دس سالہ معمہ: پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کا قاتل کون؟

راولپنڈی کے لیاقت باغ میں 27 دسمبر 2007 کو پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینیظر بھٹو انتخابی ریلی کے دوران جہاں انھیں تقریب کے اختتام پر خود کش حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔

بینظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی خاتون تھیں جنھیں کسی ملک کی سربراہی کا موقع ملا۔ مگر دسمبر 2007 میں قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوجانے کے بعد اگلے دس سالوں میں یہ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ آیا کہ پاکستان کا نظام کیسے کام کرتا ہے بجائے یہ معلوم ہونے کے کہ ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم کو قتل کرنے کا حکم کس نے دیا تھا۔

27 دسمبر 2007 میں بینظیر بھٹو کو 15 سالہ بلال نے خود کش دھماکے کی مدد سے قتل کر دیا۔ اس وقت بینظیر بھٹو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں انتخابی ریلی سے خطاب کر کے واپس جا رہی تھیں جب بلال ان کی گاڑی کے قریب گیا، پہلے انھیں گولی ماری اور پھر اس کے بعد خود کو اڑا لیا۔ بلال نے یہ حملہ پاکستانی طالبان کے حکم کے مطابق کیا۔

بینظیر بھٹو پاکستان کے پہلے جمہوری وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی تھیں۔ ان کے والد کا سیاسی سفر ایک فوجی آمر نے ختم کیا جب 1979 میں جنرل ضیا الحق کے دور حکومت میں انھیں پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔

بینظیر بھٹو اس کے بعد دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم بنیں لیکن ملک کی فوج نے کبھی بھی ان پر اعتبار نہیں کیا اور کرپشن کے الزامات کی مدد سے انھیں حکومت سے نکال باہر کیا۔ اپنی موت کے وقت بینظیر بھٹو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے لیے انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔

بینظیر بھٹو کی موت کے بعد پاکستان میں بڑے پیمانے پر بدامنی پھیل گئی۔ ان کے چاہنے والوں نے سڑکوں پر جلاؤ گھیراؤ اور پتھراؤ کیا اور ملک کے خلاف نعرے بازی کی۔

2007 میں پاکستان کے صدر اور فوجی آمر، سابق جنرل پرویز مشرف نے دس سال بعد دیے جانے والے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ شاید ملک کی سٹیبلشمینٹ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث تھی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سٹیبلیشمینٹ میں موجود سرکش عناصر کا پاکستانی طالبان سے بینظیر بھٹو کے قتل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے تعلق تھا، تو انھوں نے جواب دیا: ‘شاید۔ ہاں بالکل۔ کیونکہ ہمارا معاشرہ مذہبی طور پر بٹا ہوا ہے۔’اور پرویز مشرف کے مطابق ان عناصر کی موجودگی شاید بینظیر بھٹو کی موت کا سبب بنی ہو۔

پاکستان کے سابق سربراہ کی زبان سے نکلا ہوا یہ فقرہ کافی تعجب انگیز ہے۔ عمومی طور پر پاکستان میں فوجی رہنما شدت پسند جہادی حملوں میں ریاست کے ملوث ہونے کے الزام کو قطعاً غلط قرار دیتے ہیں۔

یہ پوچھنے پر کہ کیا انھیں ریاست کے شرپسند عناصر کے اس حملے میں ملوث ہونے کے بارے میں کوئی مخصوص معلومات تھیں، تو پرویز مشرف نے جواب دیا: ‘میرے پاس کوئی حقائق تو موجود نہیں ہیں۔ لیکن میرے خیال میں میرا اندازہ کافی حد تک درست ہے۔ ایک ایسی خاتون جو مغربی ممالک کی جانب مائل ہو، وہ ان عناصر کی نظر میں آسکتی ہے۔’

پرویز مشرف پر خود اس مقدمے میں قتل کا الزام، قتل کی سازش اور قتل کرنے کے لیے مدد فراہم کرنے کے الزامات لگے ہیں۔ سرکاری وکلا کے مطابق پرویز مشرف نے 25 ستمبر کو بینظیر بھٹو کو فون کیا جب وہ نیو یارک میں تھیں اور اپنی آٹھ سالہ ملک بدری ختم کرنے سے تین ہفتے دور تھیں۔

بینظیر بھٹو کے طویل عرصے سے قریبی رفیق مارک سیگل اور صحافی ران سسکنڈ دونوں نے بتایا کہ وہ اس فون کال کے وقت بینظیر بھٹو کے ساتھ موجود تھے۔

مارک سیگل کہتے ہیں کہ فون کال ختم ہونے کے فوراً بعد بینظیر بھٹو نے کہا:’اس نے مجھے دھمکی دی ہے۔ اس نے کہا کہ واپس مت آؤ ۔ اس نے مجھے خبردار کیا کہ واپس مت آنا۔’

‘اس نے کہا کہ میرے واپس آنے کے بعد اگر مجھے کچھ ہوا تو وہ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگا اور مزید کہا کہ میری زندگی کی سلامتی اور سکیورٹی پرویز مشرف سے میرے تعلق پر منحصر ہے۔’

دوسری جانب پرویز مشرف سختی سے ایسی کسی بھی کال کرنے کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انھوں نے بینظیر بھٹو کے قتل کے اقدامات جاری نہیں کیے۔

بی بی سی سے حال ہی میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا: ‘سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس پر ہنستا ہوں۔ میں کیوں کروں گا اسے قتل؟’
لیکن پرویز مشرف کے خلاف قانونی کارروائی اس وقت معطل ہے کیونکہ کہ سابق صدر اس وقت دبئی میں خود ساختہ جلا وطنی کاٹ رہے ہیں۔

دوسری جانب بینظیر بھٹو کے صاحبزادے اور سیاسی وارث بلاول بھٹو پرویز مشرف کے صفائی کی مکمل تردید کرتے ہیں۔ ‘پرویز مشرف نے ساری صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میری والدہ کو قتل کروایا۔ انھوں نے جان بوجھ کر میری والدہ کی سکیورٹی کو کمزور کیا تاکہ وہ قتل ہو جائیں اور منظر سے ہٹ جائیں۔’

پرویز مشرف کے خلاف کاروائی تو اس وقت رکی ہوئی ہے لیکن اس مقدمے میں نامزد دوسرے افراد کو بری کر دیا گیا ہے۔بینظیر بھٹو کے قتل کے چند ہفتوں بعد پانچ ملزمان نے 15 سالہ بلال کی القاعدہ اور طالبان کے کہنے پر مدد کرنے کا اعتراف کیا۔حراست میں لیے جانے والے پہلے شخص اعتزاز شاہ کو پاکستانی طالبان نے کہا تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کو قتل کرنے کے لیے خودکش بمبار منتخب ہوا ہے۔ لیکن اسے متبادل بمبار کی حیثیت پر منتقل کر دیا گیا تھا جو اس وقت سامنے آتا اگر پہلی کوشش ناکام ہو جاتی اور اس بات پر وہ خفا بھی ہوا۔

اس کے علاوہ دو اور افراد، رشید احمد اور شیر زمان نے اعتراف کیا کہ وہ اس سازش میں درمیانے درجے کے منتظمین تھے اور ان کے علاوہ راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے دو رشتہ دار حسنین گل اور رفاقت حسین نے حکام کو بتایا کہ انھوں نے بینظیر بھٹو کو قتل کرنے سے ایک رات قبل بلال کو رہائش فراہم کی تھی۔

گو کہ یہ تمام اعترافی بیانات بعد میں واپس لے لیے گئے تھے، بینظیر بھٹو کے قتل سے چند گھنٹے قبل ملنے والے فون ریکارڈ سے سازشیوں کے محل وقوع اور گفتگو اِن اعترافی بیانات کی سچائی کی تصدیق کرتی ہے جو کہ بعد میں واپس لے لیے گئے تھے۔

حسنین گل نے پولیس کو اس اپارٹمنٹ میں مزید شواہد دکھائے تھے جہاں بلال نے رات گزاری تھی۔ بلال کے جسم سے ملنے والے ڈی این اے اور اس اپارٹمنٹ سے ملنے والے ڈی این اے کو بعد میں امریکی لیب میں تصدیق کے لیے بھیجا گیا جہاں وہ آپس میں برابر کا جوڑ ثابت ہوئے۔
اب سے کچھ ماہ قبل تک اس مقدمے پر تفتیش کرنے والے سرکاری وکلا کا خیال تھا کہ وہ مبینہ منصوبہ سازوں تک پہنچ جائیں گے لیکن ستمبر میں ان کے عزائم کے سامنے رکاوٹ آگئی جس سے یہ مقدمہ ختم ہو گیا کیونکہ کہ جج نے یہ فیصلہ دیا کہ شواہد جمع کرنے اور عدالت میں پیش کرنے کے طریقہ کار میں غلطیاں تھیں جس کا مطلب تھا کہ تمام ملزمان کو بری کیا جائے۔ ابھی بھی پانچوں ملزمان اپیل کا نتیجہ آنے تک حراست میں ہیں۔

پاکستان میں یہ عام بات ہے کہ لوگ بینظیر بھٹو کے قتل کا قصوروار ان کے شوہر آصف علی زرداری کو ٹھراتے ہیں۔ یہ الزام لگنے کی وجہ یہ ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کا سب سے زیادہ فائدہ انھیں ہوا کیونکہ وہ ملک کے صدر بن گئے تھے۔ لیکن ان الزامات لگانے والوں نے آج تک ایسے کوئی بھی قابل قبول ثبوت پیش نہیں کیے ہیں جو آصف علی زرداری کا ان کی بیوی کے قتل میں ملوث ہونے کے الزام کو ثابت کر سکے۔

آصف علی زرداری نے خود بھی ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے اور ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ ‘چپ رہیں۔’آصف علی زرداری پر ایک اور الزام یہ بھی کہ انھوں نے اپنے دور صدارت میں مکمل طاقت رکھنے کے باوجود اپنی بیوی کے قاتلوں کی تلاش میں ناکام رہے۔

متعد خفیہ دستاویزات جو بی بی سی نے حاصل کی ہیں ان کے مطابق یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس کی جانب سے کی گئی تفتیش اتنی خراب طریقے سے کی گئی تھی کہ ایسا لگتا تھا کہ پولیس والے نچلے درجے کے کارکنان کی گرفتاری کے بعد اصل سرغنہ یا ان کے گروہ کو ڈھونڈنا ہی نہیں چاہتے تھے۔

پولیس کی تفتیش میں کوتاہیاں 18 اکتوبر 2007 کو بینظیر بھٹو پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد کافی عیاں ہوئیں۔ اس واقعے میں دو خود کش بمباروں نے بینظیر بھٹو کے کراچی ایئرپورٹ سے شہر آنے والے قافلے پر حملہ کیا جس میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور یہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں سب سے بڑے واقعات میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔

پولیس کی اس حملے میں تفتیش اتنی نیم دلی سے کی گئی تھی کہ خودکش بمباروں کی کبھی بھی شناخت نہ ہوسکی۔ اس تفتیش کے سربراہ، سعود مرزا نے کہا تھا کہ ایک شخص کی انھوں نے اُس کے چہرے کے مخصوص نقوش سے شناخت کی تھی کہ وہ کراچی میں رہائش پزیر افریقی برادری سے تعلق رکھتا ہے۔ خودکش بمباروں کی شناخت کے حصول میں یہ اہم اطلاع کبھی بھی عام عوام کے سامنے پیش نہیں کی گئی۔

سابق صدر آصف علی زرداری پولیس پر کی جانے والی تنقید کے جواب میں کہتے ہیں کہ انھوں نے سکاٹ لینڈ یارڈ سے اپنی بیوی کے قتل کی تفتیش کی مدد لی تھی اور ساتھ ساتھ اقوام متحدہ سے تفتیشی کمیشن بھی بنوایا تھا جس نے بینظیر بھٹو کے قتل اور اس سے پہلے کے حالات اور عوامل کا جائزہ لیا تھا۔

لیکن اس انکوائری کمیشن کی جانب سے کہا گیا کہ تفتیش کے دوران ان کی راہ میں بار بار روڑے اٹکائے گئے اور یہ رکاوٹیں صرف فوج کی جانب سے نہیں بلکہ صدر زرداری کے وزرا کی جانب سے بھی کھڑی کی گئیں۔

انکوائری کمیشن کے سربراہ ہیرالڈو منوز نے بتایا: ‘اسٹیبلیشمینٹ سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد تھے جن سے ہمیں انٹرویو کرنا تھا لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔’ ہیرالڈو منوز کہتے ہیں کہ منع کرنے والوں میں فوجی اہلکار اور سیاست دان دونوں شامل تھے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ تفتیش میں پیش قدمی ہونے کے باوجود حکومت کی جانب سے ان کو فراہم کیا ہوا حفاظتی مکان بھی واپس لے لیا گیا اور ان کی حفاظت پر معمور سیکورٹی اہلکاروں کو بھی ڈیوٹی سے ہٹا دیا گیا۔

اس بات میں قطعی طور پر کوئی شک نہیں ہے کہ بینظیر بھٹو کے قتل کے عوامل ڈھونڈنے کے عمل کو روکا گیا ہے۔ بی بی سی کی جانب سے کی گئی تفتیش سے یہ ثبوت ملا ہے کہ وہ دو افراد جنھوں نے بلال کو بینظیر بھٹو تک پہنچنے میں مدد کی تھی انھیں 15 جنوری 2008 کو ایک فوجی چوکی پر مار دیا گیا۔ زرداری حکومت کے ایک اعلی عہدے دار نے بی بی سی کو نام نہ بتانے کی شرط پر کہا کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ‘ان دونوں کا قتل انکاؤنٹر تھا’ جو کہ پاکستان میں ماورائے عدالت قتل کا عام نام ہے۔

نادر اور نصراللہ طالبان کے حامی حقانی نیٹ ورک کے مدرسے میں طلبہ تھے۔ اس مدرسے سے تعلق رکھنے والے اور سازشی بھی ہلاک کیے جا چکے ہیں۔

بی بی سی نے اس تفتیش سے متعلق ایک نہایت جامع پریزینٹیشن حاصل کی جو کہ سندھ اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔ اس کے مطابق حقانی مدرسے کے سابق طلبہ اور بم بنانے کے ماہر عباد الرحمان نے بلال کو خود کش جیکٹ فراہم کی تھی جس کی مدد سے بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا۔ عباد الرحمان کو پاکستان کے قبائلی علاقے میں 13 مئی 2010 کو قتل کر دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ عبدللہ بھی تھے جو اس پریزینٹیشن کے مطابق خود کش جیکٹ کو حملے سے پہلے راولپنڈی تک پہنچانے کے ذمہ دار تھے۔ وہ مہمند ایجنسی میں 31 مئی 2008 کو ہونے والے ایک دھماکے میں ہلاک ہو گئے۔

بینظیر بھٹو قتل کیس سے منسلک اموات میں سے ایک انتہائی اہم موت خالد شہنشاہ کی تھی جو کہ سابق وزیر اعظم کے سکیورٹی گارڈز میں سے ایک تھے۔ خالد شہنشاہ بینظیر بھٹو پر ہونے والے حملے کے دن ان سے محض چند فٹ کے فاصلے پر تھے جب وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنی تقریر ختم کر رہی تھیں۔

اس دن کی ملنے والی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خالد شہنشاہ نے کچھ عجیب و غریب حرکات کی تھیں جن کا کوئی جواز نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے ان کی تسلی بخش وضاحت کی ہے۔ اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خالد شہنشاہ کا سر تو اپنی جگہ ساکن تھا لیکن انھوں نے اپنی آنکھیں بینظیر بھٹو کی جانب اٹھائیں اور ساتھ ساتھ اپنی انگلیوں سے گلا کاٹنے کا اشارہ بنایا۔ یہ فوٹیج سامنے آنے کے بعد وائرل ہو گئی اور اس کے چند ماہ بعد، 22 جولائی 2008 کو انھیں کراچی میں اپنے گھر کے باہر قتل کر دیا گیا۔

دوسرے اہم ہلاک ہونے والے شخص تفتیش پر معمور سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار تھے۔ ان کی ساکھ بحیثیت نہایت قابل اور مستقل مزاج وکیل کے طور پر تھی اور انھوں نے اپنے دوستوں کو بتایا تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں کافی پیش قدمی حاصل کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔3 مئی 2013 کو اسلام آباد میں وہ عدالت جا رہے تھے جب انھیں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اور تیسرا شخص وہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے مار دیا ہے لیکن وہ درحقیقت ابھی زندہ ہے۔

مبینہ سازشیوں نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ بینظیر بھٹو پر حملے والے دن ایک اور خود کش بمبار اکرام اللہ بلال کے ہمراہ تھا۔ کیونکہ بلال اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تو اکرام اللہ کی ضرورت نہیں پیش آئی اور وہ وہاں سے چلا گیا۔ سالوں تک پاکستان حکام کہتے رہے کہ اکرام اللہ کو ڈرون حملے میں ہلاک کیا جا چکا ہے۔ 2017 میں مرکزی پراسکیوٹر محمد اظہر چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستانی تفتیشی اداروں کی جانب سے جمع کیے گئے شواہد کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ‘اکرام اللہ زندہ نہیں ہے۔’ لیکن اگست 2017 میں پاکستان حکام نے 28 صفحات پر مبنی ایک فہرست جاری کی جس میں ملک کے سب سے زیادہ مطلوب دہشت گردوں کا نام درج تھے۔ اس فہرست میں نویں نمبر پر درج نام جنوبی وزیرستان کے رہائشی اکرام اللہ کا تھا اور ان کے نام کے آگے درج تھا کہ وہ بینظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہے۔

اندازہ ہے کہ اکرام اللہ اس وقت مشرقی افغانستان میں مقیم ہے جہاں وہ پاکستانی طالبان کے لیے درمیانے درجے کا کمانڈر بن چکا ہے۔
گذشتہ دس سالوں میں اب تک بینظیر بھٹو کے قتل کیس میں صرف دو پولیس اہلکاروں کو سزا ہوئی ہے جنھوں نے جائے قتل کو دھو دینے کا حکم جاری کیا تھا۔ کئی پاکستانی ان کی سزا کو ناانصافی قرار دیتے ہیں اور ان کا موقف ہے کہ پولیس ایسا کام فوج کے کہنے کے بغیر کر ہی نہیں سکتی۔

یہ ایک دفعہ پھر ظاہر کرتا ہے کہ حاضر اور ریٹائرڈ فوجی افسران پر مبنی پاکستان کی اسٹیبلیشمینٹ ایک خفیہ نیٹ ورک ہے جو کہ ملک کے قومی مفاد کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور اسی کے تحفظ کی خاطر فیصلے کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے