اقتدار اور جمہور میں مسنگ لنک کی سیاست

اٹھائیس جولائی سے اکیس نومبر تک کل تین مہینے بھی نہیں گزرے۔ جنہیں عدالت میں نااہل قرار دیا گیا، وہ سیاست میں اہل ہوگئے ہیں۔ ڈیڑھ سو برس سے ڈارون کی ایوولیوشن تھیوری میں ایک ’مسنگ لنک‘ نے سائنس کے بہترین دماغوں کو زچ کر رکھا ہے۔ بوزنہ اور انسان کے درمیان وہ حتمی کڑی نہیں ملتی کہ ارتقا کی زنجیر مکمل ہو جائے۔ 1988 میں ہالی وڈ میں ہدایت کار ڈیوڈ ہیوز نے ’مسنگ لنک‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی۔ نوے منٹ کی اس فلم میں مکالمے نہیں تھے۔ خاموشی کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے۔ فلم کا آخری منظر دیکھنے والوں کے دماغ پر جم سا گیا تھا۔ بندروں کے قبیلے کا آخری فرد پتھر سے بنی ہوئی بھدی سی کلہاڑی لیے ساحل پہ آن بیٹھتا ہے۔ اس کلہاڑی سے دو پیروں پر چلنے والے انسانوں نے اس بندر کا قبیلہ تہہ تیغ کر دیا تھا۔ دکھ صدمے اور انتقام کے جذبوں میں الجھتا ہوا وہ بندر نما انسان ڈھلتے ہوئے سورج کے پس منظر میں دیر تک ساحل پہ بیٹھا رہا اور پھر اس قاتل ہتھیار کو سمندر میں اچھال دیا۔ تاریخ میں یہ مرحلہ بار بار آیا ہے۔ مہلک ہتھیار کو بالآخر سمندروں میں غرق کرنا پڑتا ہے تاکہ کہانی آگے بڑھے۔ فرق اتنا ہے کہ جہاں غصے پہ شعور قابو پا لیتا ہے وہاں صدیوں کا فاصلہ نوے دن میں سمٹ آتا ہے اور جہاں شعور کی بجائے خوف اور انتقام غلبہ پا لیتا ہے وہاں نوے دن پھیل کر گیارہ برس بن جاتے ہیں… اور یہ گیارہ برس پلٹ پلٹ کر آسیب کی طرح قوم کا تعاقب کرتے ہیں۔

زندگی سے محبت کرنے والوں کو کہیں نہ کہیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ رفتگاں کا ماتم جاری رہے گا یا آئندہ منزلوں کی کھوج کی جائے گی۔ نظریہ ضرورت ایک بھدا مگر مہلک ہتھیار ہے۔ یہ مسنگ لنک تو ہم کبھی تلاش نہیں کر سکے کہ ایبٹ آباد سےآنے والے سید اکبر کو سولہ اکتوبر 1951 کی سہ پہر یہ ہتھیار کس نے تھمایا تھا۔ لیاقت علی خان کی شہادت سے ہمارے ملک میں جمہور اور ا قتدار کی زنجیر ٹوٹ گئی۔ ہم مسلسل ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں کہ آٹھ اکتوبر 1958 محض ایک حادثہ تھا یا کسی نے سوچ سمجھ کر اس بھیانک تمثیل کا منظر نامہ لکھا تھا۔ آخر یہ کس طرح ممکن ہوا کہ قائد اعظم کا متحدہ پاکستان ڈھاکہ میں غروب ہو گیا اور ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار کے صفحہ اول پر دو کالم میں ایک خبر دی گئی کہ مشرقی پاکستان میں لڑائی ختم ہو گئی۔ یہ نہیں بتایا کہ صرف لڑائی ختم نہیں ہوئی، مشرقی پاکستان بھی ہم سے الگ ہو گیا ہے۔ ہمارے نوے ہزار کڑیل جوان غنیم کی قید میں گھٹنوں پہ سر رکھے بیٹھے ہیں نیز یہ کہ ڈھاکہ کی گلیوں میں ان بے کسوں کو سنگینوں سے چھیدا جا رہا ہے جو پاکستان سے وفاداری کے مجرم تھے۔

سیاست کمرہ جماعت میں نہیں سیکھی جاتی۔ سیاست ہی پہ کیا موقوف ہے، طب، وکالت، تدریس اور صحافت، غرضیکہ زندگی اور موت کے درمیان مسنگ لنک کی دریافت پر مامور کوئی شعبہ محض کسب نہیں، ایک مسلسل مشق ہے جسے پیہم جستجو سے صیقل کیا جاتا ہے۔ رومیل کیا عسکری داؤ پیچ میں منٹگمری سے گھٹ کے تھا؟ ہرگز نہیں۔ مشکل یہ تھی کہ منٹگمری کے ملک پر ونسٹن چرچل حکمران تھا۔ اور رومیل کو بویریا کے کارپورل ہٹلر سے احکامات لینا پڑتے تھے۔ کارپورل ایک وردی پوش عطائی ہوتا ہے جو چھاؤنی اور شہر میں خط امتیاز کھینچنے سے قاصر ہوتا ہے۔ کارپورل معیشت اور پارلیمنٹ میں رشتہ نہیں جانتا۔ کارل پورل یونیورسٹی اور عدالت میں تعلق نہیں سمجھتا۔ کارپورل کی ذہانت حتمی، معجزاتی اور منفرد ہوتی ہے۔ کارپورل چاہتا ہے کہ اس کے ایک اشارے پہ دریا الٹی سمت میں بہنا شروع کر دے۔ دریاؤں پہ فرمان جاری نہیں کیا جاتا، دریا کا بہاؤ پانی کے ان گنت قطروں سے مرتب ہوتا ہے۔ ان میں ہر قطرہ رضا کارانہ طور پہ دوسرے قطروں سے مل کر ایسا دھارا تشکیل دیتا ہے جس پہ اندھیرے میں مل بیٹھنے والے مڈ نائٹ جیکالز بند نہیں باندھ سکتے۔

بے شک ذوالفقار علی بھٹو بہت بڑے سیاست دان تھے۔ 1963 میں جون ایف کینیڈی نے بھٹو سے کہا کہ آپ امریکی شہری ہوتے تو یقیناً میری کابینہ کا حصہ ہوتے۔ بھٹو صاحب نے ترنت جواب دیا، ’کابینہ کا حصہ ہی کیوں؟ میں امریکہ میں ہوتا تو آپ کا صدر ہوتا‘۔ یہ داخلی اعتماد کچھ ایسا بے جا نہیں تھا۔ بھٹو کی بدقسمتی مگر یہ تھی کہ اسے ایک ایسے ملک میں سیاست کرنا تھی جہاں تیئس برس سے انتخابات ہی نہیں ہوئے تھے۔ جہاں سیاسی حریف کے احترام کی ثقافت ہی تشکیل نہیں پا سکی تھی۔ جہاں اخبار کا گروپ ایڈیٹر آج بھی جمہوریت کا مفہوم نہیں سمجھتا۔ بھٹو صاحب اکیلے سفر کے اکیلے مسافر تھے۔ چنانچہ جمہور اور اقتدار کی کڑیاں جوڑ نہیں پائے۔ اس ادنی طالب علم کا دعویٰ ہے کہ سیاسی بصیرت اور جمہوری مہارت میں بے نظیر بھٹو اپنے باپ سے بڑھ کے تھیں۔ وجہ یہ کہ بے نظیر بھٹو کو اپنے باپ کی شہادت کے دکھ سے نمٹنا پڑا تھا۔ بھٹو صاحب پر یہ آزمائش نہیں گزری تھی۔ سیاست دان اپنے تجربے، غلطیوں اور بدلتے ہوئے حالات سے مسلسل سیکھتے ہیں۔ اصغر خان بہت بڑے رہنما تھے۔ لیکن اپنی دیانت اور ذہانت کے گھوڑے پہ کاٹھی نہیں ڈال سکے۔ سیاست میں غیر متعلق ہو کے رہ گئے۔ نواز شریف نے بھی یک نکاتی، انہدامی اور فلک سیر سیاست سے سفر شروع کیا تھا۔ 35 برس کی پاکوبی کے بعد اس مقام پہ پہنچے ہیں۔ مسنگ لنک کا کلہاڑا چلانا کونسا مشکل ہے۔ نتائج سے بے پروا ہو کے اندھی طاقت کا مظاہرہ ہی تو کرنا ہوتا ہے۔ لیکن تخریب کی یہ قوت تعمیر پہ غالب نہیں آ سکتی۔ نواز شریف وزیر اعظم ہاؤس سے نکلے ہیں تو جی ٹی روڈ کے راستے این اے 120 تک آئے ہیں۔ ان کی پارٹی میں شکست و ریخت کا خواب پورا نہیں ہو سکا۔ بیس نومبر کی شام قومی اسمبلی میں فیصلہ کن معرکے کی بساط بچھانے والوں کو اکیس نومبر کی صبح پارلیمنٹ میں 163 ووٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔ گلہ کیا جاتا ہے کہ آج ایوان میں حاضری اس قدر زیادہ کیوں ہے؟ سرکار، آپ ہی بتاتے تھے کہ امریکہ اور برطانیہ کی حکمران سیاسی جماعتوں کے سربراہ وزیر اعظم نہیں بنتے، اپنی جماعتوں کے معاملات دیکھتے ہیں۔ پھر اب کیا مسئلہ ہے، اگر حکمران جماعت اس شخص کی قیادت قبول کر لیتی ہے جسے قومی اسمبلی کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دیا گیا۔

الیکشن ایکٹ 2017 کے آرٹیکل 203 میں آپ کی ترمیم مسترد ہونے کا یہی مطلب ہے نا کہ سیاسی جماعت کی قیادت وہ شہری کرے گا جس پر اس جماعت کے ارکان کو اعتماد ہو گا۔ آپ تو چالیس، ساٹھ بلکہ ستر ارکان اسمبلی کی پس پردہ حمایت کی امید باندھے بیٹھے تھے۔ اب یہ موعودہ باضمیر آپ کو 163 ضمیر فروش نظر آتے ہیں۔ 126 روز تک آپ ڈی چوک میں بیٹھ کے عوام کو اشتعال دلاتے رہے اور اب آپ کا فرمان ہے کہ ہجوم سے انصاف مانگنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ گویا آپ کا ہجوم، عوام ہوتا ہے اور حریف کے پالے میں عوام بھی ہجوم ہو جاتے ہیں۔ ریاستی اداروں پہ حملہ کرنے والے ہجوم نہیں تھے؟ ووٹ سے فیصلہ مانگنے والے محض ہجوم ہیں۔ اور اب آپ 94 ارب روپے کی رشوت کے اعداد و شمار نکال لائے ہیں۔ گویا اسکرین پلے کا یہ ابتدائی گر بھی دوسرے نہیں جانتے کہ نوے اور سو کی بجائے چورانوے کا عدد زیادہ مستند معلوم ہوتا ہے۔ حضور آپ تو دس ہزار درہم کی غیر موصول شدہ تنخواہ پہ دوسروں کو نااہل کرانے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ چورانوے ارب تو بہت بڑی رقم ہوتی ہے۔ اتنا بڑا مسنگ لنک… ؟ حضور اس رشوت ستانی کا مقدمہ عدالت میں لائیے۔ اس سے تو صرف میاں نواز شریف نہیں، پوری قومی اسمبلی نااہل قرار دی جا سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے