مشرف کے ساتھ طے ہونے والا چار نقاطی فارمولا ہی کشمیر کا حل ہے ،سابق بھارتی سفارت کار اور سنیئر کانگریسی رہنما مانی شنکر ایئر سے انٹرویو

بھارت میں حکومت تبدیل ہوئی تو پاکستان سے تعلقات بہتر ہونے کی امید ہے

٭بھارت ، پاکستان اور بنگلا دیش ایک حقیقت بن چکے اسے تسلیم کرکے ہی آگے بڑھنا ہوگا
٭مداخلت کے الزامات دونوں جانب سے ہیں، کسی ایک کو پہلے پابند کرنے پر اصرار نہیں کیا جاسکتا
٭ گزشتہ دو پاکستانی انتخابات میں بھارت اور کشمیر پر بات نہیں کی گئی
٭ دہشت گردی کا خاتمہ دونوں ممالک کی مشترکہ ذمے داری ہے
٭ جہاد پر ریاستی استحقاق کا فتویٰ انتہائی خوش آئند ہے
٭ بی جے پی کا مؤقف سب کو معلوم ہے، لیکن پاکستان سے کون ان کی حلف برداری میں شریک ہونے گیا؟
٭مشرف کے ساتھ طے ہونے والا چار نقاطی فارمولا ہی کشمیر کا حل ہے
٭ بھارت سبھی شہری پاکستان کے بارے میں نہیں سوچتے ، یہ شمال اور مشرق میں رہنے والوں کا مسئلہ ہے
٭پاک بھارت مذاکرات کو دہشت گردی کے خلاف اقدامات سے مشروط نہیں کیا جانا چاہیے

 

مانی شنکر آئیر سابق بھارتی سفارت کار اور سیاست دان ہیں۔ وہ 1941میں لکشمی مینشن لاہور میں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد ان کا خاندان دہلی منتقل ہوا جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، ڈیرہ دون سے گریجویشن کی سند حاصل کی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے کیمرج یونیورسٹی کا رُخ کیا جہاں وہ مارکسسٹ سوسائٹ کے متحرک رُکن رہے۔ یہیں سے ان کے سیاسی کرئیر کا آغاز ہوگیا۔ ڈیرہ دون اور کیمرج میں بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی بیٹے راجیو گاندھی ان کے جونیئر رہے۔ یہ تعلق بعد میں بھی قائم رہا، مانی شنکر آئیر کو راجیو گاندھی کے قریب ترین ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ ان کی تقاریر کی ڈرافٹنگ میں بھی مدد کیا کرتے تھے۔ 1963میں مانی شنکر آئیر انڈین فارن سروسز سے منسلک ہوگئے۔ 1978

میں وہ بھارت کے پہلے قونصل جنرل بن کر کراچی آئے اور 1982تک یہاں تعینات رہے۔ 1989میں وہ ملازمت سے مستعفی ہوگئے اور عملی سیاست کا آغاز کیا۔ وہ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی کا حصہ رہے۔ وہ پنچائیت راج، امور نوجوان اور کھیل کے وزیر ہے۔ مانی شنکر آئیر کے سیاسی کرئیر میں کئی اتار چڑھاو آتے رہے ہیں۔ وہ کئی مرتبہ اپنے بیانات کے باعث تنازعات کا بھی شکار رہے ہیں۔ متعدد بار ان پر ”پاکستانی ایجنٹ“ ہونے کا بھی الزام عائد کیا جاچکا ہے۔

حال ہی میں ان پر پاکستانی سفارت کاروں کے ساتھ ملک کر گجرات کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کے خلاف سازش لگانے کا الزام عائد کیا گیا جسے بھارتی میڈیا کے بعض حلقوں نے خوب اچھالا۔ اس کے علاوہ بھارتی وزیر اعظم کو ”چائے والا“ کہہ کر مخاطب کرنے کی وجہ سے بھی شدید ردعمل کا سامنا کرچکے ہیں جبکہ ماضی قریب ہی میں ان کے ایک بیان کے بارے میں یہ موقف اختیار کرتے ہوئے احتجاج کیا گیا کہ اس میں کم تر اور نا مناسب لفظ مودی کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ یہ احتجاج اس قدر زور پکڑ گیا کہ کانگریس نے راجیو گاندھی کے دیرینہ ساتھی اور سینیئر پارٹی رہنما کی رکنیت ہی معطل کردی۔ بھارت میں جہاں مانی شنکر آئیر تنقید کے گرم تھپیڑوں کی زد میں تھے تو یہاں پاکستان میں انہیں نویں کراچی لٹریچر فیسٹول میں مدعو کیا گیا اور انہیں خوب پذیرائی ملی۔ انہوں نے چار سے زاید سیشنز میں اظہار خیال کیا۔ پاک بھارت تعلقات سے متعلق "Love Thy Neighbor” میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انجیل سے نقل کیے گئے اس قول پر مکمل عمل کی ضرورت ہے، انجیل میں کہا گیا ہے کہ اپنے پڑوسی سے اسی طرح پیار کرو جس طرح اپنے آپ سے رکھتے ہو۔ کراچی لٹریچر فیسٹول کے دوران مختلف مواقع پر مانی شنکر آئیر کی گفتگو سننے اور براہ راست ان سے ملاقات کرنے کا موقع بھی ملا۔ ٹکروں میں ہونے والی ان مختصر اور بے ربط ملاقاتوں میں کئی اہم سوالات پوچھے نہیں جاسکے اور کئی موضوعات پر بات کرنے سے مانی شنکر آئیر نے خود بھی اجتناب کیا۔ اسی کی روداد یہاں قارئین کی دل چسپی کے لیے پیش کی جارہی ہے۔

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وقت مختصر تھا، بات کا آغاز مانی شنکر آئیر کی کتاب A Time of Transition: Rajiv Gandhi to The 21st Centuryکے تذکرے سے ہوا جس کے پیش لفظ میں انہوں نے اپنے پارلیمانی کرئیر کی پہلی تقریر کا حوالہ دیا تھا، اس تقریر میں انہوں نے اپنے لیڈر اور دوست راجیو گاندھی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ راجیو گاندھی بھارت میں ایک بڑی تبدیلی لانا چاہتے تھے ، لیکن ان کے قتل کے بعد صورت حال بدل چکی ہے۔ سوال یہ تھا کہ بھارت میں جمہوریت اور سوشلزم کا نہرو ماڈل کیا اب ناکام ہوچکا؟ مانی شنکر آئیر جنھوں نے Confessions of a Secular Fundamentalist جیسی کتاب بھی لکھی، کیا دیکھ رہے ہیں کہ سیکیولر اور جمہوری بھارت کیا اب انتہا پسند ہندو قوم پرستوں کے ہاتھوں میں جارہا ہے؟ اور وہ اس تبدیلی کو کیسے دیکھتے ہیں؟ مانی شنکر آئیر نے فوری کہا کہ جب بھارت میں یہ تبدیلی رونما ہورہی تھی تو وہ کون تھا جو دہلی میں اس کی پذیرائی کے لیے موجود تھا؟ وہ آپ کے وزیر اعظم(نواز شریف) تھے۔

 

 

 

 

وہ کہتے ہیں کہ مدت ہوئی بی جے پی کا موقف واضح ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستانیوں کا پسندیدہ بھارتی وزیر اعظم کون رہا؟ یہاں تک کہ ”نوائے وقت“ بھی اس بھارتی وزیر اعظم کو پسند کرتا تھا وہ بی جے پی ہی کا وزیر اعظم تھا، اور ان کا اشارہ واجپائی کی جانب تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ مجھے بطور قونصل جنرل پاکستان تعینات کرنے والا کون تھا؟ اگرچہ اس وقت بی جے پی کا وجود نہیں تھا لیکن اٹل بہاری واجپائی جن سنگھ حکومت کے وزیر خارجہ تھے۔

 

 

 

 

ہندوتوا کی بات کرنے والوں میں کئی انتہا پسند عناصر ہیں، جن کے اثرات کو ایک تناظر میں دیکھنا پڑے گا۔ تناظر سے میری مراد یہ ہے کہ ہندوستانی تہذیب پانچ ہزار سالہ تاریخ رکھتی ہے، یہ تہذیب مختلف مذاہب اور افکار کا مجموعہ ہے، جس میں ہر ایک کو ساتھ چلانے کی بات کی جاتی ہے، اسی لیے ہم نے دوقومی نظریے کو تسلیم نہیں کیا، یہ تو آپ لوگوں کی ایجاد تھی۔ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ سہ قومی حقیقت وجود رکھتی ہے۔ ہندوستان اور بعدازاں پاکستان کی تقسیم سے سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں ہی کو پہنچا۔ اگر یہ تقسیم اس طرح نہ ہوتی، ہندوستان میں ساٹھ کروڑ مسلمان ہوتے ، آبادی کا توازن مختلف ہوتا اور اتنی بڑی تعداد کی آواز سنی جاتی۔ تقسیم کی وجہ سے یہ اثر نہ ہونے کے برابر ہوگیا۔ لیکن یہ تینوں ریاستیں اب ایک حقیقت ہیں جنھیں تسلیم کرنا پڑے گا۔ مانی شنکر آئیر کہتے ہیں اب بطور ریاست ان کو ایک کرنے کی بات بھی نہیں کی جاسکتی لیکن ہم ایک آواز میں بات تو کرسکتے ہیں، کم از کم ریاستی سطح پر معقول تعلقات کی بات کی جاسکتی ہے۔

 

 

 

 

گجرات انتخابات میں مودی سرکار کی جانب سے مانی شنکر آئیر اور سابق وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ پر پاکستانی سفارت کاروں کے ساتھ مل کر سازش کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ مانی شنکر آئیر کے خلاف بھارتی میڈیا کے بعض حلقوں نے باقاعدہ مہم چلائی، لیکن اس کے باوجود وہ اس تاثر کو بھی غلط قرار دیتے ہیں کہ بھارتی انتخابات میں پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ اور کڑی تنقید ایک سیاسی حربے کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کانگریس اور بی جے پی کی ایک دوسرے پر کڑی تنقید ہی انتخابات کے لیے کافی ہے۔ آپ لوگ پاک بھارت تعلقات میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے مبالغہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کا ایک اور پہلو ہے جو میں دیکھتا ہوں۔ میں نے پاکستان میں ہونے والے دو انتخابات دیکھے ہیں، جس میں بھارت پر تنقید نہیں کی گئی۔ تعلقات بہتر کرنے کے سوا بھارت کا کوئی حوالہ بھی نہیں دیا گیا۔ یہاں تک کہ کشمیر کا بھی حوالہ نہیں دیا گیا۔ اس اعتبار سے آپ لوگ آگے بڑھ رہے ہیں۔

 

 

 

 

بھارت کے بارے میں یہ تصور بھی درست نہیں کہ وہاں کی عوام حکومت کی ہر بات کے ساتھ ہے، ہاں عوام حکومت کے فیصلوں پر اعتماد کرتی ہے، اس لیے وزیر اعظم مودی جب نواز شریف کی نواسی کی شادی میں شرکت کے لیے آئے تو عوام نے اس کی تعریف کی۔ پھر پٹھان کوٹ واقعے کے بعد مودی نے کہا کہ پاکستان سے بات نہیں ہوسکتی تو عوام نے اسے بھی سراہا۔ اس لیے رائے عامہ پاک بھارت تعلقات میں رکاوٹ نہیں بلکہ 2004میں طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ اور آپ نے کرنا کیا ہے ، صرف یہی کہ سیکڑوں علما نے جہاد کے آغاز کے لیے صرف ریاست کے استحقاق کا جو فتوی دیا ہے اس پر عمل درآمد کروائیں۔ مانی شنکر کہتے ہیں کہ دوسری جانب بھارت میں بھی رفتہ رفتہ کچھ تبدیلیاں آرہی ہیں اور مجھے امید ہے کہ کانگریس اگلے انتخابات میں کام یاب ہوجائے گی اور پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے تعمیری انداز میں مذاکرات کا آغاز ہوگا۔

مانی شنکر ماضی میں تو یہ کہتے رہے کہ راجیو گاندھی نے پاکستان سے تعلقات کی بہتری کے لیے جو انداز فکر اپنایا تھا اس سے بہتری کی توقع پیدا ہوئی تھی، لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ حالات بدل چکے ہیں۔ راجیو گاندھی جامع مذاکرات کے لیے جب پاکستان کے دورے پر آئے تو مانی شنکر آئیر بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت کہیں دہشت گردی کا تذکرہ بھی نہیں تھا، منشیات کی اسمگلنگ سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ بدلتے وقت کے ساتھ ایشوز اور حالات تبدیل ہوچکے ہیں، کرنے کا کام یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے مقاصد کا تعین کرلیا جائے، ہماری نیت پاک ہونی چاہیے، تبھی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں۔ مانی شنکر آئیر نے جب اس کئی تبدیلیوں کا تذکرہ کیا تو اگلا سوال یہ تھا کہ کیا کانگریس بھی تبدیل ہوچکی ہے، کیوں کہ مانی شنکر آئیر پر ہونے والی تنقید کے بعد انہیں پارٹی سے بے دخل کردیا گیا اور بی جے پی نے پاکستان کے خلاف جو فضا بھارت میں پیدا کی ہے کیا آئندہ برسر اقتدار آنے والی پارٹی، چاہے وہ کانگریس ہی کیوں نہ ہو، بے باک فیصلے لے سکے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب 2004سے 2008تک کانگریس حکومت میں تھی تو ہم نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے لیے قدم آگے بڑھائے تھے لیکن اس کے بعد ممبئی حملے ہوگئے، اسی وقت اگر پاکستان کی جانب سے فوری اعتماد سازی کے لیے اقدامات کیے جاتے تو حالات شاید اتنے خراب نہ ہوتے۔ اب دس برس ہوچکے ہیں، خدا کرے کہ بھارت میں حکومت تبدیل ہو اور وہ پاکستان کے ساتھ انہی خطوط پر مذاکرات آگے بڑھائے، جن کا تعین مشترکہ طور پر دونوں ممالک پہلے بھی کرچکے ہیں۔

 

 

 

پاکستان کی جانب سے مثبت پیش رفت ہوتی ہے لیکن بظاہر بھارت میں اس کا ویسی ہی گرم جوشی سے جواب نہیں دیا جاتا۔ اس پر مانی شنکر کا کہنا تھا کہ بھارت کا بہت بڑا حصہ ایسا ہے پاکستان جن کی نظر ہی میں نہیں آتا۔ یہ زیادہ شمالی بھارت اور مشرقی بھارت کے مسائل ہیں۔ کشمیر سے لے کر گجرات تک کے علاقے میں تو پاکستان پر توجہ دی جاتی ہے لیکن باقی بھارت میں اس سے زیادہ دل چسپی نہیں، جب کہ بلوچستان اور کے پی کے حصوں کو چھوڑ کر پاکستان کی اکثریتی آبادی بھارت کی سرحد پر رہتی ہے۔ ۔ دوسری چیز پاکستان میں ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ بھٹوصاحب کے زمانے میں لوگ ان کے دیوانے تھے اور وہ بھارت کے ساتھ ہزار سال جنگ لڑنے کی بات کرتے تھے۔ اب معاملہ ویسا نہیں رہا۔ 1971کی جنگ کے بعد پاکستانی اب سوچنے لگے ہیں کہ ہندوستان سے لڑیں یا اس کا کوئی حل نکالیں اور اپنے ملکی مفاد کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت سے بھی بات چیت کریں۔

وہ کہتے ہیں کہ بھارت کی جانب سے بار بار یہ ثابت کیا جاچکا ہے کہ پاکستان کے ساتھ بات ہوسکتی ہے لیکن کم سے کم پچھلے بیس برس سے یہ ہورہا ہے کہ بات جب بھی آگے بڑھنے لگتی ہے تو کوئی نہ کوئی واقعہ ہوجاتا ہے۔ حکومت پاکستان کی سب سے بڑی ذمے داری اپنی سرزمین پر دہشت گردی روکنا ہے، ظاہر ہے ہمارے ہاں بھی جب کوئی ایسا واقعہ ہوگا تو اس پر بات تو کرنا پڑے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان آنے کے بعد سب سے بڑی خبر ان کے لیے یہ تھی کہ 18سو علما نے ایک ساتھ ایک فتوے پر دستخط کیے ہیں جس میں انہوں نے کہا ہے کہ جہاد کا اعلان کرنا حکومت کا کام ہے اور نجی تنظیم یہ فیصلہ نہیں کرسکتی۔ لیکن مسعود اظہر اور حافظ سعید نے اس پر دستخط نہیں کیے اور ہمارا جھگڑا بھی انہی کے ساتھ ہے۔ اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے بات چیت شروع ہوسکتی ہے اسے سلسلے کو قائم اور جاری رکھنا ہی مشکل ہے۔ آپ کو یہاں اور ہمیں وہاں اپنے لوگوں کو سمجھانا ہوگا۔ تین سال بیک ڈور ڈپلومیسی کے نتیجے میں ہونے والی گفتگو کے نتیجے میں چار نکاتی فارمولا بھی سامنے آیا تھا۔ اگر تین سال بات کرکے چار نکاتی فارمولے پر پہنچ سکتے ہیں تو آئندہ بات بننے کے لیے بنیاد بن چکی ہے۔

 

 

 

پاکستان کی جانب سے بات چیت کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن بھارت کی جانب سے پیش رفت نہیں ہوتی، اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ وہ تو اپنی پارٹی ہی سے معطل ہیں”میں رکن پارلیمنٹ یا وزیر نہیں۔ میں ایک فرد کی حیثیت سے یہاں بات کررہا ہوں اور میرے کچھ کہنے کا کیا اثر رہے گا اللہ جانے۔“ اپنی گفتگو میں مانی شنکر کا اصرار تھا کہ وہ پاکستان سے مذاکرات کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں اور عاصمہ جہانگیر کی مثال دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح ان کی بات یہاں کسی نے نہیں سنی وہاں بھی حکومت نے اس آواز کو نظر انداز کیا ہے۔ پھر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کی رائے کو سوا ارب بھارتیوں کی رائے کہنا بھی درست نہیں ہوگا۔ مانی شنکر آئر کہتے ہیں کہ ایک فرد کے طور پر ان کی رائے کی اہمیت اس لیے ہے کہ وہ پاکستان میں بطور سفارت کار خدمات انجام دے چکے ہیں۔ 36برس پہلے وہ پاکستان میں خدمات انجام دے کر بھارت لوٹ گئے تھے اور ان برسوں میں وہ کئی بار پاکستان آتے رہے۔

مانی شنکر آئر سے گفتگو جاری ہی تھی کہ سنجوان میں بھارتی فوج کے کیمپ پر حملے کی خبر آئی اور وہاں موجود بھارتی چینل کے ایک مقامی نمائندے نے اسی تناظر میں منی شنکر آئر سے سوال کیا کہ ایسی صورت حال میں عوامی رابطے کس طرح آگے بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے جواب میں مانی شنکر آئر کا کہنا تھا کہ ترقی کے لیے مذاکرات ناگزیر ہیں، کچھ مشکلات ہیں۔ کچھ ایسے عناصر پاکستان میں ہیں جنھیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ”rogue element“ کی پشت پنائی حاصل ہے اور جو کسی بھی قسم کے مذاکرات کا سلسلہ آگے نہیں بڑھنا دینا چاہتے۔ گو کہ اس وقت تک نہ ہی مانی شنکر آئر اور نہ ہی سوال کرنے والے رپورٹر کو معلوم تھا کہ حملہ آور کون ہیں؟ لیکن یہ سوال جواب صرف اس پہلے سے طے شدہ نتیجے پر کیے جارہے تھے کہ ان حملوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ ہے۔ منی شنکر آئر نے کہا کہ ایسے عناصر کو بھارتی سرزمین سے تو قابو نہیں کیا جاسکتا اس کے لیے پاکستان ہی کو آگے آنا ہوگا۔ وہ ایک بار پھر مذاکرات کو آگے بڑھانے پر بات کرنے لگے اور جنوری 2004کا حوالہ دیا جب اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی جنوبی ایشیائی ممالک کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے تھے اور پاکستان کے صدر مشرف سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ مانی شنکر کا کہنا تھا کہ مشرف نے یہ بات کہی تھی کہ پاکستانی سرزمین بھارت کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، پاکستان نے یہ وعدہ اس وقت کیا تھا اور اسے نبھانا ہوگا۔

مانی شنکر آئر بار بار یہ بات دہراتے رہے کہ وہ ایک عام شہری کی طرح یہاں آئے ہیں، جس کی پارٹی رکنیت معطل ہے اور جو کوئی سرکاری عہدہ نہیں رکھتا اور اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ کشیدگی کو ختم کرنے کا واحد راستہ مذاکرات ہی ہیں۔ اگلا سوال ان سے یہ کیا گیا کہ مذاکرات کی بات کرنے سے پہلے کیا پاکستان کو دہشت گردی پر قابو نہیں پانا چاہیے؟ مانی شنکر آئر نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کو مذاکرات کی شرط نہیں بنایا جاسکتا، یہ ذمے داری دونوں ملکوں پر عائد ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک ان دونوں باتوں کی ترتیب یا ترجیح کا تعین کرنے کے بجائے انہیں ساتھ ساتھ چلایا جاسکتا ہے۔ بھارتی چینل کے مقامی نمائندے نے ترنت اگلا سوال یہ کیا کہ مذاکرات اور دہشت گردی ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ مانی شنکر اپنے موقف پر قائم رہے کہ مذاکرات میں کوئی رکاوٹ نہیں آنی چاہیے اور کسی بھی قسم کے حالات مذاکرات پر اثر انداز نہیں ہونے چاہییں، وہ اسے uninterrupted and uninterruptibleڈائیلاگ کا نام دیتے ہیں۔

مانی شنکر آئیر کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے مداخلت روکنا ہوگی، جنوری 2004میں وزیر اعظم واجپائی اور صدر مشرف کے مابین جو مذاکرات شروع ہوئے تھے اس میں صدر مشرف نے یہ کہا تھا اور جو ریکارڈ پر موجود ہے کہ وہ بھارت کے خلاف دہشت گردی کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ان کے خیال میں ان مذاکرات کو جاری رکھنے کے لیے پاکستان کی ذمے داری اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اسے اپنا یہ وعدہ پورا کرنا ہوگا۔ مانی شنکر آئیر کا کہنا تھا کہ وہ کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں اور ان کی پارٹی نے بھی ان کی رکنیت معطل کررکھی ہے، اس کے باوجود وہ یہ خواہش رکھتے ہیں کہ مذاکرات کا عمل جاری رکھا جائے، اسی سے کشیدگی میں کمی آئے گی۔

 

 

 

بھارت کی بعض حلقوں کی جانب سے یہ بات بھی کی جاتی ہے کہ پاکستان کو پہلے دہشت گردی پر قابو پانا چاہیے اس کے بعد مذاکرات کی بات ہونی چاہیے، اس کے جواب میں مانی شنکر آئیر کا خیال ہے کہ گفت و شند کے عمل کو مشروط نہیں کیا جاسکتا، دونوں ممالک کو اپنی ذمے داری بہرحال اداکرنی ہوگی، مداخلت کے الزامات دونوں جانب سے ہیں، میں نہیں چاہتا کہ کسی ایک کو پہلے پابند کرنے پر اصرار کیا جائے۔ دونوں کو یکساں سطح پر اقدامات کرنے چاہییں۔ مانی شنکر آئیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حافظ سعید اور مسعود اظہر بھارت کے خلاف عزائم رکھتے ہیں، باقی لوگ تو بات کرنا چاہتے ہیں، اس لیے بڑی سطح پر تو یہ مسئلہ حل ہوچکا ہے۔

 

 

 

مانی شنکر آئیر نے کراچی لٹریچر فیسٹول میں شرکت کو یاد گار تجربہ قرار دیا۔ فیسٹول کے شرکاءکی جانب سے ملنے والی پذیرائی کا بھی بارہا تذکرہ کیا لیکن ساتھ ہی وہ یہ باور کرواتے رہے کہ وہ انفرادی حیثیت میں کراچی آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے فیسٹولز کا اصل مقصد تو دونوں ممالک میں جو کچھ لکھا جارہا ہے اس پر بات کرنا ہوتا ہے، پاک بھارت تعلقات اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ جو لوگ امن کی خواہش رکھتے ہیں، انھیں اظہار کے لیے یہ تقاریب مواقع فراہم کرتی ہیں۔ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ لٹریچر فیسٹول بنیادی طور پر لٹریچر کے لیے ہے۔ اگر اس سرگرمی کا ہماری سفارت کاری پر بھی کوئی اثر بڑتا بھی ہے تو وہ محدود نوعیت ہی کا ہوگا۔

 

 

فیسٹول میں اپنی مختلف تقاریر، میڈیا اور عام لوگوں سے بات چیت کے دوران مانی شنکر نے پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں کوئی ایسی بات نہیں کی جسے براہ راست پاکستانی موقف کی تائید قرار دیا جاسکے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے وہ بیک ڈور سفارت کاری کے نتیجے میں سامنے آنے والے چار نقاطی ایجنڈے پر عمل درآمد کے مشورے کو دہراتے رہے۔ انہیں پاکستان میں کلبھوشن یادیو اور کشمیر میں جاری بھارتی فوج کے مظالم سمیت کئی کڑے سوالوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کے اپنے ملک بھارت میں ، پاکستان سے متعلق ان کی گفتگو کو نرم گفتاری قرار دیا گیا اور انہیں سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

بشکریہ :روزنامہ ۹۲ نیوز سنڈے میگزین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے