امریکی انتخابات میں مداخلت: روس کے خفیہ ادارے سمیت 19 پر پابندی

واشنگٹن: امریکا کے صدارتی انتخابات میں مداخلت اور سائبر حملوں کے الزام میں ماسکو انٹیلی جنس سروس سمیت 19 روسی شہری اور 5 گروپس پابندیوں کی زد میں آگئے۔

ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا کہ امریکی کانگریس کے رکن اور سیکریٹری خزانہ اسٹیو میونچ نے کہا کہ اضافی پابندیوں کا دائرہ روسی حکومت کے حکام اور بعض افراد تک بڑھایا جا سکتا ہے جنہوں نے ’اداروں کو غیر مستحکم‘ کرنے کی کوشش کیں۔

اسٹیومیونچ نے پابندیوں پر عمل درآمد کے حوالے سے کوئی ٹائم فریم نہیں دیا تاہم انہوں نے کہا کہ 19 روسی شہریوں کو امریکی تجارتی امور تک رسائی حاصل نہیں ہو سکے گی۔

سیکریٹری خزانہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’امریکی انتظامیہ کو روس کی جانب سے مذموم سائبر حملوں، انتخابات میں مداخلت اور حساس نوعیت کی معاملات میں پریشانی کا سامنا ہے‘۔

واضح رہے کہ امریکی خفیہ اداروں نے 2016 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت کی تصدیق کی تھی جس سے امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو فائدہ پہنچا تھا جبکہ روس الزامات کو بے بنیاد قرار دیتا رہا ہے۔

روسی انٹیلی جنس سروس، فیڈرل سیکیورٹی سروس (ایف ایس بی) اور مین انٹیلی جنس ڈائریکریٹ (جی آر یو) سمیت چھ دیگر ادارے امریکی پابندیوں کا شکار ہوئے ہیں۔

پابندیوں کاشکار افراد اور ادارے امریکا کی حدود اور امریکی شہریوں سے کسی بھی قسم کا لین دین نہیں کر سکیں گے۔

سائبر حملوں سے متعلق امریکا کے سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ ’روسی سائبر حملے نوٹپیٹیکا سے امریکا، ایشیاء اور یورپ کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچا تھا‘۔

اس سے قبل امریکا اور برطانیہ نے مذکورہ سائبر حملہ روسی ملٹری کا کارنامہ قرار دیا تھا۔

اسٹیومیونچ نے بتایا کہ ’روسی حکومت کے سائبر حملہ آوار مارچ 2016 سے امریکا کے توانائی، نیوکلیئر، کمرشل اداروں، پانی، ہوا بازی اور حساس اشیاء کی تعمیرات کرنے والے اداروں پر حملہ کررہے ہیں‘۔

امریکی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ روس نے اپنے جاسوس امریکا کے شعبہ توانائی میں داخل کیے ہیں تاہم ان کی نشاندہی کا عمل جاری ہے‘۔

واضح رہے کہ امریکا کی ڈیموکریٹکس اور ری پبلکن پارٹیوں نے متفقہ طور پر گزشتہ موسم گرما میں پابندیوں کا بل پاس کیا اور ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید بھی کی تھی کہ وہ ماسکو پر دباؤ نہیں ڈال رہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے رواں برس جنوری تک روس پر پابندیوں کا اعلان نہیں کیا تھا لیکن اب وہ قانون کے تحت پابند ہوگا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے