ایران: جاسوسی کے الزام میں مزید 3 ماحولیاتی رضا کار زیر حراست

ایران میں جنگلی حیات کے ایرانی نژاد کینیڈین سربراہ کی گرفتاری اور دوران حراست ان کی موت کے بعد پہلے مرحلے میں ایرانی سیکیورٹی فورسز نے جاسوسی کے الزام میں مزید 3 ماحولیاتی رضاکاروں کو حراست میں لے لیا۔

ایران کی نیم سرکاری نیوز ایجنسی فارس نے ایرانی عدلیہ کے ترجمان غلام حسین محسینی کا بیان نقل کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہرمزگان صوبے سے تین افراد کو حال ہی میں گرفتار کیا گیا لیکن قانونی طور پر ان کی تفصیلات نہیں بتائی جاسکتی، تاہم اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی جانب سے دخل اندازی ایک سنگین مسئلہ درپیش ہے‘۔

اس سے قبل ان گرفتاریوں کے بعد ایرانی حکام نے کہا تھا کہ ان کارکنان نے سائنسی اور ماحولیاتی سرگرمیوں کی آڑ میں حساس معلومات اکٹھی کی تھیں اور ان کی گرفتاری ایرانی نژاد کینیڈین ماحولیاتی کارکن اور پروفیسر کیوس سید امامی کی گرفتاری اور دوران حراست موت کے بعد عمل میں لائی گئی۔

خیال رہے کہ کیوس سید امامی کو 24 جنوری کو گرفتار کیا گیا تھا اور دو ہفتوں بعد دوران قید ان کی موت واقع ہوگئی تھی جبکہ عدلیہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے خودکشی کی تھی۔

اس بارے میں ایران میں انسانی حقوق کے مرکز کا کہنا تھا کہ سید امامی کی گرفتاری کے روز ان کے ادارے کے کم از کم 9 افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔

ایران میں انٹیلیجنس کے سابق وزیر علی یونیسی نے اس کیس کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عوام ایرانی حکام کی جانب سے دی گئی وضاحت پر یقین نہیں رکھتے۔

انہوں نے کہا کہ میرے خیال سے اس معاملے کی بقیہ تحقیقات کے لیے اسے انٹیلیجنس کی وزارت کے حوالے کردینا چاہیے کیونکہ موجودہ صورتحال میں اگر گرفتار کارکنان کو جاسوسی کے الزام میں سزا ہو جاتی ہے تب بھی عوامی رائے کو قائل کرنا مشکل ہوگا۔

یاد رہے کہ مغرب کے پالیسی سازوں کو شکست دے کر گزشتہ برس دوبارہ منتخب ہونے والے ایرانی صدر حسن روحانی معاشی اصلاحات اور بین الاقوامی تعلقات بڑھانے کا مطالبہ کرتے ہیں لیکن ایران کے ضدی پالیسی ساز اب بھی زیادہ تر سیکیورٹی ادارے اور ریاست میں ایک مقام رکھتے ہیں، جس کی بنیاد پر وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایران کی اصل ترجیح امریکا اور اسرائیل کی دھمکیوں سے لڑنے پر ہونی چاہیے۔

علاوہ ازیں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ گزشتہ دوماہ میں ایران میں دوران قید کم از کم 6 قیدیوں کی ہلاکت ہوئی لیکن ایرانی عدلیہ نے اس بات کی تصدیقی کی کہ دوران حراست 3 اموات ہوئی تھیں لیکن یہ تمام خودکشی تھی۔

دوسری جانب یہ کہا جارہا ہے کہ ایران میں گزشتہ برس دسمبر میں ہونے والے بدامنی کے واقعات کے بعد ایرانی صدر حسن روہانی کے اصلاحات کے لیے آگے بڑھنے کا ایک نادر موقع ہے۔

رپورٹ کے مطابق حسن روحانی کی جانب سے تبدیلی کے نعرے سے گزشتہ برس دوسری مرتبہ صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی لیکن انہیں ملک کے بنیاد پرست علماء کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اس دوران تقریباً دو ہفتوں تک سڑکوں پر مظاہرہ کیا گیا تھا جس کے باعث مظاہرین کی جانب سے انہیں سخت سیاسی مخالفت اور معاشی مسائل کا سامنا تھا لیکن حسن روحانی نے مخالفین کے اس غصے کا فائدہ اٹھا کر اپنے نظریہ کو فروغ دیا تھا۔

اس واقعے کے بعد سے انہوں نے پاسداران انقلاب سمیت ایرانی مسلح فورسز پر معیشت کے معاملات سے الگ ہونے پر دباؤ میں اضافہ کیا اور انہوں نے بینکنگ کے شعبے کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے۔

اسی کے ساتھ ساتھ ایرانی صدر کی جانب سے عوامی سطح پر مظاہرین کی حمایت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے مخالفین پر ان کے مطالبات تسلیم کرنے پر زور دیا۔

رواں ماہ کے آغاز میں حسن روحانی کی جانب سے کہا گیا کہ معاشی معاملات پر تنقید اور تحفظات کا عوام کو حق ہے لیکن یہ معاملہ صرف معاشی نہیں ہے بلکہ ان کے پاس سیاسی، سماجی معاملات اور خارجی تعلقات سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ عوام کیا چاہیے ہیں۔

حسن روہانی کے اس طریقہ کار پر اٹلانٹک کونسل کے جنوبی ایشیائی مرکز کے سینئر ساتھی عامر ہندجانی کا کہنا تھا کہ سیاسی اور معاشی اصلاحات کی وکالت کرتے ہوئے حسن روہانی ایک صدر سے کہیں آگے چلے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حسن روہانی نے اس تصور کو واپس پیچھے کردیا کہ تمام مظاہرین باغی ہیں بلکہ انہوں نے انہیں شکایات بتانے کا موقع دیا اور کہا کہ انہیں اپنے رہنماؤں سے سوالات کا حق ہے۔

عامر ہندجانی کا کہنا تھا کہ حسن روحانی کی ان تمام کوششوں کے باوجود ایرانی نظام کے تحت یہ محدود ہیں اور ریاست کے تمام معاملات پر حتمی رائے کا اختیار مذہبی باڈی میں خمینی اور پاسداران انقلاب کونسل کے پاس ہی موجود ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے