دھرنا: شوكت ماموں یاد آگئے!

آج سے کئی سال قبل ایک شادی میں دلہن والوں کی طرف سے شرکت کی دعوت ملی تو والد صاحب کے ساتھ شریک ہوا۔ ہم جا کر بیٹھے تو سب کچھ ٹھیک ٹھاک اور پرامن تھا۔ بارات کے استقبال کی تیاریاں عروج پر تھیں اور سب عزیز رشتے دار پوری طرح شریک تھے۔ اسی اثناء میں اعلان ہوا کہ بارات چل پڑی ہے اور کچھ ہی دیر میں پہنچ جائے گی۔ بس اس اعلان کے ہوتے ہی باہر ایک عجیب سا شور اٹھ گیا۔ اونچی اونچی آواز میں کوئی کوسنے دے رہا تھا اور گھر والوں کو دھمکا رہا تھا۔

میں باہر نکلا تو دیکھا دلہن کے شوکت ماموں جو چند منٹ پہلے ہمارے ساتھ بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے وہ غصے میں بھرے کھڑے ہیں اور دلہن کے باپ اور بھائیوں کو خوب سنا رہے ہیں ۔۔۔!

"یہ فیض کدھر سے آگیا ہے ۔۔۔ تم سب کا یہ ماما لگتا ہے کیا ۔۔۔ یہ رشتہ تو میں نے کروایا تھا ۔۔۔سب لوگ تو مجھے جانتے ہیں ۔۔۔ تم سب تو بالکل ہی نااہل اور نکمے ہو ۔۔۔کارڈ پر میرے نام کے آگے چودھری مٹا ہوا ہے ۔۔۔ فیض کا نام کیوں لکھا ہے ۔۔۔ یہ لگتا کیا ہے تمہارا ۔۔۔۔ میں بھینس اور کٹی لے کر آیا تھا دھی رانی کے لئے ۔۔۔ وہ بھی تم لوگوں نے پوری رات باہر باندھے رکھی ۔۔۔ یہاں میری کوئی عزت ہی نہیں ہے ۔۔۔ کتنے دن سے میں کہہ رہا ہوں کہ بتاشے ہم نے تیار رکھنے ہیں ۔۔۔ تم بے غیرتوں کی طرح دلہے والوں کا منہ دیکھ رہے ہو ۔۔۔ مگر یہ بتاؤ کہ یہ فیض کہاں سے آگیا ہے بیچ میں ۔۔۔ یہ تمہارا ماما لگتا ہے کہ اس کا نام بھی لکھا ہے اور سب مشورے اس سے ہو رہے ہیں۔۔۔”

دلہن کا باپ’ چاچے اور بھائی باری باری شوکت ماموں کے پاس جاتے۔ ان کی منت سماجت کرتے۔ سمجھانے کی کوشش کرتے کہ فیض کا نام لکھنا مجبوری ہے۔ بڑی دھی رانی کا گھر والا ہے۔ اسے پوچھنا پڑتا ہے ورنہ گھر میں فساد کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

مگر شوکت ماموں تھے کہ قابو ہی نہیں آرہے تھے۔ ان کی آواز بلند تر ہورہی تھی۔ لوگ اب ان کی ٹھوڑی پکڑ پکڑ کر منت کر رہے تھے کہ خاموش ہوجائیں کہ بارات آنے ہی والی ہے۔ مگر ماموں کا پارہ فل چڑھا ہوا تھا اور وہ بایئکاٹ کی دھمکی دے رہے تھے اور ساتھ ساتھ کہہ رہے تھے کہ اندر سے نوازاں کو بلاو ۔۔۔ اس کے گھر میری بڑی بے عزتی ہوئی ہے!!

اچانک کسی نے کہا کہ فیض بھی پہنچ گیا ہے۔ اب سب کو خوف لاحق ہوا کہ یہاں بڑا کھڑاک ہونے والا ہے۔ فیض اور شوکت ایک دوسرے کے گلے پڑیں گے۔ ایک بابا بولا آندیو فیض نوں وی!!

ایک لمبا چوڑا کڑیل سا ادھیڑ عمر بندہ اندر داخل ہوا۔ دلہن کا باپ لجاہت بھرے لہجے میں بولا آ فیض پتر آ جا۔ فیض نے سب کی طرف ایک اجتماعی نظری سلام اچھالا اور سیدھا شوکت ماموں کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔ سانسیں رک گئیں اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ شوکت ماموں کھڑے ہو کر فیض سے بغل گیر ہوگئے!

"اوئے فیض پتر تیرا ہی انتظار ہو رہا تھا۔ بارات آنے والی ہے تو میرے ساتھ باہر چل استقبال کے لئے۔ آخر یہاں جہاندیدہ اور وزن والے ہم دو ہی تو ہیں ناں”!!!

آ بھائی شاہد تو بھی ہمارے ساتھ کیونکہ شادی تو تیری بیٹی کی ہے ناں ۔۔۔۔!!!

نہ جانے کیوں بس آج اچانک کئی سال بعد شوکت ماموں یاد آگئے!

(تمام کردار قطعی فرضی ہیں اور کسی قسم کی مماثلت کی ذمہ داری ہم پر نہیں)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے