انسانی زندگی بچ جانے پہ انسان خوش ہوتے ہیں، میں ایک ایسے معاشرے میں زندہ ہوں جہاں ایک انسانی زندگی بچ جانے پر ایک سماج ماتم کررہا ہے۔ شاہ رخ جتوئی کی رہائی کے بعد میں نے خود کو شاہ رخ کی جگہ رکھا اور سوچا کہ کیا مجھے ایک اور موقع نہیں ملنا چاہئیے تھا۔
میرے دل نے کہا کہ ہاں ضرور ملنا چاہئیے تھا، زندگی سب کا حق ہے۔
پھر میں نے سوچا کہ اپنے لئے معافی اور شاہ رخ کا خون بہانے کا مطالبہ۔۔ یہ دہرا معیار کیا کھلی منافقت نہیں ہے۔
آپ اگر اندر سے مرچکے ہیں تو جیتے جاگتے انسان کے بجائے شاہ زیب کی جگہ بھی خود کو رکھ سکتے ہیں مگر ایک مردہ بن کر سوچنا اپنی نوعیت کی انوکھی مثال ہوگی۔
رپورٹنگ کے دوران بڑے دلچسپ مشاہدے ہوئے، لاک اپ میں بند ایک لڑکا سگریٹ کےلئے روتے ہوئے منتیں کر رہا تھا۔ میرے ساتھ کھڑے ایک شخص نے اس کو لات ماری اور کہا کہ جرم کرتا ہے اور عیاشی کی سوچتا ہے۔ اور پھر کچھ عرصے بعد میں نے اسی شخص کو اسی لاک اپ میں ایک جرم کے سلسلےمیں سگریٹ کے لئے منتیں کرتے دیکھا۔ میں اس سے پوچھنا چاہتا تھا کہ کیا تمہارا اب بھی یہی خیال ہے کہ ایک تو جرم اور اوپرسے عیاشی۔
غیر متوازن معاشروں کے معیار بہت دہرے ہوتے ہیں، شاہزیب کیس میں سب سے دلچسپ خودساختہ دباؤ کی شان دار ایجاد ہے۔
دبئی سے گھسیٹ کر شاہ رخ کو گرفتار کیا گیا
پولیس دباؤ میں نہیں آئی
پھانسی کی سزا ہوئی
عدالت دباؤ میں نہیں آئی
چار سال جیل میں رہا
حکومت دباؤ میں نہیں آئی
مگر شاہ رخ جتوئی کو متاثرین سے معافی ملتے ہی معاشرے کے خودساختہ ججوں نےخودساختہ دباؤ ایجاد کرلیا۔
یہ دباؤ دراصل ہماری اس خواہش کی تسکین ہے جو شاہ رخ کا خون نہ بہنے کی صورت میں پوری نہیں ہوئی۔
جو سرور جوان شاہ رخ کی لاش کے پھانسی گھاٹ پہ لٹکنے کے بعد تڑپنے کے تصور میں تھا، گو خودساختہ دباؤ میں نہیں مگر دل کو تو بہلانا ہے۔
شاہ زیب کے والدین چار سال تک عدالتوں اور اتھارٹیز کو یقین دلاتے رہے کہ ان پر دباؤ نہ تھا اور اگر ذرا سا بھی دباؤ ثابت ہوجاتا تو کہیں لکھ کر رکھ لیں کہ ہم شاہ رخ جتوئی کے پورے خاندان کو لٹکا چکے ہوتے۔
جب معاشرہ بے حس ہوجائے اور انسانی زندگی بچ جانے پہ ماتم کرنے لگے
جب معاشرہ منہ کھول کر تڑپتی ہوئی لٹکی لاش مانگے
جب معاشرہ اپنی خواہش کو انصاف قرار دے
جب معاشرہ فریقین کے اتفاق کو تسلیم کرنے سے انکار کرکے اپنی مرضی مسلط کرتےہوئے جج بن جائے
جب معاشرہ مفروضے ایجاد کرے کہ معافی کا دباؤ ہوگا، شاہ رخ رہائی کے بعد اور قتل کرے گا
اور اس خودساختہ دباؤ کی بنیاد پر اپنے ذاتی خواہش پر مبنی انصاف یعنی موت کے مطالبےکے لئے بالکل لیٹ جائے تو یہ اس بات کی نشانی ہے کہ معاشرے میں احساس کی موت ہو گئی۔
شاہ رخ کی زندگی بچ جانے پہ ماتم کرتے کچھ افراد دیت و قصاص کے قانون کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں، اگر دیت وقصاص کا قانون ختم بھی کردیا جائے تو آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کو کیسے ختم کریں گے جس کا رواج دنیا کے ہر نظام انصاف میں ازل سے ہے، فریقین کےکسی بھی اتفاق میں مداخلت کرنے والے آپ اور میں کوئی نہیں ہوسکتے، افریقہ سےہندوستان تک ہزاروں قاتل ایسے گھوم رہے ہیں جو آؤٹ آف کورٹ سیٹلمنٹ کے نتیجے میں سزا سے بچ گئے اور انہیں زندگی گزارنے کا ایک اور موقع ملا، غریب کی پھانسی دیت نہ ہونے کا نتیجہ نہیں بلکہ فریقین میں سیٹلمنٹ پہ اتفاق نہ ہونے کا نتیجہ ہے اور اگر شاہ زیب قتل کیس کی سیٹلمنٹ کو دیکھا جائے تو یہ غریبوں کے لئے ایک مثال ہے کہ جس کےباضابطہ معاہدے میں صرف اللہ کے نام پہ معافی کا ذکر ہے۔
مرضی کا انصاف چاہنے والے شاہ رخ کی وکٹری کے نشان پر برافروختہ ہیں اور یہ درست بھی ہے تاہم 18 برس کے اس لڑکے کی جگہ خود کو اس عمر میں رکھیں، آپ بھی فرائڈ کے قتل کا فلسفہ بیان نہیں کریں گے، اس عمر میں کسی میچیور عمل کی توقع رکھنے والا ضرور اس دور کا ملا نصیرالدین ہے۔
شاہ رخ کے لاش میں تبدیل نہ ہونے کے غم میں مبتلا معاشرے نے مفروضات پیش کرنے کی انتہا کر دی ہے، سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے فرمایا کہ اب بہنوں کی عزتیں کوئی نہ بچائے کیونکہ شاہزیب کو انصاف نہیں ملا گویا پوری دنیا میں بہنوں کی عزتیں بچانے والاآخری آدمی شاہزیب تھا اور اب جیسے ہی کسی نے اپنی بہن کی عزت بچانے کی کوشش کی تو شاہ رخ آجائے گا، یہ انتہائی سطحی بیانیہ ہے جس کو اختیار کرنے والے بس کسی بھی مفروضے کے تحت ایک اور لاش چاہتے ہیں۔
شاہ رخ جتوئی کا عمل انتہائی مذموم تھا مگر زندگی بچ جانے کا آپشن مذموم نہیں ہوسکتا اورشاہ رخ کی جگہ کوئی بھی ہوسکتا ہے، میں بھی اور آپ بھی۔