قبل ازوقت انتخابات ضروری

لعنت ہو ایسی حکومت پر جس میں نہ اختیار ہو اور نہ عزت ۔ جس میں وزیراعظم اپنے لیڈر میاں نوازشریف اورریاستی اداروں کے مابین سینڈوچ بنے ہوئے ہوں۔ جس میں چند ہزار لوگوں نے اسلام آباد کو یرغمال بنا رکھا ہو اور حکمراں کچھ نہ کرسکتے ہوں ۔ جس میں حکمراں کبھی ایک عدالت اور کبھی دوسری عدالت میں پیش ہورہے ہوں ۔جس میں وزیر خزانہ مفرور ہوں اور وزیرداخلہ بے اختیار ۔ جس میں ملک پر حکمرانی کرنے والی جماعت کے سربراہ کے بچوں کے وارنٹ جاری ہورہے ہوں اور حکمراں جماعت کا قائد روز عدالتوں میں پیش ہورہا ہو ۔ جس میں وزیروں کے گھروں پر حملے ہورہے ہوں ۔ جس میں حکومتی شخصیات چھپتی پھر رہی ہوں ۔ جس میں وزیرداخلہ کبھی یہ فریاد کررہے ہوں کہ رینجرز ان کے طلب کئے بغیر آگئی ہے اور کبھی ان کو طلب کرنے کے لئے منتیں کررہے ہوں ۔ جس میں وزارت داخلہ کو اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے عدالتی احکامات کا انتظار کرنا پڑ رہا ہو اور پھر جب آپریشن ناکام ہوجائے تو وزیر داخلہ کہتے پھر رہے ہوں کہ آپریشن ان کے حکم پر نہیں ہوا۔حکمراں جماعت کے سربراہ اقتدار میں آنے سے پہلے فرمایا کرتے تھے کہ اقتدار کی نہیں اقدار کی سیاست کریں گے لیکن سوا چار سال حکمرانی کے بعد جب رسوا کرکے نکالے گئے تو اب کہتے پھررہے ہیں کہ ان کے پاس تو اقتدار تھا اختیار نہیں تھا اور حیرت ہے اب اس بے اختیار اقتدار کو بھی چھوڑنے پر آمادہ نہیں۔ اپنا تو جو نقصان انہوں نے کرنا تھا، کرلیا لیکن اب جو کچھ ہورہا ہے ، اس میں ملک کا بھی نقصان ہورہا ہے ۔ حکمران شب وروز اشاروں کنایوں میں ریاستی اداروں کو سنارہے ہوتے ہیں اورجواب میں ادارے عمل کی صورت میں خاموشی کی زبان بول رہے ہیں ۔ وزیرداخلہ اور وزیرخارجہ دن رات اپنی بے بسی کا رونا رو کر اداروں کے بارے میں کان بھررہے ہوتے ہیں اور وہ جو کچھ کرتے ہیں ، اس پر وقتاً فوقتاً ان کے کان کھینچے جاتے ہیں کیا اکیسویں صدی میں ریاستیں ایسی چلتی ہیں اور کیا حکومت ایسی ہوتی ہے؟

اس حکومت کو برقرار رکھنے پر اصرار کیوں جو حواس باختہ ہی نہیں بلکہ بائولی بھی ہو چکی ہو۔ اس موقع پر ختم نبوت ﷺ جیسے حساس معاملے کو چھیڑنا بائولا پن نہیں تو اور کیا ہے ۔ خاد م حسین رضوی سے بھی پہلے میاں شہباز شریف نے میاں نوازشریف کی موجودگی میں کیمروں کے سامنے مطالبہ کیا تھا کہ ذمہ دار وزیر کو سز ا دی جائے لیکن اب اسی ایک وزیر (زاہد حامد نے غلطی کی ہے یا نہیں یہ تو تحقیقات کے بعد پتہ چلے گا لیکن بہر حال انچارج وزیر کی حیثیت سے بنیادی ذمہ داری ان کی ہے) کو فراغت سے بچانے کی خاطر پورے ملک کو عذاب سے دوچار کردیا گیا ۔ اب جب مار پڑی تو وہ بھی استعفیٰ پر آمادہ ہوگئے ۔ یہ حواس باختگی نہیںتو اور کیا ہے ۔ عدالت نے فیض آباد میں دھرنا دینے والوں کو ہٹانے کا حکم دیا تو پہلے حکم عدولی کی گئی اور مقررہ مدت میں ان کے خلاف کارروائی ہی نہیں کی گئی ۔ پھر اچانک غلط وقت پر غلط انداز میں (صبح آٹھ بجے سے بڑھ کر نامناسب وقت کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا) آپریشن کا آغاز کردیا گیا۔ دوپہر تک تمام ٹی وی چینلز آپریشن سے متعلق پل پل کی خبر دے رہے تھے ۔ پھر اچانک ٹی وی چینلز بند کردئیے گئے ۔ خود ہی افواہوں کا راستہ ہموار کیا گیا۔ پھر جب آپریشن کامیابی کے قریب تھا تو اچانک اسے بند کردیا گیا ۔ اب یہ بائولا پن نہیں تو اور کیا ہے ۔ تیاری وزیر داخلہ احسن اقبال کررہے تھے ۔ مذاکرات وہ کررہے تھے ۔ عدالت کو جواب وہ دے رہے تھے ۔ عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے توہین عدالت کا نوٹس انہیں جاری ہوا ۔ یہ اعلان ان کی وزارت کی طرف سے ہوا تھا کہ عدالتی احکامات کی روشنی میں دھرنا دینے والوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیاگیا لیکن اب جب کارروائی گلے پڑ گئی تو وزیرداخلہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ آپریشن کا فیصلہ انہوں نے نہیں بلکہ اسلام آباد انتظامیہ نے کیا۔ اب کیا قیادت اس طرح کی جاتی ہے؟ ٹیم لیڈر اور کمانڈر تو اپنے ماتحتوں کی غلطیوں کی ذمہ داری بھی اپنے سر لیا کرتے ہیں لیکن یہاں معاملہ الٹ ہے ۔ سانحہ ماڈل ٹائون اور پھر پی ٹی آئی کے دھرنوں کے واقعات کے بعد مورال کی پستی کا شکار پولیس کے سپریم کمانڈر جب یہ کہیں کہ آپریشن کا فیصلہ ان کا نہیں تھا تو اس کے بعد اس پولیس کے مورال کا کیا حال ہوگا؟۔

حکومت ایسے نہیں چل سکتی کہ میاں نوازشریف مزاحمت کی تیاری کررہے ہوں اور میاں شہباز شریف مفاہمت کے لئے منت ترلے کررہے ہوں ۔ وفاقی حکومت دھرنا دینے والوں کے خلاف آپریشن کررہی ہواور اسی پارٹی کی پنجاب حکومت کی ہمدردیاں دھرنا برداروں کے ساتھ ہوں ۔ وفاقی وزیر داخلہ خود سے ذمہ داری ہٹانے کے لئے یہ کہہ رہے ہوں کہ چھ افراد چوہدری نثار علی خان کے گھر کو بچاتے ہوئے مارے گئے اور جواب میں چوہدری صاحب انہیں نااہل اور بے خبر قرار دے کر چیلنج کررہے ہوں کہ ان کے گھر کو بچانے میں کوئی بندہ زخمی بھی نہیں ہوا۔ ملک کی تمام بڑی شاہراہیں اور بڑے شہروں کے چوک کئی دن سے دھرنوں کی وجہ سے بند ہوں اور حکومت کے بڑھک باز وزیر غائب ہوں ۔ وفاقی حکومت لبیک تحریک کے دھرنوں کو سیاسی سازش قرار دے رہی ہو اور خود میاں نوازشریف کے داماد کیپٹن صفدر کی ہمدردیاں بھی دھرنے والوں کے ساتھ ہوں ۔

مسلم لیگی قیادت کا المیہ یہ ہے کہ وہ آخر میں ہر پیاز کھاجاتی ہے لیکن سو چھتر کھانے کے بعد ۔ آخر میں سجدہ کرتی ہے لیکن قیام کے وقت یا پھر سلام کے وقت۔ اب وہ قبل ازوقت انتخابات کا مطالبہ نہیں مان رہی ۔ اس کو یہ غلط فہمی ہے کہ اقتدار سے چمٹا رہ کر وہ آئندہ چند ماہ میں پاناما کیس سے ہونے والے نقصان کی تلافی کرلے گی لیکن سیدھی بات یہ ہے کہ میاں نوازشریف اگر خود وزیراعظم رہ کر اپنے آپ کو نہ بچاسکے تو اب شاہد خا قان عباسی کی مفلوج اور حواس باختہ حکومت ان کو ہونے والے نقصان کی کیسے تلافی کرسکے گی ۔ اگر پاناما اسکینڈل منظر عام پر آتے ہی وزیراعظم استعفیٰ دے دیتے تو عزت رہ جاتی ۔ عدالت عظمیٰ کے پہلے فیصلے کے بعد مستعفی ہوجاتے تو بھی بہت بچت ہوجاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے نااہلی کے بعد میاں نوازشریف کے حق میں ہمدردی کی ناقابل یقین لہر اٹھی تھی۔ تب وہ فوراً نئے انتخابات کا اعلان کرواتے تو ان کے حق میں بھی بہتر ہوتا اور ملک کے حق میں بھی ۔ اب بھی ان کا اصرار ہے کہ ان کی پارٹی باقی مدت پوری کرے لیکن لبیک کے دھرنوں نے ثابت کردیا کہ یہ حکومت نہیں چل سکے گی اور اگر چلے گی بھی تو صرف نام کی حکومت ہوگی ۔ کبھی خادم حسین رضوی سے اسے مفلوج کرایا جائے گا، کبھی طاہرالقادری کو بلایا جائے گا ، کبھی عمران خان کو میدان میں اتارا جائے گا ، کبھی پارلیمنٹ میں بلوے ہوں گے ، کبھی اراکین پارلیمنٹ نامعلوم کالوں کی شکایت کریں گے تو کبھی پراسرار واقعات رونما ہوں گے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی تباہ ہوگی اور مسلم لیگ (ن) بھی انتشار کا شکار ہوتی جائے گی۔ جتنا وقت گزرے گا شریف خاندان اور ان کے ساتھیوں کی گردنوں کے گرد عدالتی شکنجے بھی مزید مضبوط ہوتے جائیں گے ۔ یوں ملک اور خود مسلم لیگ دونوں کے مفاد میں ہے کہ فوری طور پر نئے انتخابات کا راستہ اپنایا جائے۔ اب اعلان کیا گیا تو شاید انتخابات منعقد ہوجائیں لیکن جتنا جوقت گزرتاجائے گا ، انتخابات کا انعقاد بھی مشکل ہوتا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ میری تجویز مسلم لیگ (ن) تو کیا عام جمہوریت پسندوں کوبھی زہر لگے گی لیکن مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ملک ایسے چل سکتا ہے اور نہ نظام ۔ مجھے یہ بھی یقین ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمہوری قوتیں مزید کمزور ہوں گی اور انتخابات کا انعقاد بھی مشکل ہوتاجائے گا۔ اس لئے سوچھتر کھانے سے بہتر ہے کہ بروقت سو پیاز کھالئے جائیں ۔ اب پیاز کھانے پر آمادگی ظاہر کی تو شاید سو چھتر کھانے کی نوبت نہ آئے لیکن اگر اب پیاز کھانے سے مزید انکار کیا گیا تو شاید پھر چھتر اور پیاز ایک ساتھ کھانے پڑ جائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے