جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ قم کے محقق احسان رضی سے مکالمہ

نوٹ: احسان رضی صاحب جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ قم کے محقق اور استاذ ہیں۔ انہوں نے سید عمار نقشوانی صاحب کے حوالے سے لکھے ہمارے حالیہ مضمون پر پوائنٹ ٹو پوائنٹ تنقیدی جائزہ لکھا ہے۔ ان کے تنقیدی نوٹ پر ہمارے جوابی تبصرے کے ساتھ یہ تحریر حاضر ہے۔

زیر بحث مضمون ” برطانوی مسلم سکالر سید عمار نقشوانی کس کے ایجنٹ؟” کو اس لنک پر پڑھا جا سکتا ہے:

سید عمار نقشوانی کس کے ایجنٹ؟


___________________________________________________

احسان رضی: محترم ڈاکٹر محمد حسین صاحب آپ کے اپنے تحریر کردہ وہ محرکات جن کی بنا پر آپ نے یہ کالم لکھا اس پر دوسرے نمبر پر بات کروں گا۔ پہلے چونکہ آپ نے عمار نقشوانی کو موضوع بنایا ہے اس کے متعلق آپ کی معلومات پر کچھ ملاحظات ہیں:
۱۔ عمار نقشوانی کا خاندانی اور اکیڈمک پس منظر، انکی پیشہ وارانہ زندگی اور مغرب کے ذرائع ابلاغ اور دوسری تمام شہرتیں ان کے صحیح اور حق پر ہونے یا ان کی فکری طور پر تصدیق اور تائید کا سبب نہیں بن سکتیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جب تک کہ ان کے افکار یا وہ اہداف جن کے تحت وہ اپنی فعالیتیں انجام دے رہے ہیں، سے واقفیت نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس کا آپ نے اقرار کیا ہے کہ ان سے آپ اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مزید یہ کہ میڈیا پر تو سعودی کنگ عبد اللہ کو عرب دنیا کی مقبول ترین شخصیت کہا جاتا تھا اور شاید دنیا کی بااثر شخصیت بھی کہا جاتا ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس دنیا میں امریکہ کے صدور کو امن کا نوبل انعام دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔کہنے کا مطلب یہ کہ اول تو وہ اثر بھی اہمیت رکھتا جو انہیں بااثر بناتا ہے اور دوسرے یہ کہ اس قسم کے انتخاب کا معیار بھی کیا ہوتا ہے ہماری سمجھ سے باہر ہے۔۔۔۔لہذا ان باتوں کو کسی کی تاٗئید اور تصدیق کے لئے پیش کرنا شاید ایک محقق کے لئےمناسب نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگرچہ عمار نقشوانی کے متعلق میری معلومات شاید آپ سے بھی کم ہوں لیکن میرا موضوع آپ کی شخصیت ہے اس لئے میں آپ کے کالم پر کچھ کہہ رہا ہوں اور شاید آپ کی شخصیت پر بات کرونگا۔
آپ کے تبصروں پر جوابی تبصرے حاضر ہیں:

محمد حسین:
بہت شکریہ قبلہ احسان رضی صاحب، آپ نے بہت اچھے پیراے میں اس مکالمے کو سنجیدگی سے آگے بڑھایا ہے۔ میرا مقصود جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ اس عمومی رویے کی حوصلہ شکنی کرنا ہے جس میں عام طور پر مختلف رائے رکھنے والے اہل علم پر طرح طرح کے بے سرو پا الزامات لگا کر کے ان کی کردار کشی کی جاتی ہے۔

آپ کے پہلے نکتے پر میرا یہی تبصرہ ہے کہ میں نے اپنے مضمون میں سید عمار نقشوانی کی توثیق و تردید کے بجائے ان کے بارے میں جو بنیادی معلومات تھیں وہی ذکر کر دیا ہے۔ ان کی بااثر شخصیت کو کسی صحیح یا غلط کا معیار نہیں قرار دیا ۔

احسان رضی:
۲۔ آپ نے دو محرکات کا ذکر کیا ہے۔ پہلا سمجھ میں آتا ہے جبکہ دوسرے محرک کے متعلق کہ جو غالباً آپ کا اصلی محرک بھی ہے، محسوس یہ ہوتا ہے کہ عمار نقشوانی کی ذات اور ان پر ہونے والی تنقید نے آپ کو اپنے کچھ دیرینہ خیالات کے اظہار کے لئے صرف مہمیز دی ہے یعنی عمار نقشوانی تو ایک بہانہ یا ایک استعارہ ہے جو آپ نے موقع کی مناسبت سے استعمال کیا ہے۔

محمد حسین:
آپ کے دوسرے نکتے پر آپ سے جزوی اتفاق ہے کہ عمار نقشوانی صاحب کے حوالے سے لکھے گئے اس مضمون میں ضمنی طور پر متعلقہ اعتراضات سے منسلک تصورات کے بارے میں، میں نے اپنے کچھ خیالات و آراء کا اظہار بھی کر دیا ہے۔ البتہ ایسا بھی نہیں کہ ان کے اظہار کے لیے عمار نقشوانی کو بطور بہانہ استعمال کیا ہو۔

احسان رضی:
۳۔ غیر محکم وجوہات کا سہارا لیتے ہوئے آپ کا بھی رویہ، آپ کے بقول سپر انقلابیوں سے کچھ مختلفف نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر بات کی کسر ایک ہی جھٹکے میں نکال دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری سمجھ سے باہر کہ اگر یہ انقلابی کسی کی مخالفت کریں تو کیا محض ان کی مخالفت یہ جواز فراہم کرتی ہے کہ مد مقابل کی اگرچہ انتہائی کم اور ناقص شناخت کے باوجود حمایت کی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ منطق تو وہی منطق ہے جو کہتی ہے کہ جس کی امریکہ اور مغرب حمایت کرتے ہیں اس کی مخالفت ہم پر واجب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔یعنی ہر چیز کے پیچھے ایک سامراجی سازش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو آپ کے نزدیک صحیح نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن آپ کا اصول یہ لگ رہا ہے کہ جس کی یہ انقلابی مخالفت کریں اس کی حمایت کرو اور جس کی یہ حمایت کررہے ہیں اس کی مخالفت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیونکہ سب کے پیحھے ایرانی عزائم نظر آرہے ہیں۔

محمد حسین:
آپ کے تیسر نکتے پر عرض ہے کہ یہاں تساوی کی نسبت درست اس لیے نہیں ہے کہ اس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ جیسے ہم انقلابیوں کے خلاف ہر وقت مورچہ زن ہو کر بیٹھے ہوئے ہوں۔ ہمارا رویہ یہی ہے کہ جب بھی مناسب اور ضروری سمجھا ارد گرد کے حالات و واقعات پر ہم اظہار رائے کر لیتے ہیں، اس کا محور کسی کی مخالفت یا حمایت نہیں ہوتا بلکہ موقع کی مناسبت و نزاکت کے لحاظ سے جو مناسب اور مفید سمجھیں وہی بات عرض کرنے کی کوشش کر دیتے ہیں۔ اس میں کسی جیت یا ہار کا مسئلہ بھی نہیں البتہ بنیادی مسائل کو کچھ وسیع تر تناظر میں اٹھانے کی دانستہ کوشش ضرور کرتے ہیں۔

احسان رضی:
۴۔ ہر ابھرتی ہوئی شخصیت بھی ہمیشہ قابل اعتبار نہیں ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اعتبار کے کچھ معیارات ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سازش اور آلہ کار ہونے کے عنصر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیا کم مثالیں اور نمونے ہیں تاریخ میں ایسے لوگوں کے جن کو مقبولیت عام ملی لیکن وہ سازش کی پیداور اور دوسروں کے آلہ کار تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ سے گلہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی سوچ سے اس پہلو کو مکمل ہی حذف کردیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔درنتیجہ عمار نقشوانی کے متعلق بھی آپ نے تھوڑا سا بھی اس پہلو کو سنجیدہ نہیں لیا اور اس الزام کو سطحی سوچ کی پیداوار سمجھا۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ تحقیق ہونی چاہئے۔

محمد حسین:
آ پ کے اس چوتھے نکتے سے جزوی اتفاق ہے۔ البتہ سطحی رقابت کا عنصر بھی عام ہے جس میں خاص طور پر رائج خیالات و نظریات سے مختلف رائے رکھنے والوں کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ عمار نقشوانی کے متعلق اس پہلو کو سنجیدہ نہ لینے کی یہی وجہ تھی کہ معترضین کی نفرت انگیز مہم میں سوائے سازشی تھیوری اور رقابت کے کوئی علمی نقد نظر نہیں دیکھا گیا۔

احسان رضی:
۵۔ آپ نے ڈاکٹر نقشوانی پر ہونے والے تین اعتراضات کا ذکر کیا ہے: ۱۔ لبرل ہونا، ٹیٹو بنوانا یا ہمارے مروجہ رسوم اور رجحانات کے بر خلاف گفتگو کرنا۔ ۲۔ ایجنٹ اور آلہ کار ہونا۔ ۳۔ ولایت فقیہ کا مخالف ہونا۔
پہلے اعتراض اور اس کے جواب کے بارے میں آپ سے کسی حد تک اتفاق کرتا ہوں۔۔۔۔۔جبکہ میرا خیال ہے وہ لوگ جو خونی ماتم کے طرفدار ہیں یا مروجہ دینی سماجی مظاہر کے حامی ہیں ان کو ڈاکٹر نقشوانی میں اتنی دلچسپی نہیں۔۔۔۔۔۔
دوسرے اعتراض کے جواب میں آپ کی بات معقول ہے کہ جس معاشرے میں وہ کام کررہے ہیں اس کی سیاسی، معاشرتی اور قانونی مصلحتوں کے تحت ان کا حکومتی اور سرکاری شخصیتوں سے تعلق اور میل جول ایک واضح سی بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اصل مسئلہ پھر بھی اپنی جگہ برقرار ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بات واضح ہونی چاہئے وہ کوئی آلہ کار تو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جس کی نفی کرنے کی آپ نے بہت عمدہ کوشش کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن میں سمجھتا ہوں ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے
تیسرے اعتراض پر آپ نے بہت ہی زیادہ توانائی صرف کی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ موضوع آپ کی ذاتی دلچسپی کا سبب ہے۔

محمد حسین:
آپ کے پانچویں نکتے کے حوالے سے عرض خدمت ہے کہ پہلے دو اعتراضات کے جوابات پر آپ کی جزئی تائید کا شکر گزار ہوں، آپ نے بجا فرمایا کہ میری دلچسپی تیسرے اعتراض سے متعلق زیادہ تھی۔ میرا ماننا یہ کہ اس بنیادی تصور اور اس کے عملی اطلاقات و مضمرات کی درست تفہیم میں ہمارے اہل علم ابھی تک کامیاب نہ ہو سکے ہیں چنانچہ اس حوالے سے طرح طرح ابہامات، قیاس آرائیاں ، غلط فہمیاں اور سیاسی رقابتیں موجود ہیں اس لیے مسئلے اس کی جڑ سے پکڑ کر زیر بحث لانا مناسب محسوس ہوا۔

احسان رضی:
۶۔ انقلابی حلقوں کی جانب سے یہ بات پیش کی جاتی ہے کہ مذکورہ ویڈیو میں ڈاکٹر نقشوانی نے مرگ بر ضد ولایت فقیہ والے نعرے کے مصداق کی تشخیص میں غلطی کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی مراد کبھی بھی مخالف علماء اور فقہا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے اس بات کا ذکر نہیں کیا۔ میرا گمان ہے کہ آپ کو اس بات کا علم ہوگا
جب کہ آپ کی طرف سے ڈاکٹر نقشوانی کی زبانی یہ دعوا کیا گیا ہے کہ انقلابی اسے مخالف اہل علم اور فقہاء کی لعن طعن اور کردار کشی کا اخلاقی اور شرعی جواز بناتے ہیں۔
۔۔۔۔یہ عرض کرتا چلوں کہ ولایت فقیہ کے موجودہ اور مقبول نظریے میں ولی کا مرجع ہونا ضروری نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلکہ فقیہ اور مجتہد ہونا شرط ہے۔۔۔۔۔
ولایت فقیہ پر آپ کے تنقیدی نظریات قابل احترام ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نظام کی اپنی جغرافیائی حدود سے باہر مشروعیت، دائرہ کار اور قابل اطلاق اور عمل پذیر ہونے پر آپ کے ملاحظات عالمانہ اور منصفانہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہ مسائل ہیں جن کو کم از کم علمی طور پر شفاف انداز میں حل ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حسین:
آپ کے چھٹے نکتے پر عرض گزار ہوں کہ انقلابی حلقوں کو یہ وضاحت پیش کرنے کی اصلا ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ کم از کم ’’سہ شعبہ‘‘ نعرہ ہے جس میں امریکہ و اسرائیل کاتو صراحت کے ساتھ ذکر ہے ۔ سعودیوں کے خلاف الگ سے نعرہ لگایا جاتا ہے تو موضوع کافی حد تک مشخص ہو جاتا ہے کہ ’’مرگ بر دشمن ولایت فقیہ‘‘ سے کون سے لوگ مراد ہیں۔ اس کے علاوہ انقلابیوں کی نجی محفلوں میں ہونے والی ایسی عمومی گفتگو اور نعرہ بازی و مہم جوئی بھی اس پر شاہد ہے۔
آپ کا شکریہ کہ آپ نے وضاحت فرمائی کہ ولی فقیہ کے لیے ضروری نہیں کہ وہ مرجع تقلید بھی ہو بلکہ ان کا فقیہ ہونا کافی ہے۔ اس بات کا بھی شکر گزار ہوں کہ ولایت فقیہ کے عملی اطلاقات پر میری ملحوظات کو آپ نے تائید بخشی۔

احسان رضی:
۷۔ آپ نے بقول خود اخلاقی پستی، ذہنی غلامی اور اندھی عقیدت میں مبتلا لوگوں کی مخالفت کے مقابلے میں پورے ایک نظام کی سرزنش کرڈالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جبکہ اصول تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ دین اور دین کے پیروکاروں کا حساب الگ الگ رکھا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیروکاروں کی ہر غلطی اور نامناسب سماجی، نفسیاتی، اخلاقی اور سیاسی نوعیت کے تنظیمی رویوں کو اس نظریے کے کھاتے میں نہ ڈالا جائے۔
اس نظام کو مغربی نظام سیاست کے سہارے کھڑے نظام کی تعبیر دینا طنزیہ طور پر ہوتو قبول ہے لیکن اصولی طور پر نہیں مانا جاسکتا کیونکہ نظام سیاست انسانی سوچ کی تخلیق ہے اب وہ مغرب میں پروان چڑھا ہو یا مشرق میں اس سے فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اصولی طور پر اسلام میں یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر کوئی انسانی سوچ اور اس پر مرتب ہونے والے اثرات اسلامی اصول و مبادیات سے نہ ٹکراتے ہوں تو انہیں اپنایا جاسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔بہر حال اس کی مشروعیت اور جواز اسلامی ہی ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو اسے مغربی نظام سیاست کے سہارے قائم نظام کی معنی خیز اور شاید سیاسی تعبیر سے یاد کرنا مناسب نہیں۔

محمد حسین:
آپ کے ساتویں نکتے پر ہماری گزارش یوں ہے کہ پہلی بات کہ میں نے مذکورہ سیاق و سباق میں نظام کے اندر موجود ساختیاتی خرابیوں کی نشاندہی کی ہے پورے نظام کا عمومی جائزہ نہیں لیا۔ دوسری بات اس پر سرزنش اس لیے کی ہی کہ اگر علم، عدل اور سچائی کی ترویج کے علمبردار حوزہ علمیہ میں ہی تفریق و تعصب کا عنصر نمایاں اور یہاں سے انقلابی بن کر معاشرے میں تبلیغ کے لیے وارد ہونے والے عمومی فضلاء کی علمی سطح کچھ جذباتی نعروں سے زیادہ بلند نہ ہوتو یہ دیمک کی طرح پورے معاشرے کو کھوکھلا کر دیتا ہے اور تقریبا کر چکا ہے۔ البتہ اگر آپ نے اس حوالے سے تعمیم محسوس کی تو وہ الگ بات ہے جس کے لیے میں معذرت خواہ بھی ہوں۔
یہ تو اظہر من الشمس ہے کہ ولایت فقیہ ایک مستقل نظام کے طور پر ایران میں بھی نافذ نہیں بلکہ اس میں صدارتی نظام کی جمہوری طرز سیاست کے ساتھ ملک کی سیاسی قیادت کا انتخاب عوام کرتا ہے۔ جمہوریت بطور سیاسی نظام مغرب سے پروان چڑھا ہے میں نے محض اتنا اشارہ اس لیے کیا ہے کہ آپ مختلف تہذیبوں کے ساتھ مکالمہ اور تعاون علمی و عملی میدان میں کر رہے ہوتے ہیں تو ہر بات کو مغرب دشمنی میں رد کرد دینا دانشمندی نہیں ہے۔ البتہ آپ کی یہ توجیہ بہت ہی خوبصورت اور اچھی لگی کہ انسانی ارتقا میں تہذیبوں کے مکالمے کے ذریعے مبادیات اسلام کے ساتھ عدم تصادم کی صورت میں مختلف تصورات کا انضمام کیا جا سکتا ہے جیساکہ ولایت فقیہ اور جمہوریت کے مابین ایک طرح کا یہ تہذیبی تعامل سامنے موجود ہے۔

احسان رضی:
۸۔ اس سے آگے کی وہی ساری باتیں ہیں جنہیں میرے خیال میں ڈاکٹر عمار نقشوانی کی ذات اور انقلابیوں کی مخالفت نے آپ کے لئے مہمیز فراہم کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایرانی رویے، حوزہ علمیہ قم کی ساختیاتی اور علمی تفریق، نجف اشرف عراق کے ساتھ اس کا موازنہ اور دوسرے امور جنہیں آپ سماجی اور زمینی حقیقتیں سمجھتےہیں، میرے خیال میں انہیں اتنے شد و مد کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ میں ان امور میں جزوی طور پر آپ سے اتفاق کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن آپ کی معلومات اور تجزیوں میں جذباتیت زیادہ نظر آتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حقائق کی صحیح تصویر کشی کا فقدان بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔کسی استاد کے بقول حقائق اور تجزیات میں فرق ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے خیال میں حقائق تک آپ کی پوری دسترس نہیں رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔جبکہ آپ کے تجزیات جذباتی ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
جن فقہائے کرام کا نام اور قومیت کی نشاندہی کرکے آپ نے ذکر کیا ہے اور اس کے نتیجے میں جو تاثر قائم ہونا متوقع ہے مجھے اس سے شدید اختلاف ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بنیادی طور پر یہ مسئلہ ایرانی حکومت یا ولایت فقیہ کے نظام سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اس کی وجوہات دوسری ہیں۔۔۔۔۔اسی لئے میں نے عرض کیا تھا کہ آپ کا انداز بھی انقلابیوں سے مختلف نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حسین:
آپ کے آٹھویں نکتے پر عرض ہے کہ میرے لیے باعث مسرت ہو گی اگر آپ یہ واضح فرمائیں کہ حقائق کی صحیح تصویر کشی کا فقدان کس جگہ اور کیسے نظر آ رہا ہے۔

احسان رضی:
۹۔ آخری بات یہ ایرانی انقلاب اور نظام ولایت فقیہ کے ہمارے معاشرے پر اثرات یا برکات یہ بھی انتہائی اہم موضوع ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس کو بھی خالصتا سرحد پار والوں کے کھاتے میں ڈال دینا دانشمندی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے اپنوں کی کریڈیبلٹی اور ان کا پنی قوم و ملت سے خلوص کا بھی آپ کو یقینا اندازہ ہوگا بلکہ بہت ہی زیادہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس باب میں ایسی ایسی داستانیں ملیں گی کہ کیا کہا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ جذباتی لگاو، اندھی تقلید، سطحی سوچ اور غیر منصافانہ سماجی اور سیاسی رویے صرف ان انقلابیوں کا خاصہ ہوتے تو آپ کے ایرنیوں اور ایرانی طرز عمل پر ہونے والے اعتراضات کو سنجیدہ اور منصفانہ سمجھا جاسکتا تھا لیکن ہمارے معاشرے کا کونسا طبقہ، مسلک اور گروہ ہے جو اس بیماری میں مبتلا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تو ناانصافی ہوگی کہ سارا ملبہ ایرانیوں پر ڈال دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دانشوروں اور مصلحان ملت کی یہ بات ہمیشہ سے میرے لئے سوال ہے کہ اگر آپ کسی مخصوص مسلک یا نظریے کو نادرست ثابت کرنا چاہیں تو اس کے ماننے والوں کے ان سماجی رویوں کو دلیل بناتے ہیں جو حقیقی معنوں میں اس مسلک اور نظریے کی ترجمانی نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حسین:
آپ کی نویں نکتے پر عرض گزار ہوں کہ یہ بات آپ کی بالکل بجا ہے کہ مذکورہ اخلاقی و نفسیاتی عوارض انقلابیوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں۔ یہ بھی کافی حد تک درست ہے کہ پاکستان میں خود اہل مذہب و سیاست کی داخلی رقابتوں کی داستانیں بھی قابل تحیر و تعجب اور تاسف ہیں۔ ہر سنجیدہ شخص اس جذباتی سطحیت پسندی اور فتوی بازی کے مزاج سے تنگ آ چکا ہے جس سے نقصان کے سوا کچھ نہیں ہوا ۔ میں نے کسی مخصوص شخصیت، ادارہ، تنظیم کو نشانہ بنانے کے بجائے اصل مسئلے کو زیر بحث لایا ہے اور خرابیوں کی نشاندہی کے بعد اس مزاج اور رویے میں بہتری کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

آخر میں آپ کا ایک بار پھر شکر گزار ہوں کہ آپ کے قیمتی تبصروں سے موضوع کے مزید پہلووں کو مختلف تناظر سے سمجھنے میں مدد ملی۔ آپ نے بہت اچھے پیراے میں اس مکالمے کو سنجیدگی سے آگے بڑھایا ہے، آپ اپنے نکات پورے لکھیں، تو ہمارے اس مکالمے کو اسی ویب سائٹ پر شائع کر دیتا ہوں تاکہ قارئین کو مختلف تناظر سے آگہی کا موقع ملے۔

احسان رضی:
شکریہ کے آپ مستحق ہیں محترم جو گاہے بہ گاہے اہم سیاسی اور سماجی ایشوز کو اٹھاتے رہتے ہیں اور علاقائی اور بین الاقوامی طور پر آگہی اور شعور پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرا مقصد صرف آپ کو اپنے ملاحظات سے آگاہ کرنا تھا۔۔۔۔۔۔۔مجھے بڑی خوشی ہوگی اگر ان پر آپ خود تبصرہ کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے جو ہم جیسے مزاجا کاہل اور دنیا سے کٹے ہوئے لوگوں کو بھی صبح تک فیس بک پر بیٹھنے پر اکسادیتے ہیں اور دنیا کے سب سے مشکل کام یعنی کچھ لکھنے کا محرک بنتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد حسین
برادر مکرم آپ کی علمی دیانت و ظرافت کو میں از تہہ دل سلام عرض کرتا ہوں، میں نے آپ کے قیمتی تبصروں کا جائزہ لیا ہے، اس مکالمے کو مذکورہ ویب سائٹ پر ہی شائع کروا رہا ہوں اور اس سے بھی مناسب تر معلوم ہو تو بے شک آپ اسے قم سے شائع ہونے والے کسی جریدے کا حصہ بنا سکتے ہیں، تاکہ مکالمے کی یہ فضا پروان چڑھے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے