افغان بحران کا حل کیسے ممکن ہے؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ نائن الیون کے بعد امریکہ نے طالبان کے حوالے سے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور امریکی صدر بش نے ان کو بھی القاعدہ کی طرح صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی ۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ابتدا میں طالبان کے پاس کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا سوائے اس کے وہ لڑیں یا مریں ۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ امریکہ نے قبضے کے بعد بمباریوں کے ذریعے ہزاروں بے گناہ افغانوں کو لقمہ اجل بنایا ، گھروں کی بے حرمتیاں کیں اور انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کا ارتکاب کیا جس کے ردعمل میں طالبان کی کارروائیوں کو بھی قاعدے اور ضابطے کا پابند بنانا ممکن نہیں رہا ۔

اگرچہ طالبان کی حکومت خود بزور بندوق قائم ہوئی تھی لیکن اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ وہ کابل سمیت افغانستان کے وسیع رقبے پر قابض تھے اور جو رویہ ان سے متعلق اپنایا گیا ، اسے بحیثیت افغان اور انسان انہوں نے اپنی توہین سمجھا ۔ اس میں بھی دو رائے نہیں کہ افغانستان پر قبضے کے بعد جس طرح افغانستان کو سنبھالے بغیر امریکی عراق میں جاگھسے اور جس طرح افغان سرزمین سے پڑوسی ممالک کے خلاف سازشوں کا آغاز ہوا ، اس کی وجہ سے افغان طالبان کے اس بیانیے کو تقویت ملی کہ امریکیوں کا مقصد امن نہیں کچھ اورہے ۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ خود طالبان کی بعض غلطیوں اور بے لچک رویے نے افغانستان میں بیرونی مداخلت کی راہ ہموار کی جس کی وجہ سے وہ خود اور افغان آزمائشوں سے دوچار ہوئے جبکہ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کچھ عرصہ سے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے متعلق طالبان کا بے لچک رویہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹر اشرف غنی کی قیادت میں افغان حکومت اس وقت نہایت کمزور ہے اور پچاس فی صد سے زائد علاقے میں افغان طالبان کا اثر یا خوف (کنٹرول مناسب لفظ نہیں) موجود ہے لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ماضی کی طرح کبھی بھی طالبان طاقت کے زور پر افغانستان پر دوبارہ قابض نہیں ہوسکتے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ ، اس کے اتحادی اور افغان فورسز ہر حربہ استعمال کرکے بھی طالبان کی مزاحمت کو ختم نہیں کرسکے لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں کہ طالبان افغان عوام کی اکثریت کو اپنا ہمنوا بناسکے اور نہ افغان حکومت کو گراسکے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ طالبان اپنی افغان حمیت کی خاطر امریکہ جیسی طاقت سے ٹکرلے رہے ہیں لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں کہ یہی طالبان افغانستان کے پڑوسی ممالک اور بیرونی طاقتوں کی محتاجی کی زندگی گزاررہے ہیں ۔ کیونکہ ایک طاقت سے لڑنے کے لئے دوسری طاقت کے آگے کاندھا جھکانا پڑتا ہے ۔

مجھے طالبان کی یہ منطق سمجھ نہیں آتی کہ ہم افغان حکومت سے تو بات نہیں کریں گے لیکن امریکہ سے بات چیت کے لئے تیار ہیں ۔ دوسری طرف وہ مذاکرات کےلئے غیرملکی افواج کے انخلا کی شرط رکھ رہے ہیں ۔ حالانکہ امریکی افواج کے انخلا کے لئے ضروری ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین مفاہمت ہو۔ جب ان دونوں کی مفاہمت ہوگی تو امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کا جواز ختم ہوگا اور اس کے بعد بھی اگر امریکی نہیں نکلتے تو پوری افغان قوم اور پڑوسی ممالک بڑی آسانی کے ساتھ ان کو نکال سکیں گے ۔ اسی طرح اس حقیقت سے بھی کوئی آنکھیں نہیں چرا سکتا کہ افغانوں کے آپس کی مفاہمت کے بغیر اگر غیرملکی افواج نکلیں تو سال دو سال کے اندر اتنا خون بہے گا کہ جو غیرملکی افواج نے سولہ سال میں بھی نہیں بہایا ہوگا۔

یہ تماشہ ماضی قریب میں دنیا سوویت افواج کے انخلاکے بعد دیکھ چکی ہے ۔ جب نجیب اللہ حکومت اور مجاہدین کے مابین مفاہمت کے بغیر سوویت افواج نکلیں تو پہلے نجیب حکومت اور مجاہدین کے درمیان اور پھر مجاہدین کی آپس کی جنگوں میں افغانستان کی جو تباہی ہوئی ، وہ پورے سوویت دور میں نہیں ہوئی تھی ۔ تب مجاہدین بھی سوویت یونین کے ساتھ بات چیت کے لئے تو تیار تھے لیکن ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کو کٹھ پتلی حکومت کہہ کر اس کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار نہ تھے ۔ چنانچہ اب طالبان وہی غلطی دہرارہے ہیں جو اس وقت مجاہدین نے کی تھی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ مجاہدین جو سوویت یونین کے خلاف مزاحمت میں بھی ہیرو بنے تھے، افغان عوام کے قہروغضب کا ایسا نشانہ بنے کہ نتیجے میں طالبان سامنے آئے ۔

طالبان کا موقف ہے کہ اصل اختیار امریکہ کے پاس ہے اور ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کٹھ پتلی حکومت ہے ۔ یقیناََ افغان حکومت امریکہ کے تعاون سے قائم ہوئی اور اس کی پشت پناہی سے قائم ہے لیکن اس میں بھی دو رائے نہیں کہ افغان حکومت کی اپنی بھی ایک حیثیت ہے ۔

گلبدین حکمت یار کے امریکی اسی طرح مخالف تھے جس طرح طالبان کے ہیں ۔ امریکیوں کایہ خیال تھا اور درست خیال تھا کہ افغانستان میں القاعدہ کے ساتھ قریبی اور نظریاتی تعلق طالبان سے بھی زیادہ حکمت یار کا رہا ہے۔ اسی لئے تورہ بورہ سے نکلنے کے بعد اسامہ بن لادن گلبدین حکمت یار کی جماعت کے حاجی کشمیر خان کی پناہ میں گئے تھے ۔تاہم گلبدین حکمت یار کے ساتھ مذاکرات کے عمل کا آغاز حامد کرزئی صاحب نے اپنے تئیں کیا تھا اور پھر اشرف غنی نے اس کو آگے بڑھایا۔ جب افغان حکومت اور گلبدین حکمت یار ایک معاہدے تک پہنچے تو افغان حکومت کی رائے امریکہ کو بھی ماننی پڑی اور اقوام متحدہ کو بھی ۔ دونوں نے گلبدین حکمت یار کو بلیک لسٹ سے نکالا اور آج وہ کابل میں سیاسی عمل کا حصہ بن کر امریکیوں کے انخلا کے لئے سیاسی طریقے سے آواز بلند کررہے ہیں ۔

گزشتہ روز کابل میں عالمی امن کانفرنس کے موقع پر افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو امن عمل کے لئے جو پیشکش کی ہے ، میرے نزدیک اس سے زیادہ پرکشش پیشکش موجودہ حالات میں کوئی اور نہیں ہوسکتی ۔ قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ طالبان کو سیاسی قوت تسلیم کرکے کابل میں ان کو دفتر کے قیام تک کی پیشکش کی گئی ہے ۔ ماضی میں افغان حکومت آئین کی تبدیلی پر آمادہ نہیں تھی لیکن افغان حکومت نے اس پر نظرثانی پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے ۔ میرے نزدیک افغانستان اور خود افغان طالبان کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ اس پیشکش سے فائدہ اٹھائیں کیونکہ ان کی جنگ امریکی افواج کی موجودگی کو جواز فراہم کررہی ہے ۔

گویا جس مقصد کے لئے وہ لڑرہے ہیں، وہ مقصد حاصل ہونے کی بجائے الٹا نتیجہ دے رہا ہے ۔ امریکہ سے طالبان اپنی جنگ کی بنیاد یہ بتارہے ہیں کہ وہ بے گناہ افغانوں کا قاتل ہے لیکن خود طالبان کی مزاحمت میں امریکی کم اور افغان زیادہ قتل ہورہے ہیں ۔ عالمی اداروں کے اعداد وشمار کے مطابق صرف گزشتہ ایک سال کے دوران دس ہزار افغان قتل ہوئے جن میں دو تہائی طالبان کی کارروائیوں میں قتل ہوئے تھے جبکہ ان کی واضح اکثریت بے گناہ افغان شہریوں کی تھی ۔ اگر امریکی بمباریوں میں بے گناہ افغان مرتے ہیں تو طالبان کی کارروائیوں میں بھی تو وہی مرتے ہیں ۔ا س حوالے سے امریکہ اور طالبان کے کردار میں فرق کیا رہ جاتا ہے ۔

اس لئے افغان حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنی پیشکش کو صرف پیشکش نہ رکھے بلکہ سنجیدگی کے ساتھ طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز کرکے اپنی پیشکشوں کو عملی شکل دے اور طالبان کو چاہئے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھاکر افغان حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کا آغاز کریں۔ اولین ضرورت جنگ بندی کی ہے ۔ آزمانے میں کیا حرج ہے ؟۔ اگر مذاکراتی عمل میں افغان حکومت بے اختیار ثابت ہوئی جیسا کہ طالبان دعویٰ کررہے ہیں اور غیرملکی افواج کے انخلاکا راستہ ہموار نہیں ہوا تو پھر وہ دوبارہ جنگ شروع کرسکتے ہیں ۔ جنگ بندی کا مطلب تو ہر گز یہ نہیں کہ وہ اپنی قوت تحلیل کردیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے