سٹالن کا روس اور ماس خوروں کا پاکستان

زمانہ قدیم میں غلاموں یامشقتیوں سے کام لینے کے بعد انہیں قید خانوں میں بند کیا جاتا تو اس امر کا خیال رکھا جاتا تھا کہ انہیں زندہ رکھنے کیلئے غذا کے ساتھ ساتھ آزادی کے حسین خواب بھی دکھائے جائیں. مثال کے طور پر اسٹالن کے روس میں ہر قید خانے میں خود اس کے اپنے کارندے قیدیوں کے روپ میں موجود ہوتے تھے جو دیگر قیدیوں کی ہمت جوان رکھنے کیلئے انہیں آزادی اور روشن مستقبل کے جھوٹے خواب دکھاتے تھے. ان خوابوں اور آسوں کے سہارے قید خانے کے مشقتیوں کا زندہ رہنے کا حوصلہ جوان رہتا تھا. قیدی قید خانے کی دیواروں کے ٹوٹنے کی جھوٹی آس میں زندہ رہنے کا ساماں ڈھونڈ لیتے اور خوب جان لگا کر مشقت کرتے. یوں قیدیوں سے نہ صرف بھرپور مشقت کروا کر کام کرا لیا جاتا بلکہ ان کے عرصہ حیات کو بھی طویل کر دیا جاتا.

دراصل انسان کی زندگی امید اور خواب کے دم پر قائم رہتی ہے. سٹالن کا روس اور کمیونزم تو اپنی موت آپ مر گیا لیکن یہ قید خانے کا کلیہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جدید بنیادوں پر استوار ہو کر مختلف اشکال میں آج بھی قائم ہے. وطن عزیز میں گو کمیونزم تو کبھی بھی نافذ نہیں ہوا لیلن کمیونزم کے دیگر لوازمات جیسے کہ اظہار رائے ہر پابندی , اختلاف رائے کو جرم قرار دینا, شخصی آمریت کا تسلط وغیرہ فی الوقت رائج ہیں.

مہزب معاشروں یا مضبوط جمہوریتوں کی چند خصوصیات کو ایک کنٹرولڈ طریقے سے رائج کر کے وطن عزیز میں بسنے والے مشقتیوں اور قیدیوں کو اس گمان میں رکھا جاتا ہے کہ دیگر مہذب معاشروں کی مانند ہمارے ہاں بھی سب اچھا ہے.جبکہ اس کے برعکس , مجموعی طور پر آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کی پالیسی نے ہمیں تضادات اور منافقت کے فن میں یکتا اور بے مثال بنا ڈالا ہے.کبھی مارشل لا تو کبھی کنٹرولڈ جمہوریت ,کبھی اسلامی نظام تو کبھی خلافت راشدہ کے سہانے سپنے, کبھی ضیاالحق کی خود ساختہ شریعت اور کبھی مشرف کا عجیب و غریب لبرلزم, ان تجربات نے معاشرے کو ایک تجربہ گاہ بناتے ہوئے یہاں کے بسنے والوں کو "گنی پگ” سے زیادہ کچھ خاص اہمیت نہیں دی.تضادات, نرگسیت پسندی اور کھوکھلے نعروں کے ساتھ مذہبی شدت پسندی اور نازی جرمنی یا سٹالن کے روس جیسی حد سے زیادہ قوم پرستی کا نتیجہ ہم نے سقوط ڈھاکہ کی صورت میں بھی دیکھا اور فاٹا و بلوچستان کو آگ و خون میں نہلانے کی صورت میں بھی دیکھا لیکن مجال ہے کہ طاقت کے ایوانوں میں بسنے والی اشرافیہ یا معاشرے میں بسنے والی مجموعی آبادی کے اکثریتی حصے کے کانوں پر کوئی جوں بھی رینگی ہو.

دہائیوں پرانا نعرے , "وطن اس وقت نازک صورتحال سے گزر رہا ہے” , "مذہب خطرے میں ہے” "ہمیں بین الاقوامی سازشوں کا سامنا ہے” آج بھی نہ صرف مقبول ہیں بلکہ حیران کن طور پر ملکی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ ان پر من و عن ایمان بھی رکھتا ہے. ان نعروں یا مفروضوں کے دم پر سیاسی ,دفاعی و مذہبی اشرافیہ نے جس قدر بے رحمی سے معاشرے کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے نابلد و نافہم رکھا ہے شاید ہی دنیا کے کسی اور مہذب معاشرے میں اس کی مثال ملنے پائے. سیاسی اشرافیہ نے روز اول سے ایک ہی گردان الاپی ہوئی ہے کہ جمہوریت خطرے میں ہے , مذہبی اشرافیہ کو دیکھیں تو مذہب خطرے میں ہے کی گردان اور دفاعی اشرافیہ کی جانب سےہمہ وقت وطن کی سالمیت خطرے میں ہے کا راگ سنائی دیتا ہے. ان نعروں اور مفروضوں کو سن کر گمان ہوتا ہے کہ جیسے وطن عزیز کے کل مسائل صرف اور صرف مذہب ,جمہوریت اور نظریاتی و دفاعی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے.جبکہ ساٹھ فیصد سے زائد آبادی زہر آلود پانی پئیے , تقریبا نصف سے زائد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارے, کڑوڑوں بچے علم کی روشنی سے محروم رہیں , مشعال جیسے بچے دن دہاڑے جنونیوں کے ہاتھوں کچلے جائیں یا عنبرین جیسی ان گنت بچیاں غیرت کے نام پر قتل کر دی جائیں یہ حقائق و واقعات گویا کوئ معنی ہی نہیں رکھتے اور نہ ہی ان کا تدارک ہماری ترجیحات میں شامل ہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے