خطرناک حالات میں عدالتوں اور عسکری قیادت نے قابلِ فخر احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ ان کے لیے مشکل ہے مگر جناب عمران خان مدظلہ العالی کو بھی یہی کرنا ہو گا۔ ورنہ وہ پچھتائیں گے۔ آج نہیں تو کل۔
یلغار کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لیڈر کا لہجہ مگر شائستہ رہنا چاہیے۔ کتنی ہی گزری صدیوں نے صلاح الدین ایوبی کی عظمت کے گن گائے ہیں۔ فاتح کی تلوار خوں ریز ہوتی رہی مگر زبان کبھی آلودہ نہ کی۔ جب بھی ممکن ہوا‘ معاف کر دیا۔ قائد اعظم سخت بات کہتے‘ کبھی کوئی ادنیٰ لفظ مگر نہ برتا۔ ساری قوم لسانی افلاس کا شکار ہے‘ رواجِ عام کی پیروی مگر لیڈر کو زیبا نہیں۔ کل کلاں لوگ اگر گالیاں بکنے لگیں؟ میاں محمد نواز شریف نے طلال چوہدری‘ دانیال عزیز‘ مشاہداللہ خان اور پرویز رشید رکھ چھوڑے ہیں۔ میڈیا سیل‘ دشنام طرازی میں کمال دکھاتا ہے۔ ذاتی طور پہ میاں صاحب مگر محتاط رہتے ہیں۔
شریف خاندان اور زرداری گروپ کے اعصاب پر کپتان سوار ہے۔ اپنی قوم پر‘ یہ لوگ اللہ کا عذاب ہیں۔ عمران خان ان کے لیے عذاب۔ اس کے تابڑ توڑ جلسوں نے مخالفین کی سٹی گم کر دی ہے۔ پرانی قیادت سے اکثریت اکتا چکی مگر قوم کی حمایت فقط شعلہ بیانی سے حاصل نہ ہو گی۔ بتانا ہو گا کہ معیشت کی خرابی کا علاج کیسے ہو گا۔ خارجہ پالیسی کن خطوط پہ استوار ہو گی۔ بستیوں کو امن کیسے نصیب ہو گا۔
شورش پسند اور ناقابلِ اعتبار ”شیر بنگال‘‘ فضل الحق کو‘ قائد اعظم نے مسترد کر دیا تھا۔ دیوتا دکھائی دیتے ابوالکلام کو ڈانٹا مگر پنجاب کے وزیر اعظم سکندر حیات‘ کشمیر کے شیخ عبداللہ اور عبدالغفار خان سے بات کی اور نہایت تحمل کے ساتھ۔ اندیشہ ہے کہ کپتان کو تین چیزوں کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ ایک انتقامی لہجے‘ دوسرے فردوس عاشق اعوانوں‘ مصطفی کھروں اور نذر گوندلوں کو پارٹی میں شامل کرنے اور تیسرے خوشامدیوں کو ٹکٹ دینے کی‘ اگر اس نے دیئے۔
بے شک مقبولیت اس نے جرأت و شجاعت سے کمائی ہے۔ ظفرمندی مشکل ہوتی ہے‘ برقرار رکھنا مگر اور بھی مشکل ہوتا ہے۔ جیت کے لوگ ہار جاتے ہیں۔ شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کا انجام کیا ہوا؟ خلق کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے‘ خالق کو نہیں۔ سطحی لوگ کرشماتی لیڈروں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مفادات کے لیے دانشور اور سیاسی کارکن مقبول رہنمائوں کے کارندے بنتے ہیں۔ قدرت کا ان دیکھا ہاتھ‘ آخر بروئے کار آتا اور حکم لگاتا ہے۔ آغا محمد یحییٰ خان‘ بھٹو اور مجیب کے انجام سے جنرل‘ سیاسی لیڈر اور تجزیہ کار عبرت کیوں نہیں پاتے؟
لڑھکتے پتھروں کی طرح میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری زوال کی راہ پہ ہیں۔ قارون جیسے خزانوں کو کیسے وہ چھپائیں گے؟ آئین کی روح مسخ کرکے‘ نئے قوانین بنانے یا دستور کے ریشم میں ٹاٹ کے پیوند لگانے کی کوشش کی تو سپریم کورٹ سامنے کھڑی ہے۔ وہ نہیں تو عمران خان ہے۔ کبھی تو یہ لگتا ہے کہ اللہ نے اس کام کے لیے ہی اسے پیدا کیا ہے۔
حضور‘ حالات اب مختلف ہیں۔ لاکھوں نوجوانوں کے ساتھ اب وہ اسلام آباد میں پڑائو ڈال سکتا ہے۔ یہ اگست 2014ء کا دھرنا نہیں‘ مجھ ایسے لوگوں نے‘ جس کی ڈٹ کر مخالفت کی تھی۔ عدالت کے ہاتھ باندھنے کے لیے قانون بدلا گیا تو فضل الرحمن اور اچکزئی ایسے حلیف نہ بچا سکیں گے‘ بلکہ فوج اور عدالت بھی نہیں۔
شدّومد سے مگر پوری شائستگی کے ساتھ کپتان کو اپنا مؤقف بیان کرنا چاہیے۔ آگ بھڑکی اور انارکی پھیلی تو کھیل سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ نون لیگ اور آصف علی زرداری کا زیاں ہوگا مگر عمران خان کا ان سے بھی زیادہ۔ اللہ نہ کرے‘ فوج نے مداخلت کی تو جناب زرداری اور میاں محمد نواز شریف ایک بار پھر متحدہ محاذ تشکیل دیں گے۔ فوج اور عدالتوں کے خلاف اعلانِ جنگ کریں گے۔ امریکی وزیر خارجہ کنڈولیزا رائس کی نگرانی میں‘ لندن میں طے پانے والے میثاق جمہوریت کا اہتمام‘ برطانوی وزارت خارجہ نے کیا تھا۔ اندازہ ہے کہ اب بھی وہی کرے گی۔ میری معلومات کے مطابق‘ دونوں لیڈروں کو اشارہ دیا جا چکا۔ اطلاع یہ ہے کہ پوری طرح وہ مائل بھی ہیں۔ یہی قائد اعظم ثانی کے اعتماد کا سبب ہے‘ وگرنہ اسحٰق ڈار کی طرح بستر پہ پڑے ہوتے۔ جدّہ نہیں تو کہیں اور بھاگ جاتے!
وہ بحران پیدا کر سکتے ہیں۔ مغرب میں نواز شریف اور زرداری کی جائیدادیں محفوظ رہیں گی۔ جس طرح الطاف حسین کی۔ جن لوگوں کو ہمیشہ اس ملک میں رہنا ہے‘ پوری طرح انہیں محتاط رہنا چاہیے۔ بزدلی نہیں‘ احتیاط حکمت کا نام ہے۔ فرمایا: حکمت جسے بخشی گئی اسے خیرِ کثیر عطا کیا گیا۔ رسول اکرمؐ کی مکّی زندگی اور صلح حدیبیہ۔ فتح مکّہ اور عام معافی کا اعلان۔ ہر اس شخص کے لیے‘ جو اپنی غلطی مانے اور تلافی کرنے پر آمادہ ہو۔ باقی‘ تفصیلات ہیں۔
میڈیا پہ ہن برس رہا ہے۔ سینکڑوں اور ہزاروں فیض یاب ہیں۔ مرکز‘ پنجاب‘ بلوچستان‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نون لیگ کی حکومتیں قائم ہیں۔ یہ شریف خاندان کا اقتدار ہے‘حتیٰ کہ ان کی گرفت ٹوٹ جائے‘ حتیٰ کہ عدالتوں میں فیصلے صادر ہو چکیں‘ حتیٰ کہ پارٹی اور خاندان کے اختلافات رنگ لائیں۔ ہر آدمی اور ہر گروہ کا ایک مقدر ہوتا ہے۔ عدالتیں جاگ اٹھی ہیں۔ سیاسی پارٹیوں کے تمام غلط کار لیڈروں کے مقدر کا فیصلہ ہونے والا ہے۔
جیسا کہ ان کا شیوہ ہے‘ تحریکِ انصاف کے کچھ کارکنوں نے‘ کچھ تلخ پیغامات خاکسار کو بھیجے ہیں۔ ماضی میں کبھی ایم کیو ایم‘ کبھی اے این پی اور اسلامی جمعیت طلبہ‘ اب بہت دنوں سے نون لیگ کے میڈیا سیل کی گالیاں سنتا ہوں۔ ایک عمر اس طرح کے تماشوں میں بیت گئی۔ کچھ زیادہ اب بدمزہ نہیں ہوتا۔ عمران خان اسی روش پہ رہے تو بے شک نواز شریف اور آصف علی زرداری کو وہ تباہ کر دیں‘ مگر اسی میں خرچ بھی ہو جائیں گے۔ بیک وقت بہت سے محاذ کھولنے کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ جس طرح کہ نپولین اور ہٹلر کا روس میں۔ جس طرح میرے محترم دوست گلبدین حکمت یار کا افغانستان میں۔ اشتعال عقل کو چاٹ جاتا ہے‘ خوئے انتقام میں دانائی زندہ نہیں رہ سکتی۔ ہوش مند آدمی‘ آنے والے کل کو ملحوظ رکھتا ہے۔
مغرب عام اسلام کے تباہی کے درپے ہے۔ چین کے معاشی ارتقا نے اسے ہراساں کیا مگر چوکس بھی۔ عراق‘ لیبیا اور شام کو انہوں نے برباد کر ڈالا۔ مصر میں مرضی اور من مانی کی۔ ترکی‘ پاکستان اور سعودی عرب کے وہ در پے ہیں۔ سعودیہ کی گرفتاریوں میں امریکی تائید شامل لگتی ہے۔ کرپشن کے خلاف کوئی سوچا سمجھا معرکہ نہیں‘ یہ تو ایک طرح کی مہم جوئی محسوس ہوتی ہے۔ ولید بن طلال کی گرفتاری کا جواز کیا ہے؟ سب کا سب‘ اس کا کاروبار انکل سام کے دیس میں ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈٹ کر اس نے مخالفت کی۔ وہاں بچے رہے‘ اپنے وطن میں پکڑے گئے۔ حرث الوطنی (National guards) کے سربراہ‘ شاہ عبداللہ کے فرزند متعب بن عبداللہ کی معزولی اور اسیری چونکا دینے والی ہے۔ جن قبائل کی حمایت انہیں حاصل رہی‘ وہ خاموش ہیں۔ اندیشہ ہے کہ یہ خاموشی دائم برقرار نہ رہے گی۔ تعداد ان کی فوج سے زیادہ ہے۔ فضائیہ کے سوا ہر طرح کا اسلحہ بھی۔ ذاتی وفاداری کو وہ اہمیت دیتے ہیں۔ رہی کرپشن تو سینکڑوں دوسرے مرتکب کیوں آزاد ہیں؟
مسلم حکمران مغرب کے فریب میں مرتے ہیں۔ الطاف حسین کی طرح بعض کارندے ہی بن جاتے ہیں۔ بھارت ہی نہیں‘ امریکہ اور برطانیہ کی تائید بھی انہیں حاصل تھی۔ فراوانی سے وہ ویزے جاری کرتے رہے۔ جنوبی افریقہ‘ کینیڈا‘ سری لنکا اور تھائی لینڈ میں ان کے حامیوں کی پناہ گاہیں بنائیں۔ فاروق ستار اب بھی کراچی میں امریکی قونصل سے رابطہ رکھتے ہیں اور درپردہ الطاف حسین سے بھی۔ عمران خان کا کارنامہ یہ ہو گا کہ ایک بھرپور اور شائستہ مہم سے جلد از جلد ملک کو الیکشن تک لے جائیں۔ اس کے لیے اپنی زبان پر انہیں قابو رکھنا ہوگا۔ کاش انہیں کوئی سمجھا سکے کہ تہذیبِ نفس کا کمال فقط جنگ جوئی نہیں بلکہ تطہیرِ نفس ہے۔ اسی کا نام جہادِ اکبر ہے۔
خطرناک حالات میں عدالتوں اور عسکری قیادت نے قابلِ فخر احتیاط کا مظاہرہ کیا ہے۔ اگرچہ ان کے لیے مشکل ہے مگر جناب عمران خان مدظلہ العالی کو بھی یہی کرنا ہو گا۔ ورنہ وہ پچھتائیں گے۔ آج نہیں تو کل۔