کشمیری عسکریت، عبدالمجیدڈاراورصلاح الدین

جولائی ۲۰۰۰ ؁ء میں حزب نے سیزفائر کا اعلان کیا تھا۔اس سیز فائر کا اعلان حزب المجاہدین کے سابق چیف آپریشنل کمانڈر عبدالمجید ڈار نے کیا تھا۔بعد ازاں اس سیزفائر کو عبدالمجید ڈارکے کردارسمیت متنازع بنانے کی کوشش کی گئی۔ حزب کی جنگ بندی کے فیصلے کے پیچھے کی کیا کہانی تھی ؟اس فیصلے کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟ سب سے بڑھ کر اس جنگ بندی کی منصوبہ بندی کہاں ہوئی کس طرح ہوئی؟ اس میں کون کون لوگ شامل تھے؟ اس پر بات آگے چل کرہوگی۔ لیکن پہلے عبدالمجید ڈار کے نظریات اورتحریکی کردارکے پس منظر پر سرسری نگاہ ڈالنا مقصود ہے۔

عبدالمجیدڈار کا جنم ۱۹۵۵ میں ضلع بارہمولہ کی تحصیل سوپور میں ہوا اور یہیں سے انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔انٹر کرنے کے بعد نامساعد حالات کی وجہ سے وہ اپنا تعلیمی سفر جاری نہ رکھ سکے اور جماعت اسلامی کے اس وقت کے معروف اخبار (اذان) سے منسلک ہوئے۔جماعت اسلامی کے نظریاتی نقطہ نظر اوربالخصوص جماعت اسلامی کے لٹریچر نے ڈار صاحب کے ذہن و قلب پر گہرے اثرات مرتب کئے۔

عبدالمجید ڈار کا جنم ۱۹۵۵ میں ضلع بارہمولہ کی تحصیل سوپور میں ہوا

۷۵۔۱۹۷۴ میں جب اندرا عبداللہ اکارڑ پر دستخط ہوئے تو جموں وکشمیر کے طول عرض میں عوامی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔جماعت اسلامی نے سید علی شاہ گیلانی کی قیادت میں ایک مضبوط موقف اختیار کیا ۔گیلانی صاحب اس وقت ریاستی اسمبلی کے ممبر تھے اور انہوں نے احتجاجی تحریک کو منظم کرنے کے لئے جماعت کے ہی دiے گئے روڈ میپ پر اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔یہ وہ وقت تھا جب جماعت اسلامی کی قیادت نے شیخ محمدعبداللہ کے خلاف اپنی سیاسی جدوجہد کاعملاًاور بھرپورآغاز کیا۔اس احتجاجی تحریک میں گیلانی صاحب کا سیکٹری ہونے کے طور پرعبدالمجید ڈار کا اہم کردار رہا۔

۱۹۸۷میں میں مسلم متحدہ محاذ بنا اور انتخابات میں حصہ لینے کے لئے عبدالمجید ڈار مسلم متحدہ محاز کی جنرل کونسل کے ممبر منتخب ہوئے۔ڈار صاحب کو مسلم متحدہ محاز کی انتخابی سرگرمیوں کے لئے سوپور کی نوجوان نسل کو متحرک کرنے کا کام سونپاگیا۔وہ مسلم متحدہ محاز کے امیدوارتو نہیں تھے لیکن تحصیل سوپور میں مسلم متحدہ محاز کے مضبوط حامی سمجھے جاتے تھے۔۱۹۸۷ کے انتخابات کے سلسلے میں سوپور میں گیلانی صاحب کی ہر جلسے کی ذمہ داری اٹھانے اور لوگوں کو منظم کرنے والوں میں ڈار صاحب کا کلیدی کردار تھا۔ڈار صاحب کو جماعت اسلامی کے سابق امیر غلام احمد بٹ کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل تھی۔

ان انتخابات میں ریکارڑ دھاندلی اورجعلی نتائج کی صورت میں کامیاب امیدواروں کو بھی ناکام قرار دیا گیا، جن میں حزب المجاہدین کے موجودہ امیر سید صلاح الدین بھی شامل تھے۔انتخابی نتائج کے دوران پولنگ ایجنٹوں کو گرفتار اور مسلم متحدہ محاز کے بیشتر امیدواروں پرتشدد کرکے جیل بھیج دیا گیا۔سوپورمیں پولیس اور سیکورٹی ایجنسیوں کا نشانہ عبدالمجید ڈار اور ان کے ساتھی تھے۔ڈار صاحب کچھ عرصہ زیرزمین رہے لیکن بالآخر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ گرفتار ہوئے۔

انتخابی دھاندلیوں کے نتیجے میں کشمیر کا پورا سیاسی ماحول تبدیل ہوگیا۔انہی دنوں جیل سے رہائی پانے والے اور زیر زمین لوگوں نے مل کر مسلح تحریک شروع کرنے کا منصوبہ ترتیب دیا۔کیونکہ بھارتی حکومت اور بھارت کی تجویز کردہ ریاستی حکومت نے سیاسی جدوجہد کرنے والوں کے تمام راستے محدود کردیے تھے۔رہائی پانے والے اور زیرزمین رہنے والوں میں کچھ لوگ افغانستان چلے گئے جبکہ کچھ نے مسلح گروپوں کو متحرک کرنے کا کام ذمہ لے لیا۔مسلح گرپوں میں شامل اور اس کی حمایت کرنے والوں کے گھروں پر بھارتی سیکورٹی فورسز نے چھاپے مارنا شروع کئے اور وحشیانہ تشدد کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہوا۔

عبدالمجید ڈار جب جیل سے باہر آئے تو ان کے پاس دو راستے تھے ۔ایک بھارتی فورسز کے ہاتھوں ظلم وزیادتیوں کا نشانہ بنے رہنا یا مسلح تحریک میں شامل ہوکر اپنے دیگر ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانا۔کچھ عرصہ وہ اپنے دوست،احباب اور رشتہ داروں کے ہاں چھپے رہے لیکن جب بھارتی فورسز نے ان کے گرد گھیرا تنک کرنا شروع کردیا تو ڈار صاحب نے پہلی مرتبہ اس وقت کی سب سے بڑی عسکری تنظیم تحریک جہاداسلامی میں شمولیت اختیار کی۔بھارتی فورسز نے لگا تار ان کے گھر کا ایک ہفتہ محاصرہ کئے رکھا۔اس دوران ان کے گھروالوں کو شدید زدوکوب کیاگیا۔تحریک جہاد اسلامی میں شمولیت کے بعد مسلح تحریک کو تیز کرنے میں ان کا فعال کردار رہا۔یہیں سے عبدالمجید ڈار کا عسکری سفر شروع ہوا۔

نوے کی دہائی میں جب جموں وکشمیر کے طول وعرض میں متعددعسکری تنظیموں کی موجودگی میں مسلح جدوجہد اپنے زوروں پر تھی ۔ تحریک جہاد اسلامی عسکری تنظیموں میں سے افرادی قوت کے اعتبار سے سب سے بڑی اور فعال تنظیم کے طور پر اپنا کام سرانجام دے رہی تھی۔عبدالمجید ڈار اُس وقت تحریک جہاد اسلامی اور جنوبی کشمیر کے معروف عسکری کمانڈر کی حیثیت سے جانے اور مانے جاتے تھے۔حزب المجاہدین کومعرض وجود میں لانے اور اس کا دائرہ کار پوری وادی اور وادی سے باہر علاقوں تک بڑھانے کے لئے حزب کی اعلٰی قیادت نے عبدالمجید ڈار تک رسائی کو ضروری سمجھا ۔حزب کے اس وقت کے سرپرست اعلٰی شمس الحق شہید اورحزب کے اُس وقت چیف کمانڈرمحمد احسن ڈارنے عبدالمجید ڈار کواپنے نظریاتی اور عسکری منصوبہ بندی کے بارے بتایا ۔

عبدالمجید ڈار اور حزب کے نظریات کچھ ذیادہ مختلف نہ ہونے کی وجہ سے تحریک جہاد اسلامی اور حزب المجاہدین کے انضمام کی کوششیں شروع ہوئیں جو بالآخربارآور ثابت ہوئیں۔دونوں تنظیموں کے انضمام کے بعد حزب المجاہدین کو وادی کے اندر اور باہر اپنا دائرہ کار پھیلانے میں کوئی مشکلات پیش نہیں آئی۔ڈارصاحب کاتحریک جہاد اسلامی کوحزب میں ضم کرنے کا فیصلہ نہایت ہی بڑا اور دشوار فیصلہ تھا اور تحریک جہاد اسلامی کے بیش تر قائدین عبدالمجید ڈار کے اس فیصلے سے نالاں تھے ۔یہاں تک کہ بیشتر لوگوں نے اس انضمام کے بعداپنے آپ کو عسکریت سے لاتعلق بھی کیا۔لیکن عبدالمجید ڈار کی کچھ لوگوں سے کمٹمنٹ اور تحریک کے وسیع تر مفاد نے انہیں ایسا کرنے سے نہیں روکا۔

تحریک جہاد اسلامی اور حزب المجاہدین کو آپس میں ضم کرنے کی تقریب میں سید صلاح الدین کو کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔دونوں تنظیموں کے انضمام کے بعد عبدالمجید ڈار کی قیادت میں ہزاروں مسلح نوجوانوں نے ۲۳مارچ یعنی آج ہی کے دن جب ایک طرف پاکستان بھرمیں یوم دفاع پاکستان منایا جارہا تھاسوپور کے مضافات میں پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہرایا۔

اس کے دو سال بعد ہی۱۹۹۳میں جب عبدالمجید ڈار بیس کیمپ یعنی آذاد کشمیر تشریف لائے تو اس وقت بیس کیمپ کی ذمہ داری غلام محمد صفی سرانجام دے رہے تھے۔جو پاکستان میں آج کل حریت کانفرنس سید علی شاہ گیلانی کے دھڑے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ڈار صاحب کے بیس کیمپ پہنچنے کے بعد انہیں غلام محمد صفی کی جگہ بیس کیمپ کی ذمہ داری سونپی گئی۔

۱۹۹۴ میں جب سید صلاح الدین کو حزب کا سپریم کمانڈر مقرر کیا گیاتو ڈار صاحب کو حزب المجاہدین کے ایڈوائزرجنرل کا عہدہ دیا گیا۔۱۹۹۶ میں عبدالمجید ڈار کو ایک مرتبہ پھر حزب نے جموں وکشمیر میں اپنا دائرہ کار اور مسلح کاروائیاں تیز کرنے کے لئے فیلڈ کمانڈر کی حیثیت سے آپریشنز کی ذمہ داری دی اور انہوں نے ہمیشہ کی طرح حزب کی اعلٰی قیادت کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اپنا کام بخوبی انجام دیا۔

۱۹۹۷ میں ڈار صاحب کو حزب کی اعلٰی قیادت نے واپس بیس کیمپ بلا لیا اوروہ دوسال سے زائد عرصے تک بیس کیمپ میں ہی رہے۔۲۰۰۰ میں آخری دفعہ جب عبدالمجید ڈار بطور چیف آپریشنل کمانڈر حزب المجاہدین وادی میں وارد ہوئے تو ان کے جنگ بندی کے اعلان نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ڈار صاحب کے متعلق شکوک و شبہات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ڈار صاحب کی انتہائی کوششوں کے باوجود وہ لوگ حزب کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوئے جو عبدالمجید ڈار کو واپس بیس کیمپ میں نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔

ایسے کئی خود ساختہ کمانڈر جو آج کل یا تو فلاحی کاموں میں لگے ہوئے ہیں یا تجارتی سرگرمیوں میں مصروف ہیں اس وقت دن کی روشنی میں صلاح الدین کے سامنے عبدالمجید ڈار کی برائیاں کرتے تھے اور رات کے اندھیرے میں عبدالمجید ڈار کے ساتھیوں کو صلاح الدین کے خلاف بڑھکاتے تھے۔جنگ بندی کے تناو کے بعد ان ہی خودساختہ رہنماوں جو اکثر و بیشتر سید صلاح الدین صاحب کے ارد گرد نظر آتے تھے نے ایسا الجھاو اور افراتفری پیدا کی جو بالآخر عبدالمجید ڈار اور ان کی پوری ٹیم جن میں حزب کے اس وقت کے ترجمان شہید مسعود تانترے،ڈویژنل کمانڈرشمالی کشمیر ڈاکٹر اسد یزدانی،ڈویژنل کمانڈر جنوبی کشمیرفاروق مرچال شہید،ڈویژنل کمانڈر سنٹرل کشمیر ظفر فتح اور دیگر اہم کمانڈر وں کے اخراج پر ختم ہوئی۔

جنگ بندی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے حزب المجاہدین کی صفوں میں شامل لوگوں اور اس کی اعلٰی قیادت کے ذہنوں میں ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کنفیوژن پیدا کیا گیاکہ جنگ بندی کا فیصلہ عبدالمجید ڈارکا ذاتی فیصلہ تھا۔جبکہ سید صلاح الدین نے نہ صرف میڈیا کے ذریعے جنگ بندی کے فیصلے کو حزب کی حکمت عملی کا حصہ قرار دیا بلکہ وہ اپنی نجی محفلوں میں اس بات کا برملا اعتراف کرتے پائے گئے کہ عبدالمجید ڈار کو حزب سے خارج کرکے انہوں نے اپنی ہی قوت گنوا دی۔

سید صلاح الدین نے بھارتی جریدے ریڈِف ڈاٹ کام کو ۲۸ مارچ ۲۰۰۱ میں ایک اٹرویو کے دوران واضح طور پہ بتایا کہ ان کے اور ڈار کے درمیان کوئی اختلاف نہیں اور جنگ بندی کا فیصلہ کسی فرد واحد کا نہیں بلکہ حزب کی سپریم کونسل کا فیصلہ تھا۔جنگ بندی کے بعد ڈار صاحب کو نشانہ بنانا ایک مکمل منصوبہ بندی تو تھی ہی لیکن سید صلاح الدین کی شخصیت بھی متنازع روپ اختیار کرگئی۔کیونکہ اگر جنگ بندی کا فیصلہ ڈار کا ذاتی فیصلہ ہوتا تو سید صلاح الدین کے لئے اس فیصلے کی تائید کرنا ضروری نہیں تھا۔

عبدالمجید ڈاراوران کے ساتھیوں کو غلام محمد صفی ،سردار اعجاز افضل خان جوُ اس وقت جماعت اسلامی آذاد کشمیر کے امیر تھے اورجماعت اسلامی کشمیر کے خارجی محاذ پر سرگرم غلام نبی نوشہری کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل تھی ۔ مختصراً ۔۔بہت کوششوں کے باوجود جب عبدالمجید ڈار کے ہم نواوں اور سید صلاح الدین کی ٹیم میں صلاح کے تمام راستے مسدود ہوتے چلے گئے تو ایک بہت بڑی تعداد عبدالمجید ڈار کی حمایت میں حزب سے الگ ہوئی ۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر سید صلاح الدین ایک طرف جنگ بندی کو حزب کی سپریم کونسل کا فیصلہ اورحکمت عملی کہتے ہیں تودوسری طرف عبدالمجید ڈارکو متنازع بنانے اور اُن کے متعلق شکوک وشبہات پیدا کرنے میں کس کا کردار تھا؟اگر حزب کی جنگ بندی کے منصوبے کو حتمی شکل دینے کے لئے عبدالمجید ڈار کا انتخاب کیا گیا توجنگ بندی کی واپسی کا اعلان بھی اُن ہی سے ہی کیوں نہ کرایا گیا؟جبکہ وہ ذیادہ موثر اور تنظیم کا اپنا فیصلہ تصور کیا جاتا۔

ان تمام سوالوں کا جواب دینے کے لئے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے جب عبدالمجید ڈار واپس بیس کیمپ جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے تو روانگی سے صرف ایک دن قبل۲۳ مارچ ۲۰۰۳کو اُن کا کام تمام کیا گیا۔ڈار صاحب کی شہادت کے بعدکشمیر میں نہ صرف عسکریت کا کاونٹ ڈاون شروع ہوا بلکہ علحیدگی پسند اتحاد حریت کانفرنس بھی تقسیم درتقسیم ہوتی چلی گئی۔ حزب المجاہدین کی اعلٰی قیادت جن میں عبدالمجید ڈارسمیت جناب مسعود تانترے، فاروق مرچال،سیف الاسلام،غلام رسول ڈار،غازی شہاب الدین، اور دیگر اہم کمانڈروں کی شہادت سے نہ صرف حزب کمزور ہوئی بلکہ پوری مسلح جدوجہد پر منفی اثرات پڑے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے