مشر محمد نواز شریف اور میاں محمود خان اچکزئی

تحریر کا عنوان دیکھ کر یقینا کسی کو دکھ پہنچا ھوگا تو کوئی چونک پڑا ھوگا مگر چونکہ سیاست کے حالات بھی اچانک بدل گئے ھیں اس لئے میرا بدلا انداز دیکھ کر احباب مجھ سے ھرگز بد دل نہ ھوں، میں بدلہ لینے کا قائل بالکل نہیں البتہ حالات کو بدلنے کے لئے اپنے احباب کو اپنے موقف کا قائل کرنا میرا جمہوری حق ھے.

"مشــر” پشتو میں معزز و محترم شخصیت کو کہتے ھیں. پشتونخوا میپ والے اپنے قائد محمود خان اچکزئی کو "ملــی مشــر” کہتے ھیں.

"میــاں” پنجابی میں معزز و محترم کے لئے استعمال ھوتا ھے. مسلم لیگ والے اپنے قائد محمد نواز شریف کو "میــاں صاحــب” کہتے ھیں.

ایک زمانے میں مسلم لیگ کے ھاں پشتونخوا کے "ملــی مشــر” کا تصور "افغـانـی غــدار” کا تھا جبکہ پشتونخوا کے ھاں مسلم لیگ کے "میــاں صاحــب” کا نام "پنجابـی استعمـار” تھا.

اب حالت بدل گئے ھیں، ایک دوسرے سے بد دل "پنجـابـی استعمـار” اور "افغـانـی غـدار” کو سیاست میں "وقــار” کے بڑھتے غیر جمہوری "کـردار” نے "یارِ غـار” بنا دیا ھے.

ایبٹ آباد میں مسلم لیگ کے جلسے میں مشــر محمود خان اچکزئی کو جو عزت ملی وہ "میـاں صاحــب” سے ھرگز کم نہ تھی اور آج کوئٹہ میں پشتونخوا میپ کے جلسے میں میـاں نواز شریف کو جو عزت دی جا رھی ھے وہ "ملــی مشــر” سے بلاشبہ کم نہیں.

کل کا "افغـانـی غـدار” محمود خان اچکزئی آج مسلم لیگ کے ھاں معزز و محترم "پختـون میـاں” اور کل کا "پنجـابـی استعمـار” میاں نواز شریف آج پشتونخوا کے ھاں معزز و محترم "پنجـابـی مشـر” ھے. نفرت کا جنازہ ھے، ذرا دھوم سے نکلے.

میرے نقطہ نظر سے یہ ملکی سیاست میں ایک مثبت قدم اور حوصلہ افزا پیش رفت ھے. پس پردہ قوتوں کا زور توڑنے کے لئے جمہوری طاقتوں کا اکٹھ ضروری بھی ھے اور لازمی بھی.

میرا موقف کل بھی یہ تھا اور آج بھی یہی ھے کہ نہ سارا پنجاب استعمار ھے اور نہ سارے افغان غدار. غدار پنجاب میں پختونخوا سے زیادہ ھیں اور استعمار پنجاب سے زیادہ پختونخوا میں ھیں. ظالم یہاں بھی ھیں اور وھاں بھی، مظلوم اِدھر بھی ھیں اور اُدھر بھی.

مزدور اور کسان پنجاب میں بھی مظلوم ھیں اور پختونخوا میں بھی جبکہ چوھدری اور نواب پنجاب کے بھی ظالم ھیں اور پختونخوا کے بھی. ظلم ظلم ھے خوا کہیں بھی ھو اور کسی بھی شکل میں ھو.

پنجاب میں وڈیرے آج بھی بالادست ھیں اور پختونخوا ابھی بھی سرداروں کے زیرِ دست ھے. اس نقطے کو ذھن میں رکھ کر درج بالا نکات پر غور فرمائیں. غریب اور مزدور زبردست اکثریت کے باوجود ھر جگہ زیرِ دست ھیں اور رھیں گے.

سر دست جو کارکن سیاسی معاملات میں دسترس نہیں رکھتے ان سے دست بستہ التجا ھے کہ اختلافات میں اخلاقیات کا دامن ھاتھ سے چھوٹنے نہ پائے کیونکہ سیاست میں کوئی دستور حرفِ آخر ھے نہ منشور.

آخری بات سب سے یہی ھے کہ ھم سب کو اپنی آخرت کی فکر کرنی چاھئے، سیاسی اختلافات پر اخلاقیات کے جنازے نہ نکالے جائیں کیونکہ آخر ھم سب کا جنازہ اٹھنا ھے. نفرت کا جنازہ ھے، ذرا دھوم سے نکلے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے