قانون

ابھی کچھ دنوں پہلے ہی صدر مملکت نے اپنا اختیار استعمال کیا اور کراچی کے پارک میں نوجوان کو قتل کرنے والے مجرم رینجرز اہلکار کی رحم کی اپیل منظور کی۔ اور یوں ایک نوجوان کو ناحق قتل کرنےوالا رینجرز اہلکار اپنے کئے کی سزا سے آزاد ہوگیا۔

گزشتہ شب ایک اور نوجوان قانون کے رکھوالوں کی لاقانونیت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ قانون کی بھی عجیب کہانی ہے، انگریزوں نے بنائے، پینل کوڈ سمیت تمام قوانین انگریزوں نے بنائے، اور ہم ان پر عملدرآمد بھی نہ کراسکے۔ شکر ہے میں نے وہ منظر نہیں دیکھا، اور میری دانست میں کسی ٹی وی چینل نے یہ منظر دکھایا بھی نہیں کہ جب ایک بااثر وڈیرے کا بیٹا پروٹوکول میں رہا ہوکر گھر کو گیا۔ شاہ رخ جتوئی، سراج تالپور امیر خاندان سے ہیں، جیل میں بھی کوئی خاص مشقت نہیں کرنی پڑی۔ بلکہ قانون نافذ کرنے والے یہی اہلکار قانون شکن کے آگے پیچھے رہے۔

مجھے نہیں یاد پڑتا کہ کسی وڈیرے نے قتل کے الزام میں قید کسی غریب کے بچے کو معاف کیا ہو۔ جانے کیوں بااثر کے مقابلے میں یہ غریب مقتول کے ورثاء ہی اتنے رحم دل ہوتے ہیں جنہیں انصاف نہیں چاہیے ہوتا۔۔۔ شاہ زیب قتل ہوا تو ہم سب انصاف انصاف کررہے تھے۔ پھر ہمیں انصاف ملتا نظر آیا۔ لیکن پھر شاہ رخ جتوئی والا انصاف ہوا۔ اور ابھی قصور میں بھی ایک ننھی کلی مرجھائی۔ کسی درندے نے پھول مسل دیا۔ لیکن مجھے کوئی بتائے، کہ بارہ بچے تو گزشتہ ایک سال میں درندگی کا شکار ہوئے۔ جن میں سے زینب کا ہی نام سامنے آیا، اور اس سے پہلے والوں کا کیا؟ کیا ان کے والدین انصاف نہیں مانگتے ہوں گے؟؟؟ اور اس سے پہلے وہ جو 250 سے زائد بچے، وہ بھی قصور کے تھے، ان کا کیا قصور تھا؟ کراچی سے قصور میں فرق صرف درندگی کا ہے، تو کیا قتل کرنا درندگی نہیں؟ قانون قصور میں بھی اندھا ہے اور کراچی میں بھی۔ لیکن مجھے کوئی جواب دے کہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر اندھا ہوا یہ قانون پٹی سرکا کر دیکھتا کیوں ہے؟

قصوروار دہشتگرد بھی چھوٹ جاتے ہیں، اور بے قصور غریب بھی نہیں چھوڑا جاتا۔ نہ جانے کہاں سے غریب کے خلاف گواہیاں نکل آتی ہیں، اور یہی استغاثہ گونگی ہوجاتی ہے جب کیس بااثر کا ہو۔ عوام اس سب پر فیس بک اور وٹس ایپ سٹیٹس دینے تک ہی محدود ہے، چوری کے انٹرنیٹ سے اپنے علاقے میں چوری کی بڑھتی وارداتوں کے حوالے سے فیس بک پر لکھنا آسان ہے، اور ساتھ میں پولیس کو ایک گالی بھی، لیکن حقیقت کا سامنا کرنا مشکل ہے، کہ پولیس ہم میں سے ہے، غیر ذمہ دار پولیس ہی نہیں، ہم بھی ہیں، قانون کی آنکھوں سے پٹی نہ اترنے دیں، قانون کو مذاق نہ سمجھیں، قانون والے ہم سب ہیں، قانون کے رکھوالے جب تک عوام نہیں ہوں گے تب تک قانون پر عملدرآمد نہیں ہوسکے گا۔ ایک ایک ٹریفک سگنل کا احترام کریں، دیکھئے کوئی شاہ رخ نہیں بچ سکے گا، اور نہ ہی کوئی زینب درندگی کا شکار ہوگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے