اگر آپ کو اچھی سٹینڈ اپ کامیڈی کا مزہ لینا ہو، عالمی شہرت یافتہ پہلوانوں کے ساتھ سیلفی کھچوانا ہو، معیاری امریکن کنٹری یا جاز میوزک سننا ہو، بین الاقوامی کانسرٹس میں شریک ہونا ہو اور آپ یہ بھی چاہتے ہوں کہ گھر سے بہت دور نہ جانا پڑے تو میرا مشورہ ہے کہ فوری طور پر سعودی جنرل انٹرٹینمٹ اتھارٹی ( جی ای اے ) کی ویب سائٹ پر جائیں اور کسی بھی ایونٹ کا ٹکٹ فوراً بک کروائیں اور پھر جدہ یا ریاض کی فلائٹ پکڑیں۔
ابھی تین روز پہلے ہی مشہورِ عالم کمپوزر یانی کا آٹھ روزہ ٹور ختم ہوا ہے۔ یانی کے دو دو کانسرٹس جدہ، ریاض اور دہران میں ہوئے۔ ٹکٹ اگرچہ سو ڈالر سے شروع تھا پھر بھی ایک ماہ پہلے اعلان ہوتے ہی تین سے چار گھنٹے میں سب ٹکٹ بک گئے۔
چار دن پہلے ہی لبنانی نژاد حبا تواجی نے کنگ فہد کلچرل سینٹر ریاض کے ساڑھے تین ہزار نشستوں کے آڈیٹوریم میں کچھا کھچ خواتین کے سامنے چھت پھاڑ پرفارمنس دی ۔ سعودی تاریخ میں کسی بھی گلوکارہ کا یہ پہلا اوپن کانسرٹ تھا۔ بہت سی سعودی خواتین ٹولیوں کی شکل میں ہزار ہزار کلومیٹر ڈرائیو کر کے پہنچیں۔
اگلے ماہ ہاٹ فیورٹ امریکی ریپر نیلی اور مراکش کے لیجنڈری گلوکار شیب خالد کا کانسرٹ ہے۔ مگر افسوس سب ٹکٹ بک چکے ۔سنا ہے سعودی ثقافتی حکام نے نیلی کو رضامند کر لیا ہے کہ وہ اسٹیج پر جوش میں آ کر نہ کپڑے اتارے گا نہ ہی کھلی زبان استعمال کرے گا۔
نیلی کو امریکی کنٹری میوزک سٹار ٹوبی کیتھ کی طرح پرفارم کرنا پڑے گا۔ ٹوبی اور ڈونلڈ ٹرمپ مئی میں ایک ساتھ ریاض آئے اور ٹوبی نے سعودی تماشائیوں کے سامنے وہ گیت گائے جن میں بئیر، خوبصورت لڑکیوں کا پیچھا کرنے اور شاہد بازی کا تذکرہ غائب تھا تاکہ مقامی روایات و حساسیت کو دھچکا نہ لگے۔
27 جنوری کو ریاض میں پہلے جاز کانسٹرٹ، فروری اور مارچ میں ساٹھ مصری سازندوں پر مشتمل آرکسٹرا کے ساتھ شہرہِ عرب گلوکار محمد عبدو اور راشد الماجد کے اپنے ہی ملک میں پہلے چار کانسرٹس، مصری کمپوزر عمر خیرات کے ایک کانسرٹ، لبنانی پیانسٹ مائیکل فیدل کی دو پرفارمنسز، ریاض میں پانچ روزہ سٹینڈ اپ کامیڈی فیسٹیول، جدہ کے کامک کون فیسٹیول میں اپنے اپنے سپر ہیروز کے بھیس بدلنے اور کاسٹیوم پہن کر شرکت کرنے کی اجازت، امریکہ گاٹ ٹیلنٹ کی طرز پر عرب گاٹ ٹیلنٹ مقابلے سمیت سعودی عرب میں اس سال اب تک لگ بھگ تین ہزار چھوٹے بڑے کلچرل ایونٹس ہو چکے ہیں۔ گذشتہ برس ان ایونٹس کی تعداد تین سو کے لگ بھگ تھا۔
امِ کلثوم کی گلوکاری سعودی کلچرل ٹی وی چینلز پر اس برس سے مباح ہے۔ اس وقت پانچ سعودی لڑکیوں کے بینڈ ‘خمسہ عدوا’ ( پانچ روشنیاں ) کا گیت ‘ہش’ یوٹیوب پر ویڈیو میوزک کے چارٹ میں ادھم مچائے ہوئے ہے۔
ڈیڑھ برس پہلے تک حجاب سر سے سرکنے، نیل پالش والے ناخنوں کی جان بوجھ کر نمائش کرنے، سڑک پر تھرکنے، کار میں بلند آہنگ موسیقی سننے یا پرائیویٹ کانسٹرٹس منعقد کرنے سمیت بہت سے جرائم میں مذہبی پولیس ( مطوع ) جرمانے اور قید کروانے کی مختار تھی۔اب مذہبی پولیس کے اختیارات کم ہو گئے ہیں۔
سعودی شہری ہر سال تفریحات پر لگ بھگ 20ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں مگر انھیں سیرسپاٹے، کھلے میں آئس کریم کھاتے ہوئے مستی کرنے یا میوزک سننے کے لیے متحدہ عرب امارات، بحرین، ترکی، یورپ یا امریکہ جانا پڑتا تھا۔ اب سعودی سٹیبلشمنٹ اپنے شہریوں کو یہ بھاری رقم اپنے ہی ملک میں خرچ کرنے کی ترغیب دینے کے لیے پرکشش ثقافتی پاپڑ بیل رہی ہے ۔اس برس سعودی انٹرٹینمنٹ اتھارٹی کا ترقیاتی بجٹ پونے تین ارب ڈالر ہے۔ مقصد انٹرٹینمنٹ انٹرٹینمنٹ اور انٹرٹینمنٹ ہے۔
محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ‘سعودی عرب 1979 سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ سعودی عرب اور پورے خطے میں مختلف وجوہات کے لیے 1979 کے بعد سے الصحوہ (آگاہی) کی ایک تحریک چلائی گئی۔’
اس برس کے شروع میں جب ریاض میں پہلا اوپن جاز کانسرٹ ہوا تو مفتی اعظم عبدالعزیز الشیخ نے رائے دی کہ کانسرٹس شیطانیت کا دروازہ ہیں۔ تب سے اب تک سعودی ثقافتی کیلنڈر میں ایک بھی دن ایسا نہیں جو کسی نہ کسی ایونٹ سے خالی ہو۔
تایا صبغت اللہ نے جوانی سعودی عرب میں کام کرتے گذاری۔ بچپن سے ہمارے کانوں میں پھونکتے رہے میاں پاکستان میں جب تک سعودی طرز کا نظام نہیں آئے گا تب تک ہم لوگ سدھرنے والے نہیں۔ پچھلے ایک برس سے تایا صبغت نے کہنا شروع کردیا ہے میاں مجھے تو لگتا ہے پاکستان ہی بچا ہے جہاں تھوڑی بہت شرم و حیا باقی رہ جائے گی۔ اللہ ان مسلمانوں پر رحم کرے ۔