آئندہ الیکشن اگر عمران خان نہ جیتے تو

عمران خان کو یقین ہے کہ اگر آج ملک میں انتخابات ہو جاتے ہیں تو وہ الیکشن جیت کر وزیر اعظم منتخب ہو جائیںگے۔ وہ تو سمجھتے ہیں کہ2013کے الیکشن میں زبردست دھاندلی ہوئی جس کا مقصد میاں نوازشریف کو جتوانا، اُن کی حکومت بنوانا اور تحریک انصاف کو ہرانا تھا۔ پی ٹی آئی کی طرف سے گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر بنائےگئے سپریم کورٹ کے کمیشن نے کیا کہا وہ بھی خان صاحب کے لیے معنی نہیں رکھتاکیوں کہ انہیں یقین ہے کہ وہ ملک کے سب سے پاپولر لیڈر ہیں اور وزیر اعظم بننا اُن کا وہ حق ہے جو دھاندلی کرنے والوں نے اُن سے چھینا۔

فوری الیکشن کے لیے خان صاحب نے اپنا مطالبہ عوام کے سامنے رکھ دیا لیکن اُن کے اس مطالبہ کو کسی دوسری سیاسی جماعت کی طرف سے حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ اب تو مشترکہ مفادا ت کونسل جس میں تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا پرویز خٹک نہ صرف خود موجود تھے بلکہ انہوں نے اگلے سال وقت پر الیکشن کرنے کے مطالبہ کی حمایت کی، نے آئین میں ترمیم کر کے الیکشن کےلیے2017 کے مردم شماری کی بنیادپر نئی حلقہ بندیوں کرنے بھی اتفاق کر لیاہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ فوری یا قبل از وقت الیکشن ہونا ممکن نہیں رہے گا۔

خیر الیکشن جلد ہوتے ہیں یا وقت پر یا التوا کا شکار ہوتے ہیں یہ بحث ایک طرف، مسئلہ یہ ہے کہ اگر آئندہ قومی انتخابات میں تحریک انصاف نہیں جیت پاتی یا قومی اسمبلی میں اتنی سیٹیں حاصل نہیں کرتی جس کے نتیجے میں عمران خان وزیر اعظم بن پائیں، تو پھر کیا ہو گا؟؟؟ کیا ایک بار پھر انتخابی دھاندلی کی بات ہو گی؟؟ احتجاج ہوگا، عوام کو سڑکوں پر لایا جائے گا، دھرنے دیے جائیں گے، نیا عدالتی کمیشن بنے گا؟ یہ سب سوچ کر ڈر لگتا ہے کہ پھر وہی الزامات کی سیاست، ایمپائر کی انگلی، جو ہاں میں ہاں ملائے وہ تبدیلی کا ساتھی، سچا اور ایماندار کہلائے، جو اختلاف کرے وہ کرپٹ،ا سٹیٹس کو کا ساتھی اور آئندہ انتخابات میں جیتنے والی سیاسی جماعت اور ان انتخابات کےنتیجے میں بننے والے وزیر اعظم کی کرپشن کے ساتھی اور اُن سے پیسہ کھاکر انتخابات میںدھاندلی کے شریک جرم۔ گزشتہ چار سال سے یہی کچھ سننے کو ملا ۔

دعا کریں کہ آنے والے سال ہمارے ایسے نہ گزریں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ الیکشن ایسے کروائے جائیں کہ تمام سیاسی جماعتیں مطمعن ہوں۔ تحریک انصاف سمیت پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے انتخابی اصلاحات کاقانون پاس ہو چکا اور امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ انتخابات گزشتہ انتخابات کے مقابلہ میں زیادہ شفاف اور بہتر انتظامات کے ساتھ منعقد ہوں گے۔

ویسے تو ہارنے والی سیاسی جماعتیں عادتاً بھی دھاندلی کا الزام لگادیتی ہیں اور امکان ہے کہ آئندہ بھی لگائیں گی لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ ایسی عادتوں کو بدلا جائے۔ اس سلسلے میں بہتر ہو گا کہ الیکشن کمیشن، حکومت، پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتیں ایک کوڈ آف کنڈکٹ بنالیں جس کا مقصد انتخابات کو بلاجواز الزام تراشی اور تنازعات سے بچانا ہو۔ اگر کسی کے پاس دھاندلی کے ٹھوس ثبوت ہوں تو انہیں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے لیکن پینتیس پنکچر جیسی نام نہادکہانیاں دھرانے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ایسی کہانیوں کو کیسے روکا جائے اس کا علاج تجویز کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔

اگر ایسا ہو گا تو منتخب حکومت کو یہ شکایت کا موقع نہیں ملے گا کہ انہیں تو حکومت کرنے کا وقت ہی نہیں دیا گیا۔ ن لیگ اور نواز شریف بھی ایسی ہی شکایتیں کرتے دکھائی دیے۔ ویسے ٹھیک ہے تحریک انصاف نے دھاندلی کے معاملے پر سچ جھوٹ میں کوئی تمیز نہیں کی،بے سروپا الزامات لگائے اور حکومت کے لیے مشکلات پیدا کیں لیکن انصاف کی بات ہے کہ نواز شریف صاحب نے اپنی حکومت کے دوران وہ بہت کچھ نہیں کیا جس کی وہ شکایت کرتے آج نظر آتے ہیں۔ میاں صاحب کو عدالتوں سے شکایت ہے، وہ نیب سے بھی ناخوش ہیں اور کہتے ہیں کہ اُن کے ساتھ نا انصافی کی جا رہی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تین بار وزیر اعظم بننے کے باوجود میاں صاحب کیسے اُس نظام سے شکایت کر سکتے ہیں جسے درست کرنےکےلیے انہوں نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔

عدالتی نظام کو ٹھیک کرنا، احتساب کے سسٹم میں درستگی لانا، اداروں کومضبوط بنانا تو میاں صاحب اور ن لیگ کی حکومت کی ذمہ داری تھی۔ اگر ایف بی آر، ایف آئی اے، ایس ای سی پی، نیب نے اپنا کام ایمانداری کے ساتھ کیا ہوتا تو پھر عمران خان یا کوئی دوسرا کیوں پاناما کے مسئلے کو سپریم کورٹ کے پاس لے کر گیا ہوتا۔ اگر نیب اور دوسرے اداروں نے زور آور اور حکمرانوں کی ہی بات سننی اور ماننی ہے تو پھر گزرے کل اگر وہ میاں صاحب کی مرضی او رمنشاء کے مطابق چل رہے تھے تو پھر آج انہیں میاں صاحب سے زیادہ کسی دوسرے طاقت ور کی مرضی و منشاء کے مطابق کام کرنے سے کون روک سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے