قندیل نما کی آن لائن دستیابی

قندیل بلوچ ایک منفرد داستان ہے ایک بے باک انداز ہے جس کو کسی کی پرواہ نہیں ، لوگوں نے اس کو جہاں تنقید کا نشانہ بنایا وہیں ان کے چاہنے والوں کی تعداد حیران کن تھی ۔ جس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے لہذا پرانی قندیل بلوچ کے بارے میں زیادہ لکھنا نہیں چاہتا کیونکہ اب یہ پروڈکٹ عام ہو چکی ہے ۔ ان صاحبہ نے تو خیر سوشل میڈیا ویب سائٹ کا سہارا لیا مگر اب موبائل فون ایپس کے ذریعہ ایک عام لڑکی کا قندیل بننا بہت آسان ہو چکا ہے اور اس کا معاوضہ بھی بہت پرکشش ہے ۔

یہ ایپ ہمارے ملک میں چند سال قبل متعارف کروائی گئی جس کے بارے میں کہا یہ گیا کہ ملک بھر سے نئے فن کو دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔ بس آپ اس ایپ کو ڈاؤن لوڈ کریں اور کیمرے کے سامنے بیٹھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کریں ۔

کیمرے کے سامنے بیٹھ کر پہلے گفتگو کرنا ایک عام بات تھی مگر وقت کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں بھی بدل جاتی ہیں ۔ اب یہ وڈیو کانفرنس دو افراد کے درمیان نہیں ہے بلکہ جو چاہے اس کا حصہ بن کر لطف اندوز ہوسکتا ہے ۔ ایک لڑکی کیمرے کے سامنے بیٹھ کر کوشش کرتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس کے شو کا حصہ بنے رہیں ، جتنے زیادہ لوگ اس کو دیکھیں گے اس کی کمائی اتنی زیادہ ہو گی ۔ دیکھنے والے جو پیغامات لکھ کر بھیجتے ہیں اس کا فوری جواب دیا جاتا ہے ، ہاں اگر آپ بھی آڈیو یا وڈیو کال کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنا لیول بڑھانا ہوگا جس کے لئے آپ کو پوائنٹ خریدنے ہیں اور وہ پوائنٹ جس کو آپ دیکھ رہے ہیں ان کو گفٹس کی صورت میں منتقل کریں تاکہ آپ کا درجہ بڑھے اور جو یہ گفٹس وصول کرتا ہے وہ اس کو باآسانی کیش کروا سکتا ہے ۔ پوائنٹس خرید کرنے کیلئے کریڈٹ کارڈ یا پھر دو موبائل فون کمپنیوں کے اکاؤنٹ درکار ہیں ۔

بہت سے افراد یہ کام گھر بیٹھ کر انجام دے رہے ہیں وہیں اس کے باقاعدہ کیفے بن چکے ایک لڑکی کو پرکشش تنخواہ کے بدلے نوکری دی جاتی ہے اور وہ اپنی ڈیوٹی کے دوران کیمرے کے سامنے سے نہیں ہٹتی ، جس قسم کی بھی گفتگو کی جائے اس کا جواب دیتی ہے ، دیکھنے والوں کو گانے سنائے جاتے ہیں اور ایسے لباس کا استعمال کیا جاتا ہے کہ وہاں سے جانے کا دل نہ کرے ۔ ان کیفیز کو ٹریس کرنا ایف آئی اے سائبر کرائم برانچ کیلئے کوئی مسئلہ نہیں مگر ان کے غیر قانونی ہونے پر ابھی ابہام ہے ۔

پاکستان کے صوبہ پنجاب خاص طور پر جنوبی پنجاب سے صارفین کی بڑی تعداد اس ایپ سے فیض یاب ہو رہی ہے ۔

اس مسئلہ کے متعلق میں مذہبی رائے دینا نہیں چاہتا ، معاشرتی پہلو کو بھی نظر انداز کرتا ۔ اس کام کی قانونی حیثیت کیا ہے ؟ اگر یہ ٖفحاشی کے زمرے میں آتا ہے تو ہمارے قانون میں فحاشی کی کوئی تعریف موجود نہیں ہے ۔ یہ بات آپ کو شاید عجیب لگے تو میں آپ کو سمجھانے کیلئے دو ہزار بارہ میں لے چلتا ہوں جب جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد اور جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین کی دائر کردہ پٹیشن پر سپریم کورٹ نے ڈائریکشن دی کہ پاکستانی ٹیوی چینلز پر نشر ہونے والے مواد کیخلاف پیمرا ضابطہ اخلاق بنائے تو اس وقت کے چیئر مین نے کہا کہ پاکستان کے آئین ، پاکستان پینل کوڈ اور پیمراء آرڈیننس میں فحاشی کی کوئی واضع تعریف موجود نہیں ہے اور آج بھی اس کی تعریف نہیں کی گئی لہذا جس چیز کی تعریف ہی موجود نہ ہو اس کے بارے میں قانون کیا ہو گا ۔

انسداد فحاشی قانون تو ہے فحاشی کی تعریف نہیں معاملہ کی پیچیدگی کا اندازہ آپ خود لگا لیں ۔ ویسے بھی ہر طبقہ کے نزدیک فحاشی کا معیار اور تعریف بالکل الگ ہے کوئی فیشن کہتا ہے کوئی وقت کی ضرورت اور کوئی اس کو روشن خیالی ۔

آج سے قبل اس قسم کی خبروں سے میں نے اجتناب کیا ہے جس کا تعلق obscenity سے ہو کہ کیونکہ میرے سینئر صحافیوں نے ہمیشہ اس سے منع کیا ہے ۔ اس قسم کے موضوع پر یہ پہلا آرٹیکل تھا جس میں بہت احتیاط سے لکھا ہے فقط اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ لوگ جان سکیں کہ اب پیسہ کمانے کے انداز بدل چکے ہیں ۔

یہ ایک انٹرٹینمنٹ ہے یا وقت کا ضیاع ، نوجوان نسل گھنٹوں اس موبائل فون ایپ کے سہارے وقت گزارتے ہیں ۔ اگر یہ ایک کاروبار ہے تو اس طرح کے کاروبار کیلئے کیا کوئی قانون ہونا چاہئے اس کا فیصلہ آپ خود کر لیں کم سے کم ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے