یہ فلم دیکھیں،ورنہ۔۔۔!

سنسر بورڈ کے ممبران فلم دیکھ کر باہر نکلے تو فلم کا پروڈیوسر بے چینی سے دفتر کے باہر ٹہل رہا تھا، ممبران کو دیکھتے ہی وہ اُن کی طرف لپکا اور پوچھا کیا اُس کی فلم پاس ہو گئی۔ بورڈ کے سربراہ نے لاپروائی سے کہا کہ فلم تو ہم نے پاس کر دی ہے مگر ایک چھوٹی سی تبدیلی کر لینا۔ ’’وہ کیا؟‘‘ پروڈیوسر نے جلدی سے پوچھا۔ بورڈ کا چیئرمین اطمینان سے بولا ’’فلم کا ہیرو ایک پولیس مین ہے اور پولیس والوں کے بال اتنے لمبے نہیں ہوتے، تو آپ اپنے ہیرو کے بال ذرا سے چھوٹے کروا لیں، باقی فلم آپ کی پاس ہے۔‘‘ کچھ ایسا ہی قصہ فلم ’’ورنہ‘‘ کا بھی ہے۔ سنسر بورڈ نے پہلی مرتبہ جب اِس فلم کی نمائش پر پابندی لگائی تو زبانی طور پر جو اعتراضات بتائے گئے اُن کا خلاصہ کچھ یوں تھا کہ فلم میں سے گورنر کا لفظ نکال دیں باقی فلم آپ کی پاس ہے۔ تاہم بعد ازاں سنسر بورڈ نے اسی فلم کی نمائش کی اجازت بھی دے دی گویا ایک پنجابی محاورے کے مصداق ’’نانی نے بیاہ رچایا، برا کیا، کر کے چھوڑا، مزید برا کیا۔‘‘ کسی مصنف کی نئی کتاب کے مارکیٹ میں آنے سے پہلے اگر کتاب سے متعلق کوئی چھوٹا موٹا تنازع کھڑا ہو جائے یا اخبارات میں اس بارے چٹ پٹی خبریں شائع ہونے لگیں یا لوگ خواہ مخواہ کتاب پر پابندی کا مطالبہ کرنے لگیں تو سمجھ لیجئے کتاب بازار میں آتے ہی ہاتھوں ہاتھ بِک جائے گی۔ ایسا ہی معاملہ فلم کا بھی ہے، کسی بھی فلم کو ہِٹ کروانے کا تیر بہدف نسخہ ہے کہ سنسر بورڈ اُس کی نمائش پر پابندی لگا دے اور جب اجازت دے تو ساتھ یہ انتباہ نمایاں طور پر شائع ہو کہ ’’خبردار، یہ فلم صرف بالغوں کے لئے ہے!‘‘ فلم ’’ورنہ‘‘ کے پروڈیوسر کی خوش قسمتی ہے کہ اُس کی فلم پہلے بین ہوئی اور پھر پاس ہوئی، سو پہلے اگر کسی نے یہ فلم نہیں بھی دیکھنی تھی تو اب اِس شوق میں دیکھ رہا ہے کہ شاید اس میں ہیروئین کے بارش والے گانے یا آج کل کی زبان میں اس قسم کے آئٹم نمبر ہوں گے جنہیں دیکھ کر سنسر بورڈ کے ممبران کو پسینہ آگیا ہو گا۔ ایسے شوقین حضرات کے لئے بری خبر ہے کہ ’’ورنہ‘‘ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ یہ فلم شعیب منصور نے بنائی ہے اور موصوف کا کمال یہ ہے کہ اُن کی فلموں میں ہیروئین اتنا بند گلا پہنتی ہے کہ اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ فقط فلم کے پہلے گانے میں ہیرو کی بیوی اور بہن پینٹ میں ملبوس نظر آئیں جس کے بعد اُن میں سے ایک اغوا کے بعد ریپ کر دی جاتی ہے اور پھر پوری فلم میں وہ بغیر چادر کے نہیں آتیں۔ اتنی پاکیزہ فلم میں نے اس سے پہلے ایک ہی دیکھی تھی اور وہ بھی شعیب منصور کی تھی۔
ورنہ میں کم ازکم تین باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے آپ کو یہ فلم دیکھنی چاہیے۔ پہلی، ٹریٹمنٹ۔ فلم کی کہانی کوئی اچھوتی نہیں مگر ٹریٹمنٹ کمال ہے، یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جسے ایک با اثر خاندان کا بگڑا ہوا رئیس زادہ ریپ کرتا ہے اور پھر جیسا کہ ہوتا ہے سب لوگ اس لڑکی کو چپ رہنے اور معاملہ دبانے کا مشورہ دیتے ہیں بلکہ ایک مرحلے پر تو اسے قصور وار بھی ٹھہرانے لگتے ہیں، مگر لڑکی ہمت نہیں ہارتی اور خود پر ہونے والے ظلم کابدلہ لیتی ہے گو کہ بدلہ لینے کا جو طریقہ فلم میں دکھایا گیا ہے وہ حقیقی زندگی میں شاید ممکن نہ ہو مگر فلم میں اِس حد تک فکشن کی گنجائش نکل ہی آتی ہے۔ اس کہانی کو جس طرح شعیب منصور نے اپنے روایتی تخلیقی انداز میں فلم میں ڈھالا ہے اِس کا اندازہ اِس بات سے لگا لیں کہ کسی بھی موقع پر فلم آپ کو بور نہیں ہونے دیتی بلکہ اس میں خاص سطح کا سسپنس بھی ہے جو آخری سین تک قائم رہتا ہے، اس قسم کی سوشل فلم میں یہ ایک اچھوتا پن ہے، یہی اس کی سب سے خاص بات ہے۔ فلم کی دوسری بات اس کے مکالمے ہیں۔ ورنہ کے مکالمے بے حد جاندار ہیں، ہمیشہ کی طرح خود شعیب منصور نے لکھے ہیں، کہیں ان میں زہر میں بجھا ہوا معاشرتی طنز ہے اور کہیں معاشرے میں ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف نفرت، کہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنے مکالموں کے ذریعے براہ راست مخاطب کرکے شرم دلا رہے ہوں اور کہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ بہت نازک معاملات پر نہایت معصومانہ انداز میں سوال اٹھا رہے ہوں، معاشرے کو جھنجھوڑ نے کی انہوں نے کوشش کی ہے اور وہ اپنی کوشش میں کافی حد تک کامیاب رہے ہیں۔ ایک موقع پرسارہ (ماہرہ خان)جب اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر روتی ہے تو اس کی ماں تسلی دینے کے لئے کہتی ہے کہ خدا کی لاٹھی بے آواز ہے، جواب میں سارہ کہتی ہے ’’یہی تو مشکل ہے کہ لاٹھی بے آواز ہے، آنی چاہئے آواز، آواز آنی چاہئے لاٹھی کی۔‘‘ اسی طرح ایک اور سین میں ریپ کے مقدمے میں سارہ کی وکیل اُس کے شوہر کو کہتی ہے ’’اُس شخص نے تو سارہ کے بدن کا ریپ کیا اور تم نے اُس کی روح کا، shame on both of you infact shame on most of you۔‘‘ریپ کے لئے ’’زبرجنسی‘‘ کا لفظ بھی شعیب منصور کی اختراع ہے۔ ورنہ کی تیسری بات نئے اداکاروں کا کام ہے خاص طور سے فلم کے ولن سلطان (ضرار خان) اور اُس کے بعد ہیرو آمی (ہارون شاہد) کی اداکاری۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لئے شعیب منصور نے یہ دوشاندار اداکار تیار کئے ہیں، بڑے عرصے کے بعد کسی پاکستانی فلم میں ولن کے کردار میں کوئی جچا ہے، اس فلم میں ماہرہ خان کے علاوہ اداکاری کے پورے نمبر اگر کسی کو دئیے جا سکتے ہیں تو وہ ضرار خان ہے اور اگر کسی کے نمبر کاٹے جا سکتے ہیں تو وہ رشید نیاز ہے جس نے ولن کے وکیل خانزادہ کا کردار ادا کیا مگر اوور ایکٹنگ کی حد کر دی۔ عاصمہ شیرازی اور اپنے عبدالقیوم صدیقی نے بھی فلم میں اداکاری کے جوہر دکھائے ہیں، عاصمہ تو خیر اینکر پرسن ہی رہیں، صدیقی صاحب البتہ ڈی جی فورنزک آڈٹ کے روپ میں نظر آئے۔ گورنر کا کردار ملک عطا محمد خان نے ادا کیا اور خوب کیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ موصوف گورنر امیر محمد خان کے داماد ہیں، فلم کے کردار میں اُن کا رعب و دبدبہ بالکل حقیقی شاید اسی لئے لگا۔
فلم میں دو بڑ ی کمزوریاں ہیں،ایک میوزک اور دوسری بجٹ۔ سوائے آخری گانے کے تمام گانے گٹار پر بجا بجا کر ہی فارغ کر دیئے گئے، آخری گانا اچھا ہے ’’ہم پھر سے زندہ ہو گئے، آزاد پرندہ ہو گئے!‘‘ مگر جب گاناپسند آنے لگتا ہے تو ختم ہو جاتا ہے، یہ بہت unlikeشعیب منصور ہے کیونکہ ایک ایسا شخص جس کے بنائے ہوئے گانوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے مقبولیت کے ریکارڈ توڑے ہوں اُس کی فلم کا میوزک شاندار ہونا چاہیے تھا مگر ’’ورنہ‘‘ میں ایسا نہیں ہے۔ دوسری کمزوری، بجٹ۔ آج کل فلم دیکھنا ایک مہنگا شوق ہے، پانچ بندے اگر فلم دیکھنے جائیں تو سنے پلکس کی ٹکٹیں، پاپ کارن، برگر، چائے وائے ملا کر پانچ چھ ہزار کا نسخہ ہے، اس کے بدلے وہ مکمل انٹرٹینمنٹ مانگتے ہیں اور اگر فلم سوشل ڈرامہ ہو تو پھر سمندر، پہاڑ، صحرا اور حسین وادیوں کے لوکل نظاروں کے ساتھ ساتھ ملائشیا، تھائی لینڈ یا کم ازکم دبئی نظر آنا چاہئے تاکہ فلم بین کو لگے کہ اس کے پیسے پورے ہو گئے جبکہ یہ پوری فلم اسلام آباد میں بنی ہے جس میں ایک لینڈ کروزر، ایک فاکسی اور ایک پندرہ سو سی سی گاڑی استعمال ہوئی ہے، انڈور لوکیشنز بھی چار پانچ سے زیادہ نہیں ہیں، حتیٰ کہ ایک دو جگہ ماہرہ خان کے کپڑے بھی ایک ہی ہیں۔ گو، میر ی رائے میں یہ فلم کا منفی پہلو نہیں کیونکہ اچھی فلم کے لئے ضروری نہیں کہ خواہ مخواہ گاڑیاں الٹا کر پیسہ بہایا جائے مگر کاروباری نقطہ نظر سے شاید یہ بات سود مند نہ ہو کیونکہ لوگوں کو مہنگی فلمیں دیکھنے کی عادت ہے۔
دنیا میں اگر کوئی فلم فیسٹیول ہو اور پاکستان کو دعوت دی جائے کہ آپ اپنا بہترین فلمی ہدایتکار اس میں نامزد کریں تو بلاشبہ ہمارے ذہن میں پہلا نام شعیب منصور کا ہی آئے گا، انہوں نے یہ بات بارہا ثابت کی ہے اور ’’ورنہ‘‘ اس کا ثبوت ہے، شعیب منصور جیسے لوگوں کا دم غنیمت ہے، ایسے سر پھرے معاشرے میں کم ہی ہوتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے