پیاری زینب، اِس بار تو میں رو بھی نہیں سکا

زینب، تمہیں دیکھ کر مجھے اپنی بیٹی یاد آئی، جو تمہاری عمر کی ہی ہے۔ بالکل تم جیسی ہے۔ معصوم اور سچّی۔ مکروفریبِ زمانہ اور انسان کے درندہ صفت ہونے سے یکسر بے خبر۔

میں شام کو گھر لوٹتا ہوں تو دوڑی چلی آتی ہے اور میری گود میں سما جاتی ہے۔ ننھے منّے ہاتھوں سے میرا چہرہ تھام کر پیار کرتی ہے اور دن بھر کی روداد اُسی وقت سنا دینا چاہتی ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں جانتی کہ اُس کے بابا تھکے ہوئے ہیں، آرام کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گود سے اترتی ہی نہیں اور مجھے اُس کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں سننے کے بعد وعدہ کرنا پڑتا ہے کہ اُنہیں پورا کروں گا۔

زینب تم بھی ایسا ہی کرتیں تھی نا۔ مگر مجھے پتہ چلا کہ کچھ دنوں سے تو تم اپنے بابا اور اماں کے لمس تک سے محروم تھی۔ اُن سے لپٹ کر اپنی کوئی فرمائش کہاں پوری کرواسکیں۔ تم نے فرمائشوں کے ڈھیر لگا لیے تھے اور اُن کی واپسی کی منتظر تھی۔ وہ اللہ کے گھر جو گئے ہوئے تھے۔

مجھے معلوم ہے کہ تم نے کتنی ساری باتیں جمع کر رکھی ہوں گی۔ اسکول کی، دوستوں کے بارے میں، اِدھر اُدھر کی اور تم یقیناً اُس گفٹ کی بھی منتظر تھی جس کا وعدہ تم نے اپنے والدین سے لیا تھا۔ میں یہ سب جانتا ہوں کیونکہ میری بھی تو ایک بیٹی ہے جو تم جیسی ہے۔ لیکن اب تم اِس دنیا میں نہیں رہیں۔

تمہارے والدین اُس وقت بھی تم سے دور تھے، بہت دور، جب درندہ تمہارے وجود کو نوچ رہا تھا اور زینب! کیا عجب کہ جب وہ سفاک تمہاری زندگی چھین رہا تھا تو تمہارے بابا اور امی کے لبوں پر دعا ہو کہ

یااللہ ہماری بیٹی کو صحت دے، اُسے لمبی عمر عطا کر، اپنے حفظ و امان میں رکھ۔

لیکن میری بیٹی، میری پیاری بیٹی، قدرت کا ڈھب نرالا ہے، اُس کا انداز الگ ہے۔ ہاں، ہر دعا قبول نہیں ہوتی۔ قدرت امتحان لیتی ہے زینب۔ تم صحیح کہتی تھی، تمہارے بابا واقعی ’سپر ہیرو‘ ہیں، مگر وہ یہاں تھے نہیں، ورنہ وہ کبھی تمہیں اپنے سے الگ نہیں ہونے دیتے۔ ہاں، اماں کا وجود راحت اور سب سے بڑی ڈھال ہوتا ہے، مگر سنو اُس روز وہ بھی بہت دور تھیں تم سے۔ تمہاری آوازیں، التجائیں، گریہ کوئی نہیں سن سکا۔ کوئی تمہیں بچانے نہیں آیا۔

تمہیں کچرے کے ڈھیر پر بے حس و حرکت دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو نہیں آئے زینب۔ میری آنکھیں پتھرا گئی ہیں۔ جذبات اور احساسات کے اظہار کی کوئی شکل نہیں سوجھ رہی۔ کاش میں تمہاری آواز سُن لیتا۔ کاش کہیں سے میں تمہیں دیکھ لیتا اور اُس بھیڑیئے سے بچا پاتا۔ اب تو میں بس یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا غضب ہوگا کہ آسمان ہم پر ٹوٹ پڑے، پہاڑ ہم پر گریں اور ہم سب اُس کے بوجھ تلے کچلے جائیں۔

تمہاری شکل میں خدا نے اپنی رحمت زمین پر بھیجی تھی، جس کی حفاظت ہم نہیں کرسکے۔ یہ نظام، ریاست کے منتظم، آئین اور قانون کے رکھوالے، فکر و دانش کے متوالے سب کے سب نوحہ کناں ہیں، ماتم و گریہ کررہے ہیں، لیکن کیا اِس سے پہلے کوئی زینب ہوس اور سفاکی کا نشانہ نہیں بنی؟ کیا اِس سے پہلے کسی پھول کو بے رحمی سے نہیں نوچا گیا۔ کیا وہ واقعات جو اِس سے پہلے رونما ہوئے ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے ناکافی تھے؟

قصور کی رہائشی زینب ہی نہیں سال بھر میں اِس شہر اور گردونواح میں 10 معصوموں کو جنسی ہوس کا نشانہ بناکر زندگی سے محروم کیا جاچکا ہے۔ اِس شہر میں آئین اور قانون بھی ہے، پولیس بھی ہے اور دیگر ادارے بھی، لیکن شاید سب بے بس ہیں یا پھر بے حسی کی چادر اوڑھ رکھی ہے۔

ہم کب تک روئیں، یہ نوحہ گریہ کب تک؟ کبھی تہمینہ، کہیں کائنات تو کبھی کوئی اور بچہ۔ قصور کا جنسی ویڈیو اسکینڈل ہمارے اجتماعی احساس کو اب تک کچل رہا ہے اور ہم بے بسی کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔ پولیس کی پھرتیاں اور عدالتی کارروائیاں، میڈیا اور سماجی تنظیموں کا واویلا کچھ بھی تو کام نہیں آرہا۔

کیا اب ہم اِسی لیے رہ گئے ہیں کہ پہلے اپنے بچوں کا نُچا ہوا وجود اور کچلا ہوا جسم اُٹھاکر منوں مٹی تلے چھوڑ آئیں اور پھر حکمرانوں کی جانب سے ہمدردی کے دو بول وصول کرلیں۔ کیا یہی انصاف ہے؟ کب اور کہاں تک ہم یہ سب برداشت کرتے چلے جائیں گے اور کب تک ہمارے معصوم پھول زندگی کے یہ خوبصورت لمحات اِسی طرح خوف کے سائے میں گزارتے رہیں گے۔

لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ہم جیسے کمی کمین لوگ کر بھی کیا سکتے ہیں؟ یہ ساری عزتیں، عظمتیں اور جان و مال کا تحفظ تو بڑے لوگوں کے لیے ہے، ہماری ذمہ داری تو بس یہی ہے کہ یونہی خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہیں، کیونکہ اگر ہم نے شور کیا تو اونچی ذات اور ہمارے مستقبل کا فیصلہ کرنے والے حکمرانوں کی ناراضگی کا خدشہ ہے۔

اِس لیے میری پیاری زینب، میں اِس بار بھی خاموشی سے تمہارے ساتھ ہونے والے ظلم کا نوحہ بھی کررہا ہوں اور اس نظام اور انصاف کے عمل پر آنسو بھی بہا رہا ہوں، جس نے تم اور تمہارے جیسے کئی پھولوں کو ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا۔ ساتھ ساتھ یہ بھی دعا کررہا ہوں کہ تمہارے بابا اور امی تمہارے جانے کے دُکھ کو برداشت کرسکیں، لیکن سچّی بات یہ ہے کہ میں جانتا ہوں کہ شاید ایسا ممکن نہ ہوسکے، کیونکہ میں بھی تو ایک بیٹی کا باپ ہوں!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے