ڈنکی ٹریڈنگ

کہتے ہیں سینیٹ ایوان بالا ہے شاید اس لئے اس کے انتخاب کا طریق کار ایسا بنا دیاگیا ہے کہ جس میں صرف بالائی طبقات سے تعلق رکھنے والے ضمیروں کے سودا گر ہی پہنچ سکتے ہیں ۔ انتخابی عمل میں خریدوفروخت کو ہارس ٹریڈنگ کہا جاتا ہے لیکن سینیٹ کے انتخابات میں جس طرح خریدوفروخت ہوتی ہے اور ہونے جارہی ہے ، اس کے بعد اسے ڈنکی ٹریڈنگ کا نام ہی دیا جاسکتا ہے۔ بلکہ ڈنکی ٹریڈنگ کا لفظ بھی شاید کم ہے کیونکہ گدھے کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں لیکن سینیٹ انتخابات میں ووٹ خریدنے اور فروخت کرنے والا گدھوں سے بھی زیادہ بے اصول ہوتا ہے ۔ ان کے مقابلے میں گدھا کافی وفادار ہوتا ہے لیکن اس خریدوفروخت میں ملوث لوگ نہ قوم کے وفادار ہوتے ہیں اور نہ مٹی کے ۔ رہے گھوڑے تو گھوڑے تو ان بے ضمیروں سے ہزار گناہ زیادہ مفید، وفادار اور اصول پرست جانور ہیں۔اس لئے اس عمل کو ہارس ٹریڈنگ کہنا گھوڑوں کی توہین ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے سابق اور مسلم لیگ(ن) کے موجودہ ایک رہنما گزشتہ روز اس حوالے سے اپنے چشم دید واقعات سنا رہے تھے ۔ بتارہے تھے کہ 2002ء کی صوبائی اسمبلی میں انہیں خیبرپختونخوا اسمبلی میں مسلم لیگ(ق) کے لئے ایم ایم اے کے اراکین صوبائی اسمبلی کو خریدنے کا ٹاسک سونپا گیا تھا۔

جے یو آئی (ف) کے ایک رکن اسمبلی، جو مسجد کے امام تھے اور رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد دوست کی گاڑی میں اسمبلی آتے تھے، نے مسلم لیگ(ق) کے ایک امیدوار کے ساتھ ایک کروڑ میں الگ اور دوسرے کے ساتھ الگ سودا طے کیا تھا۔ ان کا یہ خیال تھا کہ پارٹی کے اس رہنما کے ساتھ الگ سے ایک کروڑ میں سودا طے کرلیں گے۔ چنانچہ ان سے سودا طے ہوا کہ ایک کروڑ میں وہ اپنے تمام ووٹ کی تمام ترجیحات مسلم لیگ(ق) کو کاسٹ کریں گے ۔ مولوی صاحب نے وضوکیا اور قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر وعدہ کیا تاہم مسلم لیگ(ق) کے یہ رہنما باخبر ہونے کے ساتھ ساتھ ہوشیار بھی تھے ۔ انہوں نے مولوی صاحب کو 20 لاکھ روپے تھمائے اورا ن سے کہا کہ باقی اسی لاکھ ان کی پارٹی کے دوامیدوار ان کو ادا کردیں گے ۔ یہ سن کر مولوی صاحب کے پائوں سے زمین نکل گئی ۔ بعدازاں پتہ چلا کہ مولوی صاحب نے قرآن پاک پر ہاتھ رکھنے کے باوجود ووٹ مسلم لیگ(ق) کے امیدواروں کو کاسٹ نہیں کئے چنانچہ ایک خفیہ ایجنسی کو استعمال کرکے ان سے رقم واپس وصول کی گئی ۔

یہی صاحب بتارہے تھے کہ کس طرح ایم ایم اے کے ایک اور رکن اسمبلی رات کو ایک کروڑ کی وصولی کے بعد اگلی صبح دوبارہ ان کے گھر پر حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ چونکہ گنتی کے بعد ایک کروڑ میں پانچ ہزار کم نکلے ہیں ، اس لئے اس کی بھی ادائیگی کی جائے ۔ سینیٹ کے اس انتخاب کو میں نے ذاتی طورپر بطور رپورٹر قریب سے دیکھا تھا اور ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ کس طرح امریکہ سے اربوں ڈالر کے ساتھ پاکستان آنے والے اعظم سواتی کو اس وقت ایم ایم اے کی قیادت نے اپنے آدھے ممبران خود حوالے کئے اور باقی کے بارے میں ان کو ہدایت کی گئی کہ وہ ذاتی طور پر ایم ایم اے کی صفوں میں اپنے لئے خریداری کرلیں۔ یہ اعظم سواتی صاحب اب پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ہیں اوراربوں کے مالک ہونے کے ناطے اب دوبارہ ان کو عمران خان صاحب نے ٹکٹ عنایت کردیا ہے ۔ لگتا ہے کہ اب کی بار تو ڈنکی ٹریڈنگ کے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹیں گے ۔ کیونکہ انتخابات سے بہت عرصہ قبل سب سے زیادہ باوسائل اور کھلاڑی خریدار میدان میں کود پڑا ہے ۔

بلوچستان اسمبلی میں ایک ممبر نہیں لیکن زرداری صاحب وہاں سے اپنے دو تین سینیٹر منتخب کرانا چاہتے ہیں ۔ ظاہر ہے وہ کیسے منتخب ہوں گے ۔ اس کا اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں کہ بلوچ اور پختون ضمیروں کے سودے کئے جائیں ۔ اسی طرح پختونخوا سے میرٹ پر ان کا ایک سینیٹر بھی منتخب نہیں ہوسکتا لیکن یہاں پر بھی وہ چار امیدوار میدا ن میں لے آئے ہیں جن میں بعض پختونخوا سے باہر کے لیکن کھرب پتی ہیں ۔ فاٹا میں وہ پہلے سے حاجی بسم اللہ خان ایم این اے اور دیگر کارندوں کے ذریعے انتظامات کرچکے ہیں۔ اب مقابلے کے لئے حسب روایت دیگر تمام جماعتیں بھی ارب پتیوں اور کھرب پتیوں کو میدان میں لارہی ہیں ۔ مسلم لیگ(ن) بھی فاٹا اور بلوچستان میں کھرب پتی اور ضمیروں کی خریداری کے ماہرین کو میدان میں اتاررہی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں چوہدری سرور جیسے کھرب پتی کو امیدوار بنایا جبکہ خیبر پختونخوا میں بھی اعظم سواتی جیسے امیرزادوں اور خریداری کے ماہرین کو ٹکٹ دئیے جارہے ہیں ۔ یوں تو ہر جگہ ڈنکی ٹریڈنگ کا یہ دھندا عروج پر ہوگا لیکن لگتا ہے کہ بلوچستان ، پختونخوا اور فاٹا میں تو تمام ریکارڈ ٹوٹیں گے اور بدقسمتی سے حسب روایت فاٹا پہلے نمبر پر آئے گا۔ فاٹا کے سینیٹ کے انتخابات کا موجودہ طریق کار یہ ہے کہ وہاں سے گیارہ ایم این ایز چار سینیٹرز منتخب کراتے ہیں ۔ اس کا طریق کار کچھ یوں بنا ہے کہ جب چھ ایم این ایز کا گروپ بن جاتا ہے تو وہی چاروں سینیٹرز منتخب کرلیتا ہے اور باقی پانچ ایم این ایز تماشا دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ پچھلی مرتبہ ان چھ ایم این ایز نے گروپ بنا کر کروڑوں روپے کا اپنا پول بنایا اور آپس میں رقم اور سینیٹ کی سیٹوں کی تقسیم کرلی ۔ کچھ نے اپنے بھائی اور بیٹے سینیٹرز بنادئیے اور کچھ نے رقم لے لی ۔ اب دوبارہ وہ گروپ بن گیا ہے اور یہاں فاٹا انضمام کے حامی اور اس کے مخالف ایم این ایز ایک گروپ میں ہیں ۔ فاٹا تک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کی توسیع کا بل اب زرداری صاحب نے سینیٹ میں لٹکا دیا ہے۔ فاٹا کے منتخب نمائندوں کو اس کی توفکر نہیں لیکن یہاں اس دھندے میں لگ گئے ہیں ۔

ظاہر ہے جو سینیٹرز فاٹا کے نمائندے بن کر منتخب ہوں گے وہ یا تو لاہور ، کراچی اور اسلام آباد میں مقیم کھرب پتی ہوں گے یا پھر ان کھرب پتی ایم این ایز کے بھائی اوربیٹے ہوں گے ۔ ویسے تو اس گندے کھیل کے خاتمے کا واحد راستہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی طرح سینیٹ کے ممبران کا انتخاب بھی براہ راست عوامی ووٹ سے ہوکیونکہ وفاق کی علامت سمجھے جانے والے موجودہ سینیٹ میں پہنچنے والے بیشتر نمائندے نہ تو حقیقتاً عوام کے نمائندے ہوتے ہیں اور نہ ا س وفاقی اکائی کے ۔ اب تو یہ روایت چل پڑی ہے کہ ایک صوبے کے لوگ دوسرے صوبوں سے منتخب کروائے جاتے ہیں ۔ باقی یونٹوں کا تو جو ہوگا سو ہوگا لیکن فاٹا کے سینیٹرز کا انتخاب تو اب کی بار بھی کسی صورت میں موجودہ طریق کار کے مطابق نہیں ہونا چاہئے ۔ فاٹا کے سینیٹرز کے انتخاب کا طریق کار طے کرنے کے لئے آئینی ترمیم کی نہیں بلکہ صدر مملکت کے ایس آر او کی ضرورت ہوتی ہے ۔ وہ ایک آرڈر جاری کرکے کسی بھی طریقہ سے وہ انتخاب کرواسکتا ہے ۔ الیکشن کمیشن نے اس لئے تاحال فاٹا کے سینیٹ انتخابات کا شیڈول جاری نہیں کیا کیونکہ صدر مملکت نے ابھی تک ایس آر او جاری نہیں کیا۔ یوں بہتر صورت تو یہ ہے کہ فاٹا سے سینیٹرز کا انتخاب براہ راست عوامی ووٹ سے کیا جائے ۔ یہ نہ ہو تو پھر دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان کا انتخاب فاٹا کے لئے صوبائی اسمبلی کی نشستوں اور ان پر انتخاب تک ملتوی رکھاجائے۔ یہ بھی ممکن نہ ہو اور فوری انتخاب ضروری ہو تو پھر نسبتاً بہتر صورت یہ ہوسکتی ہے کہ فاٹا کے سینیٹرز بھی اسی طرح پوری قومی اسمبلی کے ذریعے منتخب کرائے جائیں جس طرح کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سینیٹرز کا کیا جاتا ہے ۔ موجودہ طریق کار کے تحت منتخب ہونے والے سینیٹرز کسی صورت قبائلی عوام کے نمائندے نہیں ہوتے بلکہ اس خریدوفروخت کی وجہ سے غیرتمند قبائل کی پوری دنیا میں مزید بدنامی ہوتی ہے ۔

ایک اہم نکتہ:

فاٹا تک سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار کا بل قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اب سینیٹ میں اٹک کر رہ گیا ہے ۔ بدقسمتی سے قومی اسمبلی میں اس حوالے سے جو کھیل مسلم لیگ(ن) نے مولانا فضل الرحمان کے کہنے پر کھیلا ، اب سینیٹ میں وہی کھیل پیپلز پارٹی کھیل رہی ہے ۔زرداری صاحب نے چیئرمین سینیٹ اور بعض ممبران سینیٹ کے ذریعے ایک گندہ کھیل شروع کیا ہے جس سے یہ خطرہ ہے کہ یہ بل وہاں لٹکا رہے جبکہ اصلاحات کی حامی پی ٹی آئی اور اے این پی وغیرہ دیگرحسب روایت دوسرے معاملات میں مصروف ہیں ۔ پیپلز پارٹی پہلے اس کے لئے آواز اٹھاتی رہی اور حقیقت یہ ہے کہ سید خورشید شاہ نے قومی اسمبلی میں اس حوالےسے شاندار کردار ادا کیا لیکن نہ جانے اب زرداری صاحب اپنے چہیتے رائو انوار کے معاملے پر قبائلی عوام کے احتجاج سے برہم ہیں یا پھر یہ کریڈٹ مسلم لیگ(ن) کی حکومت کو نہیں دینا چاہتے لیکن بہر حال حقیقت یہ ہے کہ سینیٹ میں فاٹا بل کے ساتھ ان کی پارٹی کا سلوک بہت افسوسناک اور شرمناک ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے