدلنے کی پوزیشن میں آجائے گی۔ چنانچہ اسے ایسا کرنے سے روکنے کے لئے کچھ نہ کچھ ہوسکتا ہے جو اس ملک کو شدت سے درکار امن و استحکام کو تباہ کردے گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے