گزشتہ سے پیوستہ الیکشن کا نتیجہ کیا تھا؟ زرداری حکومتگزشتہ الیکشن کا نتیجہ ہے موجودہ حکومت جس کے کھلائے ہوئے پھولوں سے سارا چمن مہک بھی رہا ہے اور انگاروں کی طرح دہک بھی رہا ہے۔ ان حالات میں آئندہ الیکشن کے بعد کا منظر دیکھنے کے لئے کسی خصوصی تیسری آنکھ کی ضرورت نہیں۔ شاعر نے محبوب کے بارے میں کہا تھامل بھی گیا تو پھر کیا ہوگا؟لاکھوں ملتے دیکھے ہیںکچھ لوگوں کے محبوب….. الیکشن کے بارے میں میرا خیال ہے کہ؎ہو بھی گیا تو پھر کیا ہوگا؟کتنے ہوتے دیکھے ہیںبلکہ ان میں سے ایک تو آدھا ملک کھا گیا، جمہوری ڈائن کا پیٹ پھر بھی نہ بھرا لیکن اس پر بعد میں، پہلے ذرا ان ’’قبل از انتخابات‘‘ حالات پر تو ایک نظر ڈال لیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک خاندان ریاست پاکستان کو للکار رہا ہے۔ ایک اک لفظ سے زہر ابل رہاہے، اس سے آگے اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ ڈکشنری کے پر بھی جلنے لگیں۔درخواست مسترد کئے جانے پر فرماتے ہیں’’ججز بغض سے بھرے پڑے ہیں، بغض، غصہ اور الفاظ تاریخ کا سیاہ باب بنیں گے’’واقعی قصور‘‘ اس ملک کا ہے کہ کیسوں کیسوں کو کہاں کہاں پہنچادیا، قصور اس نظام کا ہے جس نے یہ بھی دیکھنا گوارانہ کیا کہ جن جپھا کتنا تہہ در تہہ، پیچیدہ اور مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ خود کو’’سپر سٹیٹ‘‘ سمجھنے کا یہ خبط راتوں رات پیدا نہیں ہوگیا اور نہ ہی یہ نوبت’’اچانک‘‘ معرض وجود میں آئی کہ سپریم کورٹ کو یہ سب کہنا پڑا کہ’’نواز نے جھوٹ بولا۔ پارلیمنٹ، عوام اور عدالت کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی‘‘۔’’غیر متنازع فیصلہ دیا احتساب عدالت فیصلہ میں آزاد ہے‘‘۔’’چھ اداروں میں اعلیٰ ترین عہدیدار کے حواری اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ عدالت نہیں چاہے گی کہ معاملہ کسی حواری کے پاس جائے‘‘۔’’وزیر اعظم کاعہدہ کردار، گفتار کا غماز…..بددیانتی سے صرف نظر ممکن نہیں۔ نواز شریف نے اثاثے چھپائے۔ جھوٹا بیان حلفی دیا۔ اقامے سے حاصل اثاثہ پر آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔ نگران جج کا تعین نئی بات نہیں‘‘۔’’مریم نے کہا،میری لندن تو کیا، پاکستان میں بھی کوئی جائیدار نہیں‘‘ جبکہ مریم لندن فلیٹس کی بینی فشل مالکہ ہیں‘‘۔فیصلے ضرب الامثال تک پہنچ گئے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا،’’نواز شریف بھول گئے کہ ہر کسی کو ہمیشہ کے لئے بیوقوف نہیں بنایا جاسکتا۔‘‘عدالت عظمیٰ نے پاناما فیصلہ پر نظر ثانی کی درخواستوں پر متفقہ فیصلہ سنایا جبکہ 5رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے تاریخی فیصلوں میں اپنے اضافی نوٹ کی روایت برقرار رکھتے ہوئے کہا ہے کہ ان نظر ثانی درخواستوں میں، ان کے پہلے فیصلہ میں الگ موقف کے بارے میں کوئی ٹھوس دلیل دی گئی نہ ہی اس حوالہ سے کوئی بنیاد سامنے لائی گئی۔ جسٹس کھوسہ نے کہا کہ بینچ کے دیگر فاضل ممبران نے بھی یہ محسوس نہیں کیا کہ ان کے پہلے موقف پر کوئی نظر ثانی کی جائے۔ اس لئے یہ نظر ثانی پٹیشنز مسترد کی جاتی ہیں۔ عدالت نے28جولائی کے فیصلہ میں دئیے گئے کورٹ آرڈر کے کچھ حصوں کو بھی فیصلہ کا حصہ بنایا۔ فیصلہ میں دی گئی وجوہات سے پانچوں فاضل ججوں نے اتفاق کیا اور کہا کہ اردو کا یہ شعر نواز شریف کی کیفیت کو بیان کرتا ہے۔تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹامجھے زہرنوں سے گلہ نہیں، تری راہبری کا سوال ہےراہبری کے سوال کا آخری حتمی فیصلہ کن جواب ’’انتخاب‘‘ سے پہلے نہ آیا، افقی عمودی اور دو ٹوک نہ آیا تو انتخاب جان لیوا سراب ہوگا کہ صاحبزادی کی تو ٹوئیٹس ایسی ہیں جو عدالتی احترام میں شائع کرنا مناسب نہیں۔ پہلے بری طرح ابر آلود مطلع صاف کرو، ورنہ ہاتھ کو ہاتھ اور لات کو لات سجھائی نہ دے گی۔ یہ تباہی کےنقیب تھے، انارکی کے سفیر ہیں جو سیدھے، صاف دو ٹوک ناقابل تردید فیصلوں پر بھی دھول اڑانے اور کنفیوژن پھیلانے پر تلے ہیں۔الیکشن…….ہو بھی گیا تو پھر کیا ہوگا؟ن لیگ بھی واپس آگئی……پھر؟سب کچھ ریورس ہوگیا اور سیلاب کی طرح چڑھتی چلی آتی پاکستان تحریک انصاف چھاگئی تو پھر؟ ان کے ہوتے ہوئے’’ٹریفک جیم‘‘ کی سی حالیہ سچوایشن بد سے بدتر ہوتی چلی جائے گی، سینگ پھنسنے سے ٹوٹنے تک پہنچ جائیں گے جو بین الاقوامی چینلجز کی موجودگی میں نہ ملک کے لئے قابل قبول نہ قوم کے لئے……..سو ایسے میں انتخابات کی فصل کاشت کرنے سے پہلے زمین کی’’تیاری اور ہمواری‘‘ ناگزیر سمجھو ورنہ اوپر سے نیچے تک زخم چاٹتا مافیا انتقام کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔ ان کی حدود کا واضح یقین کئے بغیر ہر ایکسر سائز بے کار ہوگی۔