بینظیر یادیں

دبئی میں بے نظیر بھٹو صاحبہ سے پہلی ملاقات کا آغاز کچھ اچھا نہیں تھا۔ میں ان دنوں اپنے پروگرام 50منٹ میں ڈھاکہ فال کے حوالے سے ریسرچ کررہا تھا۔ میرے اس ریسرچ کے سلسلے میں کچھ عجیب و غریب سوالات سامنے آئے۔ ان سوالات کی بنیاد فقیر سید اعجاز الدین کے مرتب کردہ White House Papers تھے۔ جن میں مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمٰن کی کامیابی اور پھر اسکی علیحدگی کے حوالے سے کچھ حقائق درج تھے۔ ان دنوں جب مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوجیوں پر مشکل کا دور تھا۔ اقوا م متحدہ میں پاکستان کا وفد بھٹو صاحب کی قیادت میں بھیجا گیا تھا تاکہ وہاں پاکستان کے حق میں قرارداد منظور کرائے اور ساتھ ہی دوسرے ممالک کے وفود کو ملکر انہیں پاکستان کے حق میں کرے۔ لیکن ان پیپرز کے مطابق بھٹو صاحب بجائے اس کے کہ اپنا وقت دوسرے ممالک کے وفود کے ساتھ صرف کریں اور اقوا م متحدہ میں زیادہ وقت گزاریں، وہ سینئر بش کو مل کر اس بات پر قائل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے کہ امریکہ فوجی قیادت پر دبائو ڈال کے، ان کی بچے کھچے پاکستان میں وزارت عظمیٰ کیلئے کرادار اد کرے۔ پھر اقوام متحدہ میں قرارداد کو پھاڑ دینا اور یہ نعرہ کہ ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کے حوالے سے بھی بہت سوالات ذہن میں تھے۔میں بے نظیر بھٹو صاحبہ سے یہ بھی پوچھنا چاہتا تھا کہ اب جو وہ فوج کے خلاف اتنا غصہ رکھتی تھیں اور سیاست میں اس کے کردار کے اتنا خلاف تھیں، پھر اسی فوج کے مشرقی پاکستان میں کردار کے حوالے سے وہ آکسفورڈ میں پلے کارڈز لے کر اسکے حق میں احتجاج کرتی کیوں نظر آئیں۔
میں اس ملاقات سے پہلے بے نظیر صاحبہ کے مزاج کے بارے میں بہت آگاہی نہیں رکھتا تھا کہ ان کا غصہ کتنا شدید ہے۔ ان کوبھی شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ میں کس قسم کے سوالات پوچھوں گا۔ وہ اِن دنوں اپنا وقت زیادہ تر دبئی میں گزار رہی تھیں۔ آصف زرداری قید تھے اور بچے ابھی بہت چھوٹے تھے۔ سو ان کو بھی توجہ کی ضرورت تھی۔ ہم نے بہرطور ان سےملاقات کا وقت لے لیا اور وقت مقررہ سے کوئی ایک گھنٹہ قبل وہاں پہنچ گئے۔ ہمارا مقصد انٹرویو کیلئے سیٹ اپ کرنا تھا۔ بے نظیر صاحبہ اگر چہ طے شدہ وقت سے آدھ گھنٹہ پہلے وہاں آگئیں۔ موسم خوش گوار ہونے کے باوجود، وہ پسینے میں شرابور تھیں اور غصے میں بھی تھیں۔ انہوں نے آتے ہی اے سی کو مزید تیز کرنے کو کہا اور مجھے مخاطب کر کے کہنے لگیں کہ یہ کیا آپ لوگ اتنی دیر لگارہے ہیں۔ میرے پاس صرف آدھ گھنٹہ ہے آپ لوگوں کیلئے، پھر مجھے کہیں جانا ہے۔ آپ جلدی کریں۔ میں نے ان سے درخواست کی کہ بی بی آپ نے انٹرویو کیلئے جو وقت ہمیں دیا ہے اس میں ابھی 20منٹ رہتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے دوبارہ اوپر چلی گئیں کہ ٹھیک ہے لیکن آپ لوگ جلدی کریں اور ہاں میں صرف آدھ گھنٹہ آپ لوگوں کو دوں گی پھر میری اور بھی مصروفیات ہیں۔20منٹ بعد وہ آئیں اور میں نے ان سے انٹرویو شروع کیا۔
میں جاننا چاہتا تھا کہ بھٹو صاحب نے ’’اُدھر تم اِدھر ہم‘‘ کا نعرہ کیوں لگایا۔ محترمہ کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ’’الگ الگ‘‘ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’اُدھر تم منتخب ہوئے ہو تو تمہاری حکومت ہوگی، اِدھر ہم منتخب ہوئے ہیں تو ہماری حکومت ہونی چاہئے‘‘۔ اِدھر کے لوگوں نے چھ نکات کو مسترد کردیا تھا جبکہ اُدھر کے لوگوں نے چھ نکات کو تسلیم کیا۔ بھٹو صاحب کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں پہلے جو آئین سازی کرنی ہے اس کیلئے اِدھر اور اُدھر دونوں طرف کے لوگ مل کر بیٹھیں۔ انکا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کمال حسین جیسے لوگ، جو بھٹو صاحب پر اعتراض کرتے ہیں انہیں یہ تو دیکھنا چاہئے کہ جب مجیب الرحمٰن رہا ہوئے تو ڈھاکہ پہنچ کر پہلی تقریر میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے پوری زندگی ایک آزاد ملک قائم کرنے کیلئے جدوجہد کی۔ ان کی وہاں کی تقریر کہیں ریکارڈ میں موجود ہوگی۔ یہ تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ تو ابتدا ہی سے دو ملک چاہتے تھے لیکن محترمہ کے بقول اس ضمن میںایک اہم بات اور بھی تھی، وہ یہ کہ یحییٰ خان نے جو الیکشن کرائے تھے، ان کے دو مقاصد تھے۔ آئین کی تشکیل اور حکومت سازی۔ 1970ء کے الیکشن سے ایک قانون ساز اسمبلی وجود میں آئی۔ پہلے آئین بننا تھا پھر حکومت سازی ہونا تھی۔ اس وقت حکومت بنانے کی باتیں نہیں ہورہی تھیں۔ بات اس وقت یہ ہورہی تھی کہ آئین کیا بنے گا؟ پورے پاکستان میں چھ نکات ہوں گے یا پھر کوئی کمپرومائز کا راستہ نکلے گا؟ ان دنوں مجیب الرحمٰن کی اتنی قوت بھی نہیں تھی مگر باقی جماعتوں نے بائیکاٹ کیا تھا۔ اس لئے مجیب الرحمٰن نے مشرقی پاکستان میں سویپ کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ 6نکات کے ذریعے ملک کو چلائیں لیکن مغربی پاکستان نے 6نکات کو مسترد کیا تھا۔محترمہ نے کہا اس وقت جنرل یحییٰ نے کہا تھا کہ وہ اسمبلی کو 120دن کی مہلت دیں گے اور اگر 120دن میں آئین نہ بنا تو وہ اسمبلی ختم کر دیں گے۔ بھٹو صاحب نے ان سے کہا کہ آپ 120دن کی پابندی نہ لگائیں کیونکہ آئین بنانا نازک کام ہے کہ اس کیلئے انڈرسٹینڈنگ میں وقت لگے گا۔ اسمبلی کے سر پر یہ تلوار نہیں لٹکنی چاہئے کہ جنرل سر پر بیٹھا ہے اسے اڑانے کے لئے۔میں جاننا چاہتا تھا کہ ’’اگر واقعی بھٹو اور مجیب مل کر بیٹھ جاتے، تو کیا کسی متفقہ آئین پر سمجھوتہ ہوسکتا تھا‘‘۔ محترمہ نے کہا کہ اگر یہ کہنا قیاس آرائی ہوگا، لیکن یحییٰ خان کا دبائو غلط تھا۔ ان کے خیال میں اس کی نیت خراب تھی۔ اس نے ہر حال میں اسمبلی کو اڑانا تھا۔ 120دن گزرنے کے بعد اس نے الزام لگا دینا تھا کہ ہم نے سیاستدانوں کو موقع دیا تاکہ یہ آئین بنا سکیں، لیکن یہ اہل نہیں، اس لئے اسمبلی توڑ دی گئی۔ جمہوریت کے ساتھ گیم کھیلا گیا اور اسی وجہ سے ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچا۔
میں نے محترمہ سے کہا کہ ’’مشرقی پاکستان کے بہت سے دانشوروں کا کہنا تھا کہ مجیب الرحمٰن چھ نکات سے ہٹنے کو تیار تھے۔ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ غیر ملکی امداد کا 55فیصد حصہ مشرقی پاکستان پر خرچ ہو، وہ مشرقی پاکستان کے استحصال کی بات کرتے تھے اور اسے ختم کرانا چاہتے تھے‘‘۔ محترمہ کا کہنا تھا کہ اگر اسمبلی کو آزادانہ طور پر موقع دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ لیکن پھر بڑے پیمانے پر نسل کشی شروع ہوگئی۔ ریاست کا ڈھانچہ تباہ ہو چکا تھا۔ شیخ مجیب کے رضا کار پولیس اور عدالت کو سنبھال رہے تھے۔ بھٹو اور دوسرے سیاستدانوں کا اسمبلی جانا ممکن نہیں تھا۔ فوج کو جانا پڑتا تاکہ سیاستدانوں کے اسمبلی جانے کیلئے راستہ بن سکے۔ ریاست کا کنٹرول تو بالکل ختم ہو چکا تھا اس وقت تک پورا ملک مجیب الرحمٰن کی ملیشیا کے قبضے میں تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے