زینب کے بعد

لندن کا علاقہ وائیٹ چیپل 1888ء سے 1891ء کے درمیان پوری دنیا کے لیے خوف کی علامت تھا‘ تاریخ کے ان تین برسوں پر آج تک سیکڑوں ناول اور ڈرامے لکھے گئے اور ہزاروں فلمیں بنیں‘ یہ علاقہ سوا سو سال نفسیات اور جرائم کی دنیا کی لیبارٹری بھی رہا‘ کیوں؟
وجہ خوفناک تھی‘ وائیٹ چیپل میں 1888ء میں اچانک خواتین قتل ہونا شروع ہو گئیں‘ کوئی شقی القلب کسی خاتون کو اغواء کرتا تھا‘ اس کے ساتھ زیادتی کرتا تھا‘ اس کا گلہ کاٹتا تھا اور پھر اس کا پیٹ پھاڑ کر اس کا دل‘ گردے اور پھیپھڑے نکال کر باہر پھینک دیتا تھا‘ یہ وارداتیں ایک کلو میٹر کے علاقے میں ہوتی تھیں‘ قتل ہونے والی تمام خواتین طوائفیں تھیں اور قاتل جرم کے بعد آرام سے فرار ہو جاتا تھا۔

یہ سلسلہ 1891 تک چلتا رہا‘ تین برسوں میں 11 خواتین قتل ہوئیں‘ ان گیارہ وارداتوں نے برطانیہ سمیت پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا‘ اسکاٹ لینڈ یارڈ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن یہ قاتل تک نہ پہنچ سکی‘ قاتل اس قدر شاطر تھا کہ وہ قتل کے بعد اسکاٹ لینڈ یارڈ کو خط لکھتا تھا‘ وہ پولیس کو کھلا چیلنج دیتا تھا اور پولیس اپنی تمام تر پھرتیوں کے باوجود اس تک نہیں پہنچ پاتی تھی‘ پولیس نے 100 مشکوک لوگوں سے تفتیش کی ‘ درجن بھر لوگ حوالات میں بند رہے لیکن اصل قاتل سامنے نہ آ سکا‘ پولیس نے قاتل کو ’’جیک دی ریپر‘‘ کا فرضی نام دیا اور وہ اس کی تلاش میں سرگرداں رہی‘ جیک دی ریپر 1891ء میں اسی طرح غائب ہو گیا جس طرح وہ اچانک ظاہر ہوا تھا مگر پولیس اسے تلاش کرتی رہی‘ قاتل 2014ء تک سامنے نہ آیا‘ ان 123 برسوں میں جیک دی ریپر پر سیکڑوں ناول‘ افسانے اور کالم لکھے گئے‘ اس پر دنیا کی ہر زبان میں فلمیں بھی بنیں اور اس پر سیکڑوں مقالے بھی لکھے گئے‘ وہ ان 123برسوں میں’’متھ‘‘ بن گیا لیکن پھر وہ 123 سال بعد اچانک دنیا کے سامنے آ گیا‘کیسے؟ ہم اس طرف آنے سے پہلے ایک اور دلچسپ واقعہ بیان کریں گے۔

جیک دی ریپر کی مقتولین میں کیتھرین ایڈوز نام کی ایک خاتون بھی شامل تھی‘ پولیس کو کیتھرین کی لاش کے قریب سے ایک چادر ملی تھی‘ یہ چادر تفتیشی افسر سارجنٹ آموس نے دریافت کی تھی اور یہ ملزم کے خلاف واحد شہادت تھی‘ سارجنٹ آموس نے ریٹائرمنٹ سے پہلے پولیس ڈیپارٹمنٹ سے یہ چادر لے لی‘ جیک دی ریپر اس وقت تک دنیا کی مشہور شخصیت بن چکا تھا‘ سارجنٹ آموس نے چادر کو اس مشہور شخصیت کی آخری نشانی بنا لیا‘ وہ چادر2007ء تک سارجنٹ آموس کے خاندان میں بطور وراثت چلتی رہی اور یہ آخر میں ڈیوڈ میلویل تک پہنچ گئی‘ برطانیہ کا ایک تاجر ایڈورڈ رسل جیک دی ریپر کا فین تھا‘ وہ شوقیہ جاسوس بھی تھا‘ وہ ماضی کے اس مشہور مجرم کا معمہ حل کرنا چاہتا تھا‘ ایڈورڈ رسل نے ڈیوڈ میلویل سے جیک دی ریپر کی چادر خرید لی اور وہ اسے جنیات کے مشہور پروفیسر ڈاکٹر جاری لوہیلینیں کے پاس لے گیا۔

ڈاکٹر جاری دنیا میں ڈی این اے کے بہت بڑے ایکسپرٹ ہیں‘ ڈاکٹر جاری نے شال کا معائنہ کیا تو انھیں اس پر دو انسانوں کا ڈی این اے مل گیا‘ ڈاکٹر جاری نے 2010ء میں یہ ڈی این اے میچ کرنا شروع کیے‘ خون کا ایک نمونہ کیتھرین ایڈوز کا نکلا‘ ڈاکٹر نے کیتھرین ایڈوز کے خاندان سے یہ نمونہ میچ کر لیا‘ اس کے بعد دوسرے ڈی این اے کی تلاش شروع ہوئی‘ ڈاکٹر جاری نے دوسرا ڈی این اے 100 مشکوک افراد کے خاندانوں کے ساتھ میچ کرنا شروع کیا تو یہ ایک مشکوک شخص ہارون کوسمنسکی کی بہن مٹلیڈا کے وارثوں سے میچ کر گیا یوں جیک دی ریپر کا معمہ حل ہو گیا‘ ڈاکٹر جاری نے انکشاف کیا آج سے 123 سال قبل وائیٹ چیپل کی گیارہ خواتین کا سیریل کلرہارون کوسمنسکی تھا‘ ہارون کوسمنسکی یہودی تھا‘ وہ پیشے کے لحاظ سے حجام تھا‘ وہ 1865ء میں پولینڈ میں پیدا ہوا ۔

باپ درزی تھا‘ وہ 1881ء میں والدین کے ساتھ لندن آیا اور وائیٹ چیپل میں بال کاٹنے کا کام کرنے لگا‘ وہ بچپن سے نفسیاتی مریض اور خودلذتی کا شکار تھا‘ وہ مہینہ مہینہ نہاتا نہیں تھا‘ اسے گلیوں سے کھانے کی چیزیں اٹھا کر کھانے کا خبط بھی تھا‘ وہ جوانی میں دیوانگی کا شکار ہوا اور اس نے اس دیوانگی میں خواتین کو نشانہ بنانا شروع کر دیا‘ وہ شکل سے اس قدر مسکین اور بے ضرر دکھائی دیتا تھا کہ پولیس اسے مشکوک افراد میں شامل ہونے کے باوجود رہا کر دیتی تھی‘ وہ 1891ء میں پاگل ہو گیا‘ والدین نے اسے پاگل خانے میں داخل کرا دیا اور وہ1919ء میں پاگل خانے میں انتقال کر گیا۔
آپ جدید سائنس کا کمال دیکھئے‘ جنیات کے ایک سائنس دان نے 2014ء میں لیبارٹری کی ٹیبل پر 1891ء کا وہ کیس حل کر دیا جسے برطانیہ کا پورا پولیس ڈیپارٹمنٹ مل کر سوا سو سال میں حل نہیں کر سکا تھا‘یہ واقعہ کریمنالوجی کی دنیا میں انقلاب کی دلیل ہے‘ آپ اس انقلاب کو ذہن میں رکھئے اور اس کے بعد قصور کی زینب اور مردان کی بچی اسماء کے واقعات کو دیکھئے‘ زینب کا قاتل عمران علی اور اسماء کا قاتل محمد نبی دونوں کیسے گرفتار ہوئے؟ یہ ڈی این اے کے ذریعے پکڑے گئے تھے‘ آپ فرض کر لیجیے اگر لاہور میں ڈی این اے لیب نہ ہوتی یا زینب کے جسم سے عمران علی اور اسماء کے قریب گنے کے پتے سے محمد نبی کے خون کا قطرہ نہ ملتا تو کیا ہوتا؟ یہ قاتل یقینا آج بھی آزاد گھوم رہے ہوتے‘ یہ دونوں قاتل صرف اور صرف ڈی این اے کی وجہ سے پکڑے گئے‘ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔

یہ دونوں مثالیں ثابت کرتی ہیں آج کی پولیسنگ تبدیل ہو چکی ہے‘ مجرم اب پولیس نہیں پکڑتی‘ یہ لیبارٹریوں اور سائنس کے ذریعے گرفتار ہوتے ہیں‘ تفتیش بھی اب ڈنڈوں اور چھتروں سے نہیں ہوتی‘ یہ پولی گرافک ٹیسٹ‘ سائنسی ثبوتوں اور کرائم سین کے ذریعے ہوتی ہے چنانچہ ہم اگر جدید دنیا کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اب اپنی پولیسنگ تبدیل کرنا ہوگی‘ انگریز نے ہندوستان کی پولیس کو زن‘ زر اور زمین کی بنیاد پر تشکیل دیا تھا چنانچہ ہماری پولیس ہر وہ کیس چٹکیوں میں حل کر لیتی ہے جس میں زمین‘ رقم اور خاتون ملوث ہوتی ہے‘ ہمارے تفتیش کار قتل‘ ڈکیتی اور اغواء کے مجرموں تک فوراً پہنچ جاتے ہیں لیکن یہ چوری‘ سرقہ‘ فراڈ اور زینب جیسے واقعات کا تدارک نہیں کر پاتے‘ کیوں؟ کیونکہ یہ مجرم ان جرائم کے لیے جدید طریقے استعمال کرتے ہیں اور ہماری پولیس آج بھی روایت میں بندھی ہوئی ہے۔

ہم اگرملک کو مستقبل میں زینب جیسے واقعات سے بچانا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں پولیسنگ کا نیا سسٹم لانا ہوگا اور وہ سسٹم سی سی ٹی وی فوٹیج‘ موبائل فون‘ فنگر پرنٹس اور ڈی این اے پر ’’بیس‘‘ کرتا ہے‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی زینب کا قاتل عمران علی ’’پیڈوفائل‘‘ نہیں تھا‘ یہ ’’سیکس ایڈکٹ‘‘ تھا‘ یہ محلے کے ایک قاری اور قاری کے بھائی کے ساتھ مل کر پیشہ ور عورتیں لاتا تھا‘ قاری کے بھائی نے اس کی فلم بنا لی‘ یہ بلیک میل ہونے لگا‘ یہ پیسوں کی کمی کا شکار بھی تھا چنانچہ یہ چھوٹی بچیوں کی طرف راغب ہو گیا اور یہ بچیوں کو قتل کرتا چلاگیا‘ کیا ہمارے ملک میں ’’سیکس ایڈکٹس‘‘ کا کوئی ڈیٹا موجود ہے؟ جی نہیں‘ ہمیں یہ ڈیٹا بھی تشکیل دینا ہوگا‘ یورپ میں جب بھی کوئی ملزم تھانے میں پیش ہوتا ہے تو پولیس اس کے خون کے نمونے لے کر ڈیٹا بینک میں ’’سیو‘‘ کر لیتی ہے‘ وہ شخص اس کے بعد جب بھی کوئی واردات کرتا ہے وہ چند لمحوں میں پکڑا جاتا ہے۔

ہم یہ ڈیٹا بینک کیوں نہیں بناتے؟ یورپ میں ’’فیس میچنگ سسٹم‘‘ لگے ہوئے ہیں‘ آپ جوں ہی کیمرے کے سامنے پہنچتے ہیں‘ کیمرہ آپ کی تصویر لے کر آپ کا پورا ’’بائیو ڈیٹا‘‘ کھول دیتا ہے‘ پاکستان میں کسی جگہ ’’فیس میچنگ سسٹم‘‘ نہیں‘ آپ یہ ٹیکنالوجی خرید کر پاکستان میں سسٹم بنائیں اور پورے ملک کو فیس میچنگ سسٹم سے جوڑ دیں‘ سڑکوں سے لے کر ہوائی اڈوں تک پورے ملک میں یہ سسٹم لگے ہوں‘ پاکستان کا کوئی شہری اس سسٹم سے نہ بچ سکے‘ یورپ اور امریکا میں موبائل فونز اسٹیٹ کا سب سے بڑا ٹول ہیں‘ آپ موبائل کمپنیوں کو وائس میچنگ یا آواز کی شناخت کا سسٹم لگانے کی ہدایت کردیں‘ یہ سسٹم اب زیادہ مہنگے نہیں ہیں‘ موبائل فون کمپنیاں یہ سسٹم لگا لیں گی تو ریاست جب چاہے گی یہ چند سیکنڈ میں مجرم تک پہنچ جائے گی اور آپ اسی طرح فرانزک لیبارٹریوں کی تعداد میں بھی اضافہ کریں‘ آپ مجرموں کی شناخت کے لیے سائنس کی مدد لیں‘ ملک میں جرائم کم ہو جائیں گے۔

میرا خیال ہے یہ کام وفاقی حکومت کو کرنا چاہیے‘ وزارت داخلہ اسلام آباد میں ’’ٹیکنیکل کرائمز‘‘ کا یونٹ بنائے‘ ملک کی سب سے بڑی فرانزک لیبارٹری‘ فیس میچنگ لیبارٹری‘ وائس اینڈ فنگر پرنٹ میچ سسٹم اور پورے ملک کے مجرموں اور ملزموں کا ڈیٹا بینک بنائے اور چاروں صوبوں کو سہولت فراہم کرے‘ پولیس شہادت اور ثبوت جمع کر کے اسلام آباد بھجوا دے اور وفاقی ادارہ ان ثبوتوں اور شہادتوں کی پڑتال کر کے رپورٹ بھیج دے‘ یہ ادارہ مستقبل کے لیے اہم ہوگا‘ ہم نے اگر آج اس سائنس کا فائدہ نہ اٹھایا جس نے 123 سال بعد جیک دی ریپر کو بے نقاب کر دیا تھا تو ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے‘ دنیا میں جرائم روکنے کا سب سے بہترین طریقہ خوف ہے‘ مجرم کو اگر یہ معلوم ہوجائے میں جرم کے بعد بچ نہیں سکوں گا تو پھر وہ کبھی جرم نہیں کرتا اور یہ خوف آج کے دور میں صرف سائنس کے ذریعے ممکن ہے‘ آپ سائنس کی مدد لیں‘ زینب جیسی بچیاں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں گی ورنہ عمران علی کی پھانسی کے بعد یہ فائل بند ہو جائے گی اور نئی فائلیں کھلتی رہیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے