افغانستان 2017 میں تزویراتی، دفاعی، معاشی اور داخلی سیاسی مضمرات کے حوالے سے پاکستان کے لیے ایک مستقل مسئلہ رہا ہے۔ امریکہ نے مطلوبہ تعاون کے لیے پاکستان پر مسلسل دباؤڈالے رکھا ، تاہم چین نے نہ صرف اس دباؤ میں نرمی لانے بلکہ پاکستان اور افغانستان کے مابین باہمی اعتمادمیں بہتری کے لیے اہم کردار ادا کیا ۔
افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان سے متعین کردار ادا کرنے کا امریکی مطالبہ جارحانہ، جبکہ چین کامطالبہ نرم روی پر مبنی ہے۔ پاکستان کے لیے مذکورہ بالا دونوں رویوں میں محتاط توازن برقرار رکھتے ہوئے افغان امن عمل میں کردار ادا کرنا ایک مشکل امر ہے۔ افغانستان میں قیامِ امن کی علاقائی استحکام میں بنیادی حیثیت کے سبب خطے کے تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے ، تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افغان امن عمل کا بوجھ صرف پاکستان کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
امریکہ اور چین سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں قیامِ امن کی چابی پاکستان کے پاس ہے۔ دونوں ممالک کا خیال ہے کہ پاکستان افغان امن عمل میں شرکت اور عسکری قوت میں کمی کے لیے افغان طالبان کو آمادہ کر سکتا ہے اور اس طرح مختلف بین العلاقائی منصوبوں کے ذریعے افغان معیشت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے۔تاہم دونوں ممالک کے راستے جدا جدا ہیں۔ امریکہ افغان ٹرانزٹ تجارت اور وسط ایشیائی توانائی راہداری منصوبوں میں بھارت جبکہ چین انہیں منصوبوں میں مغربی ہمسایہ ممالک کی شمولیت کا خواہاں ہے۔یقیناً پاکستان بیشتر تزویراتی، معاشی اور سیاسی وجوہات کی بنا پر چین سے اشتراک کو اہمیت دے گا تاہم اٹل وجوہات کے باعث امریکہ کو نظر انداز کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ دفاعی و معاشی معاملات ایک طرف ، امریکہ لندن، ریاض اور دبئی کے ساتھ سفارتی تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔
پاکستان کے لیے افغانستان میں قیامِ امن کے لیے عسکری و سیاسی وسائل بروئے کار لانا کو ئی مسئلہ نہیں ہے تاہم جو چیز پریشان کن ہے وہ عالمی برادری کی بے جا توقعات ہیں جوریاستی امن و استحکام میں ناکامی پر کابل کوتوجیہ کا موقع فراہم کرتی ہیں، جس کے باعث قیامِ امن کے لیےافغان قیادت کو اپنی ذمہ داریوں سے فرار کی راہ میسر آجاتی ہے۔ افغان سیاسی اشرافیہ بڑی آسانی سے عدمِ استحکام کی صورتحال کوداخلی اداراتی ناکامیوں کی پردہ پوشی کے لیے بطور ہتھیار استعمال کر کے اپنی کوتاہ بینی کا تما م تر ملبہ بیرونی عوامل پر ڈال دیتے ہیں۔
عمومی تصور یہ ہے کہ چین پاکستان اور امریکہ افغانستان پر اپنے اثرو رسوخ کی بنا پر افغانستان میں قیامِ امن کی مشترکہ کوشش کرتے ہیں تو امن عمل بار آور ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے یہ تصور مبالغہ آرائی پر مبنی ہو تاہم افغانوں کی رہنمائی میں ان کے لیے قابلِ قبول امن عمل کے لیے تمام بیرونی شراکت داروں کی حمایت کے باوجود امریکہ تعمیرِ امن کے کسی داخلی انتظام کی پیش بندی نہیں کرسکا۔عام افغان شہری بھی امن عمل کے داخلی انتظام پر یقین رکھتے ہیں لیکن افغان حکومت اس مقصد کے لیےبیرونی حمایت کو استعمال میں لانے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ کابل میں موجود ایک تھنک ٹینک مرکز برائے دفاعی و علاقائی مطالعہ کے تحت لیے گئے ایک عوامی جائزے میں 64 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ افغان حکومت خود افغانستان میں قیامِ امن کےلیے سنجیدہ نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک افغان طالبان کے ساتھ نتیجہ خیز بات چیت میں کامیابی نہیں ہو سکی۔
قیامِ امن میں افغان حکومت کی ناکامی کے اس عمومی تصور کے برعکس عالمی و افغان ذرائع ابلاغ میں افغان طالبان رہنماؤں اور افغان حساس ادارے کے افسران کے مابین بلا واسطہ و روز مرہ بات چیت کی خبریں گردش کرتی رہتی ہیں۔ امن عمل کی شروعات کیلئے افغان ہائی پیس کونسل (HPC) کا قیام عمل میں لایا گیا لیکن وہ کسی پیش رفت میں ناکام رہی۔ پاکستانی صحافیوں سے حالیہ بات چیت میں مذکورہ کونسل کے سربراہ محمد کریم خلیلی نےکہا کہ افغان طالبان سے بات چیت کا بنیادی ذریعہ امن کونسل ہی ہے، مگر انہوں نے بات چیت کے دیگر ذرائع کی نفی نہیں کی۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ باہمی اعتماد کی بحالی کا عمل مسلسل جاری رہا ہے اور 2018 کےاختتام تک امن کونسل افغان طالبان سے بات چیت کی شروعات کے قابل ہو جائے گی۔ انہوں نے طالبان کمانڈروں کے ساتھ امن کونسل کے کسی بھی طرح کے مذاکرات سے انکار کرتے ہوئے ایک جامع مذاکراتی عمل کی ضرورت پر زور دیا۔تاہم انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ مذاکراتی عمل کی شروعات سے مزاحمت کاروں کو عسکری طور پر کمزور کیا جا سکتا ہے۔
داخلی امن کی اس درجے کمزور شروعات کی اصل ذمہ دار چار فریقی مصالحتی مجلس ہے جس میں پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین شمال ہیں۔ بد قسمتی سے ملا عمر کی وفات کے اعلان کے بعد سے یہ مجلس عضوِ معطل کی سی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اس مجلس کی ناکامی سے بلا شبہ پاکستان پر دباؤ بڑھا جسے وہ عسکری سفارت کے ذریعے کم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
اکتوبر 2017 میں سپہ سالارِ اعلی جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورہ کابل کے نتیجے میں باہمی تعاون کے لیے پاک افغان مشترکہ لائحہِ عمل کا معاہدہ سامنے آیا جس کے مطابق دونوں ممالک کے مابین ورکنگ گروپس کے ذریعے سیاسی، معاشی، عسکری اور حساس معاملات میں تعاون و شراکت کو یقینی بنایا جائے گا۔پاکستان اور افغانستان کے مابین باہمی اعتماد کی بحالی اور افغانستان میں قیامِ امن کے لیے چین نے بھی ایک سہ فریقی مجلس کی بنیاد رکھی ہے۔بیجنگ میں منعقدہ گزشتہ سہ فریقی اجلاس نے کسی حد تک باہمی اعتماد کی بحالی میں کردار ادا کیا ہے تاہم اس میں مکمل کامیابی دونوں ہمسایوں کے سیاسی اور معاشی مفادات میں ہم آہنگی سے ہی ممکن ہے۔ افغانستان پاکستان پر انحصار ختم کرنے کے لیے تجارتی و اقتصادی تعلقات میں تنوع لار ہا ہے جبکہ چین پاک چین اقتصادی راہدرای منصوبے میں افغانستان کو شامل کر کے اسے دوبارہ علاقائی و معاشی سطح پر پاکستان سے جوڑنے کی سعی میں مصروف ہے۔ چین انسداد دہشت گردی تعاون پر اتفاق رائے کی کوشش بھی کررہا ہے جو تینوں ممالک کے علاقائی و معاشی مفادات کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کے لیے یہ بہترین منظر نامہ ہے۔
تاہم یہ بات غیر واضح ہے کہ چینی سفارت کاری پاکستان کیلئے کس قدر آسانیاں پیدا کر سکتی ہے۔ کیوں کہ ابھی تک یہ امریکہ کے جارحانہ پن پر اثر انداز ہوئی ہے نہ ہی کابل حکومت پاکستان اور افغانستان کے باہمی مسائل میں بڑھتی ہوئی دل چسپی کی مکمل طور پر قائل ہوپائی ہے۔شاید چین کو یہ کوششیں تیز کرنا ہوں گی تاکہ وہ سہ فریقی تعاون کے دوررس اثرات پر کابل حکومت کو قائل کرسکے۔
اگر پاکستان میں ڈرون حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو یہ عین ممکن ہے کہ افغان مسئلہ 2018 میں پاکستان کے لیے مزید گھمبیر رخ اختیار کر جائے ۔ اس منظر نامے سے پاکستان، افغانستان اور امریکہ کے مابین بڑھتے ہوئے اعتماد کو دھچکا لگ سکتا ہے۔یہ صورتِ حال آئندہ انتخابات پر بری طرح اثر انداز ہو گی ، جس کے سبب مر کزی دھارے کی سیاسی جماعتیں اس دباؤ کے زیرِ اثر ہوں گی کہ انہیں اپنی انتخابی مہم کی بنیاد امریکہ، بھارت اور افغانستان مخالف نصب العین پر رکھنا پڑے گی۔
یقیناً یہ صورتِ حال دائیں بازو کی انتہا پسند جماعتوں کی مضبوطی کا باعث ہو گی جو امریکہ اور چین ، دونوں کیلئے ناقابلِ قبول ہیں۔اس طرح یہ مسئلہ سفارتی طور پر حل کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
بشکریہ : تجزیات