کیا آپریشن لازم تھا؟؟

 

فیض آباد پر تحریک لبیک کے دھرنے کے 20 ویں روز وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے آپریشن لانچ کیا تو ابتدائی اطلاعات ایسی تھیں کہ لگا کہ بس چند ہی گھنٹوں میں دھرنا ختم، قائدین گرفتار اور صورتحال معمول پر آ جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔  آپریشن کے پہلے گھنٹے میں اگرچہ جزوی کامیابی ملی لیکن پولیس اور ایف سی جوانوں کے اعصاب جلد ہی جواب دے گئے  اور ان کے پیچھے کھڑے رینجرز والے بھی جواب دے گئے کہ ان کو تحریری حکمنامہ نہیں ملا تھا،، اس کے بعد جو ردعمل آیا وہ غیر متوقع نہیں تھا بلکہ ایسا ہی ہونا تھا،، عام لوگ سمجھتے رہے کہ آپریشن ختم ہو گیا تو بھی ایس نہ ہوا کیونکہ مری روڈ پر دھرنا مظاہرین آپریشن کرتے اور توڑ پھوڑ کرتے چوہدری نثار کے گھر تک پہنچ گئے،، اور ہلاکتیں بھی اس توڑ پھوڑ اور پولیس کاروائی ختم ہونے کے بوجود چڑھائی کے نتیجے میں ہوئیں،، اس کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ جب پولیس کے پاس ہتھیار نہیں تھے تو فائرنگ کہاں سے ہوئی اور کس نے کی؟؟

لیکن اس ساری صورتحال کے باوجود ایک سوال بار بار پوچھا جا رہا ہے کہ ” کیا آپریشن ضروری تھا؟” اگر مجھ ناچیز سے کوئی پوچھے تو میرا جواب ہے "بالکل بھی نہیں” میں اپنے اس موقف کی حمایت بہت سے دلائل دے سکتا ہوں لیکن چند ایک پریکٹیکل دلائل سے ہی اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ سب سے پہلی بات یہ کہ اگر آپریشن ہی کرنا تھا تو مظاہرین کے فیض اباد ڈیرے ڈالنے کے پہلے دن ہی ان کو وارننگز دے کر کاروائی کر لی جاتی تو شاید اتنا سخت ردعمل نہ آتا لیکن اس وقت بھی طاقت کا استعمال نہ کرنے کا فیصلہ دانشمندانہ ہی تھا ،، دوسری بات یہ کہ جب مذاکرات ہو رہے تھے تو آج نہیں تو کل یہ معاملہ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہی تھا،، اس لیے آپریشن کرنے کا فیصلہ اچانک نہ سہی لیکن جلدی میں ضرور کیا گیا۔۔ تیسری بات یہ کہ کسی شہری ، سیاسی یا ذاتی مسئلے پر احتجاج کرنے والوں کو تو طاقت کے استعمال سے ہٹایا جا سکتا ہے لیکن جہاں لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہو کہ حکومت، ادارے اور سرکاری مشینری "خدانخواستہ” ختم نبوت کے دشمن ہیں، جہاں معصوم عوام کے مذہبی جذبات کو کیش کرایا جا رہا ہو وہاں پر طاقت کا استعمال دانشمندی ہرگز نہیں ہوتا بلکہ ایسے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے کہ عوام کے جذابات مشتعل نہ ہوں اور جو سڑکوں پر آ گئے ہیں ان کا اندرونی مشن کچھ بھی ہو لیکن ان کو اچھے انداز سے ہی گھر بھیجا جائے۔۔

یہاں ایک اور بات بھی بتانا لازم ہے کہ جس حکومت اور انتظامیہ نے بیس دن تک دھرنے والوں کو کچھ نہیں کہا،، انتظامیہ کی سطح سے لیکر وزیر داخلہ کی سطح تک مذاکرات کے کئی ادوار کیے ،، پیروں، گدی نشینوں اور ارکان پارلیمنٹ کو معاملہ سلجھانے کیلیے استعمال کیا وہ آپریشن کرنے پر کیوں مجبور ہوئی؟ اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ تو سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے معزز ججوں کے وہ ریمارکس ہیں کہ جس میں حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کیساتھ سختی سے نمٹنے کا حکم دیا گیا،، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے تو کمال مہارت سے حکومت کو دھرنے والوں کے سامنے لا کھڑا کیا اور کاروائی کے احکامات دے دیے،، حکومت کی جانب سے عدالتی حکم پر عملدرآمد سے نہ کرنے پر انتظامی افسران اور پھر وزیر داخلہ کو ہی توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا ایسے میں عدلیہ کے کردار پر سوال ضرور اٹھنا چاہیے،،

اب آتے ہیں معاملے حل کی طرف تو اس کا واحد حل مذاکرات ، مذاکرات اور مذاکرات ہی ہیں لیکن حکومت کو یہ طے کرنا ہوگا کہ انھیں یہ مذاکرات کس سے کرنے ہیں کیونکہ دھرنے والے اب حکومت تو کیا کسی پیر اور گدی نشین کی بات سننے کو بھی تیار نہیں،، ایسے میں حکومت کو چاہیے کہ تششد نہ کرنے والوں سے براہ راست رابطہ کرکے معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرلے ،، جڑواں شہروں اور ملک بھر کی صورتحال کو معمول پر لانے کیلیے یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہوگا،، ویسے بھی جب سب ادارے پاکستان کے ہیں تو انھیں پاکستان کے مفاد کیلیے استعمال کرنے میں حرج کیا ہے؟؟  

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے