… کہ ’’ہاکنگ‘‘ مرگیا پر یاد آتا ہے!

آج صبح سویرے جو پہلی خبر ملی، وہ معروف برطانوی سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ کے مرنے کی تھی… اور یہ خبر سنتے ہی میرا ذہن آج سے اٹھائیس سال پہلے، 1990 میں پہنچ گیا۔

لیکن اپنی یادیں کھنگالنے سے پہلے کچھ اور باتیں بتانا چاہوں گا۔ اسٹیفن ہاکنگ کی تاریخِ پیدائش 8 جنوری 1942 ہے، جس سے ٹھیک 300 پہلے، 8 جنوری 1642 کے روز، مشہور سائنسداں گیلیلیو گیلیلی کا انتقال ہوا تھا۔ اسی طرح اکیسویں صدی کا عظیم ترین سائنسداں، البرٹ آئن اسٹائن، آج سے ٹھیک 139 سال پہلے، 14 مارچ 1879 کے روز پیدا ہوا تھا۔ یعنی اسٹیفن ہاکنگ کی پیدائش سے لے کر وفات تک کی تاریخوں میں دلچسپ اتفاقات ملتے ہیں۔

اب آئیے 28 سال پہلے کے واقعے کی طرف، جس کا تذکرہ میں نے ابتدائی سطور میں کیا تھا۔

اُن دنوں اسٹیفن ہاکنگ کی ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ کے چرچے، چار دانگ عالم میں تھے اور یہ ناچیز اُن دنوں ماہنامہ ’’سائنس میگزین‘‘ سے بطور نائب مدیر وابستہ تھا۔ استادِ محترم سیّد قاسم محمود نے سائنس میگزین کے سائز میں ایک بار پھر تبدیلی کی تھی اور اسے کتابی جسامت پر لے آئے تھے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے سائنس میگزین میں چار مشہور سائنسی کتابوں کے اُردو تراجم، قسط وار شائع کرنے کا فیصلہ بھی کیا تھا۔

ان ہی میں سے ایک، اسٹیفن ہاکنگ کی ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ بھی تھی۔ ایک صاحب، جو غالباً گوجرانوالہ میں مقیم تھے، اس کتاب کے ایک ایک باب کا اُردو ترجمہ کرکے ارسال کر رہے تھے جو قسط وار شکل میں سائنس میگزین کے صفحات کی زینت بن رہا تھا۔ مذکورہ ترجمے کا عنوان ’’مختصر تاریخ زمان و مکاں‘‘ تھا اور سیّد صاحب نے اس کی ادارت و درستی کی ذمہ داری میرے کاندھوں پر ڈال دی تھی۔ چند قسطیں درست کرنے کے بعد میں نے استادِ محترم سیّد قاسم محمود سے درخواست کی کہ اس کتاب کے اُردو ترجمے میں بہت زیادہ تبدیلیاں کرنی پڑ رہی ہیں جس میں بہت وقت ضائع ہورہا ہے۔ اس لیے بریف ہسٹری آف ٹائم کا اُردو ترجمہ کرنے کی پوری ذمہ داری مجھے سونپ دی جائے اور بیرونی مترجم کو مزید ابواب بھیجنے سے منع کردیا جائے۔

سیّد صاحب نے میری اس خواہش کا پاس رکھا اور یوں اس کتاب کے مزید ابواب کا ترجمہ اسی ناچیز نے کیا۔ سائنس میگزین میں اس کتاب کا اردو ترجمہ مکمل شائع نہ ہوا تھا کہ مجھے بی ایس سی آنرز (فزکس) میں اپنی بڑھتی ہوئی تعلیمی مصروفیات کے باعث سائنس میگزین کو خیرباد کہنا پڑا۔ البتہ، سیّد صاحب کے حکم پر میں نے ترجمہ جاری رکھا لیکن مزید ابواب کی سائنس میگزین میں اشاعت روک دی گئی۔ بالآخر، جولائی 1992 میں، اس کتاب کا اُردو ترجمہ نہ صرف مکمل ہوگیا بلکہ لے آؤٹ اور اشاریئے (انڈیکس) سمیت، اشاعت کےلیے تیار بھی ہوگیا۔

اسے ’’شومئی قسمت‘‘ کہیے یا کچھ اور، لیکن اس ترجمے کی اشاعت تاخیر در تاخیر کا شکار ہوتی رہی اور چند ماہ بعد اسی کتاب کا اُردو ترجمہ ’’وقت کا سفر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوگیا جسے ناظر محمود صاحب نے کیا تھا… اور اسی کے ساتھ سیّد صاحب نے بھی پہلے سے تیار ترجمہ شائع کرنے کا ارادہ ترک کردیا۔ اور پھر، بھلا ہو گردشِ ایّام کا، ترجمے کا قلمی مسودہ بھی سیّد صاحب سے کہیں ’’گم‘‘ ہوگیا اور مجھے غیر مطبوعہ (لیکن اشاعت کےلیے تیار) صفحات کا دیدار بھی نصیب نہ ہو پایا۔

اس سب کے باوجود، مجھے یہ اعتراف کرنے میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں ہوئی کہ آنجہانی اسٹیفن ہاکنگ کا نام اُن غیرملکی مصنفین میں شامل ہے جن سے میں اپنی پوری زندگی میں کبھی نہیں ملا لیکن اُن سے سیکھنے کو مجھے بہت کچھ ملا۔ ایسے ہی دوسرے ناموں میں کارل ساگان، پال ڈیویز، جان گریبن، سر مارٹن رِیس، ڈیوڈ ڈچ، میشیو کاکو، تھامس کہن، سمیر اوکاشا اور جے ڈی واٹسن وغیرہ شامل ہیں۔ اپنے سائنسی فہم و شعور کےلیے اپنے اساتذہ کے ساتھ ساتھ میں ایسے درجنوں افراد کا ممنونِ احسان ہوں۔

چلتے چلتے اتنا اضافہ کردوں کہ بریف ہسٹری آف ٹائم، بیسویں صدی کی 100 اہم ترین سائنسی کتب میں بھی شامل ہے جبکہ وہ افراد جو سائنسی صحافت اور عوامی سائنسی ابلاغ (پبلک کمیونی کیشن آف سائنس) کا شوق رکھتے ہیں، ان کےلیے بھی اس کتاب کا مطالعہ لازمی قرار دیا جاتا ہے۔

آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت اسٹیفن ہاکنگ کی شخصیت اور خدمات پر (غلط یا صحیح) معلومات آپ کو جگہ جگہ مل جائیں گی۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوچکا ہوگا کہ وہ 21 یا 22 سال کی عمر میں ’’اے ایل ایس‘‘ نامی ایک اعصابی بیماری (موٹر نیورون ڈزیز) میں مبتلا ہوگئے تھے اور ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ وہ چند مہینے ہی زندہ رہ پائیں گے۔

بیماری نے انہیں ساری زندگی کےلیے وہیل چیئر تک محدود کردیا تھا لیکن انہوں نے 55 سال تک نہ صرف پامردی سے اس بیماری کا مقابلہ کیا بلکہ، اپنا پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد، دنیا کے مشہور سائنسدانوں میں نمایاں مقام بھی حاصل کیا۔

آپ غالباً یہ بھی پڑھ چکے ہوں گے کہ اسٹیفن ہاکنگ کا تحقیقی کام ’’بلیک ہولز‘‘ اور ’’کونیات‘‘ (کوسمولوجی) کے میدان میں تھا، لیکن کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ اس کام کی نوعیت کیا تھی۔

اسٹیفن ہاکنگ نے نہ تو بلیک ہولز دریافت کیے تھے اور نہ ان کے موجود ہونے کی پیش گوئی ہی کی تھی۔ (بلیک ہولز کی پیش گوئی 1930 کے عشرے میں نوجوان ہندوستانی سائنسداں، سبرامانیئن چندراشیکھر نے کی تھی جسے اُس زمانے کے معتبر ترین ماہرِ طبیعیات، سر آرتھر ایڈنگٹن نے بڑی حقارت سے مسترد کردیا تھا۔)

البتہ، اسٹیفن ہاکنگ کی تحقیق کا زیادہ تعلق اس بات سے رہا کہ بلیک ہولز سے کسی قسم کی شعاعیں خارج ہوتی بھی ہیں یا نہیں۔ 1970 کے عشرے میں کوانٹم میکانیات اور آئن اسٹائن کے عمومی نظریہ اضافیت کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے (جو آج بھی بہت مشکل کام ہے)، اسٹیفن ہاکنگ نے بتایا کہ بلیک ہولز کے ’’قطبین‘‘ سے مسلسل کچھ نہ کچھ اشعاع (ریڈی ایشن) کا اخراج ہوتا رہتا ہے؛ اور اسی کے نتیجے میں، آخرکار، بلیک ہولز بھی دھماکے سے پھٹ پڑتے ہیں۔ ان اشعاع کو آج ’’ہاکنگز ریڈی ایشنز‘‘ کہا جاتا ہے۔

وسیع تر سائنسی شعبے ’’نظری طبیعیات‘‘ (تھیوریٹیکل فزکس) کے تحت آنے والے اس اہم کام میں ایک اور مشہور برطانوی سائنسداں، راجر پنروز بھی اسٹیفن ہاکنگ کے ابتدائی شریکِ کار تھے۔

سائنسی حلقوں کےلیے یہ خیال بہت حیران کُن تھا کیونکہ اس سے پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ بلیک ہولز سے ’’کچھ بھی‘‘ خارج نہیں ہوتا اور جو چیز بھی کسی بلیک ہول میں گرتی ہے، وہ ہمیشہ ہمیشہ کےلیے وہیں پر قید ہو کر رہ جاتی ہے؛ چاہے وہ روشنی ہی کیوں نہ ہو۔
بلیک ہول کی حد یعنی ’’واقعاتی اُفق‘‘ (ایونٹ ہورائزن) وہ مقام ہے جسے عبور کرتے ہی سائنس (طبیعیات) کے تمام قوانین جواب دے جاتے ہیں اور ان کی متعلقہ مساوات بھی ناکارہ ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اسی لیے سائنسی بنیادوں پر ہم ہر گز یہ نہیں بتا سکتے کہ ایک بلیک ہول کے ’’اندر‘‘ کیا ہے؟ اس کے باوجود، بلیک ہولز سے ممکنہ طور پر اشعاع کے اخراج کی پیش گوئی بجا طور پر اسٹیفن ہاکنگ کے اہم کارناموں میں سے ایک ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ کو شرطیں لگانے کا بھی بہت شوق تھا، اور بالعموم وہ کسی ایسے سائنسی نکتے یا پیش گوئی کے مخالف شرط لگاتے جس کے درست ہونے پر انہیں پورا یقین ہوتا۔ مثلاً انہوں نے 1975 میں امریکی سائنسداں کِپ تھورن سے شرط لگائی کہ ’’سائگنس ایکس ون‘‘ نامی ایک ستارے میں (جس سے طاقتور ایکسریز خارج ہوتی دیکھی گئی ہیں)، کوئی بلیک ہول پوشیدہ نہیں، حالانکہ انہیں مذکورہ مقام پر بلیک ہول کے پوشیدہ ہونے کا پورا یقین تھا۔ 1990 میں ہاکنگ یہ شرط ہار گئے لیکن اُن کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی، یعنی وہ ہار کر بھی جیت گئے۔
اسی طرح 1997 میں اسٹیفن ہاکنگ نے کِپ تھورن اور جون پریسکل سے شرط لگائی کہ بلیک ہولز سے خارج ہونے والی اشعاع (ہاکنگز ریڈی ایشنز) میں کوئی ’’اطلاعات‘‘ نہیں ہوتیں۔ یعنی ہاکنگز ریڈی ایشنز کا تجزیہ کرکے ہم کسی بھی صورت میں یہ نہیں بتا سکتے کہ کسی بلیک ہول میں موجود (یا اس میں گر جانے والی) چیزوں کی ماہیئت کیسی تھی۔ 2004 میں ہاکنگ نے اس شرط میں بھی اپنی شکست تسلیم کی کیونکہ وہ (اپنی تحقیق کی روشنی میں) یقین رکھتے تھے کہ بلیک ہولز سے خارج ہونے والی اشعاع کی مدد سے ہم یہ پتا چلا سکتے ہیں کہ اس میں کیا موجود تھا اور کیا کچھ مزید گرچکا ہے۔

اپنی جسمانی معذوری لیکن جواں ہمتی کے باعث اسٹیفن ہاکنگ کو پہلے ہی شہرت حاصل تھی اور وہ متعدد بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کرچکے تھے، لیکن ہاکنگ کی شہرت زیادہ تر سائنسی حلقوں تک ہی محدود تھی۔ پھر، غالباً 1985 یا 1986 میں، ایک برطانوی ناشر نے ہاکنگ سے رابطہ کرکے انہیں قائل کیا کہ طبیعیات (بالخصوص کونیات) میں جن اہم موضوعات پر تحقیق ہورہی ہے، انہیں عام فہم اور دلچسپ انداز میں پیش کیا جائے۔ اس طرح اسٹیفن ہاکنگ نے وہ کام شروع کیا جس نے انہیں لازوال شہرت عطا کی۔

اور یوں 1988 میں ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ کے عنوان سے اسٹیفن ہاکنگ کی وہ پہلی سائنسی کتاب شائع ہوئی جو سائنس کا شوق رکھنے والے عام قارئین کےلیے تھی؛ اور جس نے شہرت و مقبولیت کی وہ منزل حاصل کی جو شاید اس سے پہلے کسی اور سائنسی کتاب کے حصے میں نہیں آئی تھی۔ اعداد و شمار کے مطابق، 2008 تک ’’اے بریف ہسٹری آف ٹائم‘‘ دنیا بھر میں ایک کروڑ سے زیادہ کی تعداد میں فروخت ہوچکی تھی، جو ایک غیرمعمولی ریکارڈ ہے۔ (تراجم کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔)

اس کے بعد اسٹیفن ہاکنگ کی زندگی میں ایک نیا دور شروع ہوا جس کا تعلق سائنس کو عام فہم، آسان اور دلچسپ بنانے سے تھا۔ سائنس کا شوق رکھنے والے قارئین انتظار کرنے لگے کہ اسٹیفن ہاکنگ کی کوئی نئی کتاب کب شائع ہوگی اور وہ اسے پڑھیں گے۔

1993 میں ہاکنگ کی دوسری کتاب ’’دی بگ بینگ اینڈ بلیک ہولز‘‘ شائع ہوئی جو ماہرین کےلیے تھی جبکہ عام قارئین کےلیے ہاکنگ کی ایک اور کتاب ’’بلیک ہولز اینڈ بے بی یونیورسز‘‘ شائع ہوئی، لیکن وہ بریف ہسٹری آف ٹائم جیسی کامیابی حاصل نہ کرسکی۔ آٹھ سالہ وقفے کے بعد، 2001 میں، اسٹیفن ہاکنگ کی ایک اور تصنیف ’’دی یونیورس ان اے نٹ شیل‘‘ اشاعت پذیر ہوئی جسے قارئین اور ناقدین نے بہت پسند کیا۔ اسے بریف ہسٹری آف ٹائم کا دوسرا حصہ بھی قرار دیا گیا۔

2002 میں ہاکنگ نے سائنسی تاریخ کا احاطہ کرتی ہوئی تحریروں کا مجموعہ ’’آن دی شولڈرز آف جائنٹس‘‘ مرتب کیا جس میں اپنی جانب سے تبصروں کا اضافہ بھی کیا۔ البتہ، اس کتاب کو کچھ خاص پذیرائی نہ مل سکی۔ اسی سال اسٹیفن ہاکنگ کی ’’تھیوری آف ایوری تھنگ‘‘ شائع ہوئی جو عملاً بریف ہسٹری آف ٹائم ہی تھی؛ لیکن پھر بھی نئے پڑھنے والوں نے اسے بہت پسند کیا۔

اسی کے ساتھ اسٹیفن ہاکنگ کی سمجھ میں یہ بات بخوبی آگئی کہ انہیں اپنی ہر کتاب کی کامیابی کےلیے بریف ہسٹری آف ٹائم کی لازوال شہرت سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ شاید اسی سوچ کے تحت انہوں نے 2005 میں ’’اے بریفر ہسٹری آف ٹائم‘‘ شائع کروائی جس میں ان کے شریک مصنف لیونارڈ ملوڈینوو تھے۔ اپنے نام کی وجہ سے یہ کتاب بھی مقبول ہوئی۔

اے بریف ہسٹری آف ٹائم کے پیش لفظ میں اسٹیفن ہاکنگ نے (طنزاً) لکھا تھا کہ اگر آپ اپنی کتاب میں صرف ایک ریاضیاتی مساوات بھی شامل کرتے ہیں تو اس کی متوقع تعدادِ فروخت آدھی کردیتے ہیں جبکہ لفظ ’’خدا‘‘ کا استعمال، اس کتاب کی تعدادِ فروخت دوگنی کرنے کا باعث بنتا ہے۔ لیکن مکافاتِ عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2005 میں اسٹیفن ہاکنگ کی ایک تالیف کا عنوان ’’گاڈ کری ایٹڈ دی انٹیجرز‘‘ (خدا نے صحیح اعداد تخلیق کیے) تھا۔ بنیادی طور پر یہ ہاکنگ کا ذاتی کام نہ تھا بلکہ اس میں ریاضیاتی تاریخ کی 31 اہم ترین تحریریں یکجا کی گئی ہیں۔ ہاکنگ نے اسی طرز کے عنوان والی ایک کتاب ’’دی گرینڈ ڈیزائن‘‘ شائع کروائی جو اپنے عنوان کے اعتبار سے گمراہ کن تھی کیونکہ اس میں کائنات کی تخلیق اور ارتقاء سے متعلق مختلف تصورات پر بات کی گئی تھی۔

البتہ، نئی نسل کو دلچسپ اور افسانوی انداز میں سائنس سے روشناس کرانے کےلیے اسٹیفن ہاکنگ نے ایک اور منفرد کام کیا: انہوں نے لگ بھگ 2007 میں ایک کردار ’’جارج‘‘ تخلیق کیا۔ یہ ایک ایسا بچہ تھا جو کائنات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے اور (کہانی میں) خلائی سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب ’’جارجز سیکرٹ کی ٹو دی یونیورس‘‘ 2008 میں شائع ہوئی جبکہ 2016 تک اس سلسلے کی 5 کتابیں شائع ہوچکی تھیں۔

اگرچہ اب بھی بہت کچھ لکھنا باقی ہے لیکن اس سے پہلے کہ ذہین اُردو داں طبقہ میری اس ’’سائنسی بکواس‘‘ سے ’’بور‘‘ ہوجائے، میں اپنا قلم روکتا ہوں کیونکہ ہم وہ قوم بن چکے ہیں جسے کسی کے مرنے یا جینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہاں! اگر کوئی فرق پڑتا ہے تو بھارت کے ہاتھوں کرکٹ میچ ہارنے سے، انٹرنیٹ پر لڑکی کے آنکھ مارنے سے، بالی ووڈ سے، ہالی ووڈ سے… غرض ہر اس چیز سے جس کا شمار ’’خرافات‘‘ میں کیا جاتا ہے۔

لیکن میرے نزدیک یہ بات کسی سانحے سے کم نہیں کہ ہاکنگ مرگیا، ایک بڑا سائنسداں اس دنیا سے چلا گیا، سائنس کو مقبولِ عام بنانے والی ایک اہم ہستی اس دنیا سے رخصت ہوگئی… کسی اور کو فرق پڑے یا نہ پڑے، مجھے تو ضرور پڑا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے