پرویز مشرف صاحب کو اس ملک نے بہت کچھ دیا ہے۔ پاک فوج کے کئی سینئر افراد نے جو اپنی رائے دینے میں بہت محتاط اور تعصبات سے بالاتر رہے ہیں،اکثر مجھے بتایا کہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے کمانڈو مشرف، بریگیڈئرکے عہدے سے آگے بڑھنے کے مستحق نہ تھے۔قسمت مگر ان پر ہمیشہ مہربان رہی۔
ربّ کا کرم یہ بھی ہوا کہ پاک فوج کوجنرل جہانگیر کرامت جیسا ایک چیف ملا۔ بہت ہی ٹھنڈے مزاج کے ساتھ معاملات کو گہری دانشورانہ سوچ کے ساتھ دیکھنے والے جنرل کرامت کی خواہش تھی کہ عسکری قیادت،سیاسی قیادت پر فیصلہ سازی کے عمل میں خفیہ اور سازشی انداز میں حاوی ہوتی نظرنہ آئے۔ قومی سلامتی کونسل جیسا کوئی منظم اور آئینی اعتبار سے جائز ٹھہرا فورم ہو۔عسکری قیادت اس فورم کے روبرو اپنی Institutionalرائے پیش کرے تاکہ خارجہ اور سلامتی سے متعلق امور کے ضمن میں لئے ریاستی فیصلے National Consensusکی ترجمانی کرتے نظر آئیں۔
لاہور کی ایک علمی مجلس میں 1998میں انہوں نے اس سوچ کو خطاب کی صورت بیان کردیا۔ ”ہیوی مینڈیٹ“ کے بل بوتے پر دوسری باروزیر اعظم منتخب ہوئے نواز شریف کو یہ خطاب پسند نہ آیا۔ جنرل کرامت کو مری طلب کرکے اپنی خفگی کا اظہار کیا تو انہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ حالانکہ ان کی معیادِ ملازمت ختم ہونے میں ابھی کئی ماہ باقی تھے۔
وزیر اعظم کے ان دنوں ضرورت سے کہیں زیادہ بااختیار معتمد-چودھری نثار علی خان- پرویز مشرف کے دیرینہ دوست تھے۔ سوچا یہ بھی گیا کہ اپنی کھلی ڈلی طبیعت کی وجہ سے ایک پڑھے لکھے مہاجر اور سرکاری ملازم پیشہ خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے مشرف صاحب کے کوئی سیاسی عزائم نہیں ہوں گے۔اپنے عہدے پر فائز ہونے کے چند ہی ماہ بعد مگر انہوں نے کارگل کردیا۔کارگل کی وجہ سے پاکستان پر نازل ہوئی مشکلات کی وجہ سے نواز شریف 4جولائی 1999کے روز واشنگٹن جانے پر مجبور ہوئے۔ امریکی صدر نے اپنے ملک کے یومِ آزادی کی تقریبات کو بھلاکر کئی گھنٹوں تک پھیلی مداخلت کے ذریعے ایک گنجلک مسئلہ حل کروایا۔مشرف صاحب کے خلاف اس ضمن میں کوئی انضباطی کارروائی نہ ہوئی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ ہے۔
نوبرس تک ”کن فیکون“ والے اختیارات استعمال کرنے کے بعد بالآخر مشرف صاحب کو استعفیٰ دینا پڑا تو ایوانِ صدر سے بہت عزت واحترام کے ساتھ رخصت ہوئے۔ پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد نواز شریف نے ان کا عدلیہ کے خلاف اٹھائے اقدامات کی وجہ سے احتساب کرنا چاہا تو مشرف کی Mother Organisationان کی حمایت میں کھڑی ہوگئی۔ انہیں ہسپتال پہنچادیا گیا۔ بالآخر ”کمر کے درد“ کی بدولت انہیں غیر ملک جانے کی اجازت ملی۔ ایک وزیر اعظم کو پھانسی دلوانے اور دو وزیر اعظموں کو نااہل قرار دینے والی عدلیہ ان کے معاملے میں قطعاََ بے بس نظر آئی۔
اپنے پر آئی آفت سے بہت شان کے ساتھ بچ جانے کے بعد مشرف صاحب کو ریٹائرمنٹ کے ایام ربّ کا شکر ادا کرتے بسر کرنا چاہیے۔ وقارنام کی ایک شے ہوتی ہے۔ بردبارخاموشی اسے برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔پرویز مشرف صاحب کو مگر خاموش رہنے کی عاد ت نہیں۔ میڈیا میں ہر صورت نمایاں رہنے پر بضد ہیں اور اس ضمن میں کچھ بھی کہہ دینے کو ہر وقت تیار۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی دسویں برسی کے موقع پر برطانیہ کے ایک مشہور صحافی اوون بینٹ جونز نے ایک تحقیقاتی رپورٹ لکھی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری جنرل پرویز مشرف کو بھی اپنی والدہ کے قتل کا مناسب سیکیورٹی فراہم نہ کرنے کی وجہ سے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ برطانوی رپورٹر کا یہ خیال ہے کہ جنرل مشرف شاید محترمہ کے قتل کے براہِ راست ذمہ دار نہیں تھے۔ ان کے ماتحت اداروں میں البتہ چند لوگ اس قتل کی سازش اور مجرموں کو بے نقاب کرنے کی راہ میں ہر صورت حائل رہے۔ جنرل مشرف سے جب اس ضمن میں سوال ہوا تو موصو ف نے اس خیال کو ہرگز رد نہیں کیا۔ ایک حوالے سے بلکہ رپورٹر کے شک کو یقین کی صورت دے دی۔
مشرف صاحب نے کمال بے نیازی سے اعتراف کیا کہ پاکستانی معاشرہ قطعاََ تقسیم(Polarised)ہوچکا ہے۔ اندھی نفرت ومحبت کی بنیاد پر ہوئی اس تقسیم سے پاک فوج بھی خود کو کاملاََ محفوظ نہیں رکھ سکتی۔
ہوسکتا ہے کہ جنرل مشرف صاحب نے ایک حد تک سچ بول دیا ہو۔ ان کے مقام سے بولا یہ ”سچ“ مگر پاکستان کے لئے بہت بھاری ثابت ہوسکتا ہے۔کم از کم گزشتہ 30برسوں سے امریکی،یورپی اور بھارتی میڈیا اور تھنک ٹینکس وغیرہ باہم مل کر مسلسل یہ پرچار کررہے ہیں کہ پاکستان کے دفاعی اداروں میں کچھ Rogueعناصر در آئے ہیں۔ سازشی انداز میں منظم ہوکر یہ عناصر اپنے تئیں ایک Deep Stateبن چکے ہیں۔ ”ریاست کے اندر ایک اور ریاست“ والا معاملہ۔ خلافت عثمانیہ کے ایام زوال کے دوران ابھری ”دریں دولت“جس نےYoung Turksدئیے تھے۔
پاکستان کے دشمنوں کا اصرار ہے کہ ہمارے ہاں مبینہ طورپر موجود اور متحرکDeep Stateنظر آنے والی ریاست سے بالاتر ہوچکی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے پاکستان کے صدر،وزیر اعظم حتیٰ کہ آرمی چیف عالمی قوتوں کو جو کچھ بھی بتاتے رہیں، اس پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ Deep Stateشاید دنیا کی ہر ریاست میں موجود ہوتی ہے۔پاکستان میں اس کا وجود مگر اس وجہ سے بھی بہت اچھالا جاتا ہے کہ ہم ایک ایٹمی قوت بھی ہیں۔ وقفے وقفے سے یہ دہائی مچادی جاتی ہے کہ ہمارے ایٹمی اثاثے ایک روز مبینہDeep Stateکے کنٹرول میں جاسکتے ہیں۔
حال ہی میں اس کہانی کو راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والے فیض آباد چوک پر 22روز تک جاری دھرنے کے دوران بھی دہرایا گیا۔ اس ماہ کے آغاز میں ٹرمپ انتظامیہ نے اپنی قومی سلامتی کے حوالے سے جو دستاویز جاری کی ہے اس میں بھی پاکستان سے خود کو ایٹمی اثاثوں کا ”ذمہ دار محافظ(Responsible Custodian)ثابت کرنے کا تقاضہ ہوا ہے۔
پاک فوج کے ایک طاقت ور ترین سربراہ ہونے اور اس ملک کے انتہائی بااختیار صدررہنے کے بعد پرویز مشرف صاحب کی یہ تاریخی اور اخلاقی ذمہ داری تھی کہ وہ درشت اور واضح الفاظ میں اوون بینٹ جونز کو یہ بتاتے کہ پاکستان کے عسکری ادارے انتہائی منظم ہیں۔ ان کی سوچ Institutionalہے۔ یہ سوچ اگر کسی کو پسند نہیں تو اسے نام نہاد ”ریاست کے اندر ریاست“ کے متھے نہ لگائے۔ بدقسمتی سے مشرف صاحب ایسا کرنے میں ناکام رہے۔ ان کی جانب سے “Polarised”والا بیان ان عالمی قوتوں کے بہت کام آئے گا جو ان دنوں پاکستان پر افغانستان کے تناظر میں ”ورنہ….“ والی دھمکیوں کے ساتھ Do Moreکے تقاضے کررہے ہیں۔