دنیا بھر میں ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں نے کرہ ارض کی بقأ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غریب ملکوں سمیت دنیا کا کوئی ملک اور خطہ ایسا نہیں ہے جو ان تبدیلیوں کی زد میں نہ ہو خصوصی طور پر ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں اس حوالے سے صورتحال انتہائی ابتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا بدترین خطہ قرار پا چکا ہے۔
پاکستان کے مختلف حصوں میں جہاں موسمیاتی تبدیلی اپنے شدید منفی اثرات مرتب کررہی ہے وہی ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی ان تبدیلیوں کے براہ راست نشانے پر ہے۔ شہر کراچی 2015 میں گرمی کی شدید لہر کا سانحہ دیکھ چکا ہے جس کے نتیجے میں کئی ہزار افراد ہلاک ہوئے، روز بروز بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، خشک سالی کا شکار ہونے والا یہ شہر اچانک ہونے والی شدید بارشوں کے باعث اربن فلڈنگ (شہری سیلاب) کا شکار ہوچکا ہے۔ سمندر کے کنارے آباد یہ شہر اب موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلیوں کی براہ راست زد میں ہے۔ دوسری جانب اس شہر میں کوئی ایسی مؤثر آواز سرے سے موجود نہیں ہے جو ان تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے یا اس کی عوامی سطح پر آگہی پھیلانے کے لیے شہر کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر مربوط حکمت عملی بنائے۔ کافی عرصے سے اس صورتحال کا بغور جائزہ لینے اور شہر کی متعدد سماجی ، سیاسی اور معتبر شخصیات سے گفتگو اور شہر میں موجود سماجی تنظیموں سے رابطہ کرنے کے بعد فروزاں نے 14 اکتوبر، 2017 کو کراچی پریس کلب میں فروزاں انوائرمینٹل پروٹیکشن آرگنائزیشن کے تعاون سے ایک مشاورتی اجلاس کا انعقاد کیا۔ جس کا مقصد ذمہ دار شہریوں پر مشتمل موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق ایک فعال نیٹ ورک کی تشکیل تھا۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے اساتذہ، ڈاکٹروں، وکلأ، صحافیوں، سماجی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے دیگر ارکان کی ایک بڑی تعداد نے اس اجلاس میں شرکت کی۔
شرکأنے شہرکی ماحولیاتی صورتحال پر اپنے خدشات کا اظہار کیا اور موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کے بارے میں سنجیدہ کوششیں کرنے کی ضرورت پر زور دیا، شرکأ کا کہنا تھا کہ شہر کراچی میں قدرتی طور پر آتی ہوئی موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ ہماری اپنی لاپرواہیاں بھی ان مشکلات کا سبب ہیں۔ شہریوں کی زندگی شدید خطرات سے دوچار ہے اور تازہ ہوا میں سانس لینے اور پینے کے خالص پانی سے محروم ہونے کے ساتھ شہر میں ماحول دوست درختوں کی کمی کے باعث حیاتیاتی تنوع، موسمیاتی تبدیلی اور دیگر ماحولیاتی مسائل کی افزائش کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ ہم پودے تو بہت لگاتے ہیں مگر پودوں کی پرورش کا ماحول تشکیل نہیں دے پاتے۔ شرکأ کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماحولیاتی معاملات میں بہتری لانے کے لیے ہمیں صنعتوں اور ٹرانسپورٹ کے ذمہ دار اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی اثرات شہر کے خدوخال کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کو بھی بری طرح مجروح کر رہے ہیں۔ سماجی اور اقتصادی ترقی کا انحصار سازگار ماحول پر ہوتا ہے مگر ہم فضائی آلودگی، فضلے کے انتظام کے ڈھانچے کی خرابی، کچرا ٹھکانے لگانے کے انتظام ، سیوریج اور پانی کے نظام کی خستگی اور صنعتی فضلے کی نظر اندازی سے شدیدمتاثر ہورہے ہیں۔شہر میں ماحولیاتی رہنماؤں پر مشتمل ایک فعال نیٹ ورک کی حقیقی ضرورت ہے جو آگہی پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ شہریوں کی وکالت بھی کر سکیں۔ ذمہ دار شہریوں کا منظم ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ماحولیاتی خطرات کے سامنے بند باندھا جا سکے۔
شرکأ نے اتفاق کیا کہ سب سے پہلے موسمیاتی تبدیلی کی بڑے پیمانے پر آگاہی کے حوالے سے کام کا آغاز کیا جائے اور “کراچی فورم برائے موسمیاتی تبدیلی (کے ایف سی سی) کے مجوزہ نام سے ایک نیٹ ورک تشکیل دیا جائے۔ اگلے اجلاس میں فورم کی انتظامی ساخت اور لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ شرکأ نے اس بات کا عزم بھی کیا کہ وہ بنیادی مسائل کی شناخت اور ان کی آگہی پھیلانے میں اپنا کردار ادا کریں گے اور اس مشترکہ تحریک کو اپنی صلاحیتوں اور اپنی توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کامیاب بنائیں گے۔
شرکأ میں سابق چیف میٹرولوجسٹ پاکستان توصیف عالم، پروفیسر رافع قادری ، ماحولیاتی کالم نگار شبینہ فراز، کالم نگار افضل خان، عثمان ایڈووکیٹ، معروف صحافی انجم رضوی، سماجی رہنما اور قلم کار توقیر عباس، لیاری کی معروف سماجی شخصیت اور کالم نگار شبیر احمد ارمان، اور سماجی رہنماؤں فصیح مظفرمغل، ڈاکٹر شکیل ، مس سنبل، ڈاکٹر سعید، مسرور انور، محترمہ فرحانہ ارشد، ڈاکٹر بلقیس رحمان، ناصر الدین محمود، رحیم خان، این جی او الائنس کے چیئرمین عزیز قریشی، محمد سہیل، رضوانہ شاہد اور ڈاکٹر درخشاں شکیل اور کراچی یونیورسٹی شعبہ ماحولیات کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر وقار، ڈاکٹر محمد فرقان حیدر سمیت دیگرافراد بھی شریک ہوئے۔