کاش کبھی ایسابھی ہوجائے…

کافی دن گزر گئے کچھ لکھے ہوئے، پی ایس ایل کی کوریج کے لیے متحدہ عرب امارات جانا پڑا، وقت ہی نہیں ملا۔۔ کالم شروع بھی کر لیا ، چھکوں چوکوں کی برسات ، شائقین کے نعروں اور تیز موسیقی کے شور میں کوشش کرتا رہا کہ یکسوئی سے کچھ لکھ سکوں لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

دبئی پہنچے تو لگا جیسے کراچی شہر آئے ہوں لیکن جدید کراچی شہر۔۔ خواب میں سوچتے تھے ایسا خوبصورت شہر ہوناچاہئے ۔۔ جہاز سے اترنے کے بعد ایسکیلیٹرز پر اور پھر ایسکیلیٹرز کے بعد ٹرین میں بیٹھ کر سامان لینے پہنچے۔

وہاں ایک پاکستانی نے بتایا یہ ٹرین بغیر ڈرائیور کے چل رہی ہے، ہماری حیرت کی انتہا ہی نہ رہی۔۔ یعنی ان کو یہ ڈر ہی نہیں کہ کوئی ڈرائیور ہڑتال نہ کر دے، اس لیے بغیر ڈرائیور کی ٹرین ہی بہتر ہے۔ ہمارے یہاں تو پاکستان ریلوے میں جہاں ٹرین کے انجن ہوں نا ہوں، ڈرائیور نئے نئے بھرتی کیے جاؤ، سٹاف بھرتی کرنے کے بعد سوچا جاتا ہے ان سے کیا کام لیں۔

برادرم رضوان عباسی چونکہ خود پاکستان گئے ہوئے تھے انہوں نے دوبئی ائیرپورٹ پر نصیر صاحب کو ہمیں لانے کے لیے بھیج دیا، وہ ہمیں ہوٹل چھوڑ گئے۔ چونکہ ہم رات گئے وہاں پہنچے تھے، میں سوچ رہا تھا کہ سب کچھ بند ہو گا لیکن یہاں تو رات جاگ رہی تھی۔

سڑکوں پہ چہل پہل تھی چوبیس گھنٹے والے کئی سٹورز نہ صرف کھلے تھے بلکہ گاہکوں سے بھرے ہوئے تھے۔ صبح صبح شہزاد خان آ گئے اور کہنے لگے چلیں۔۔ ہوٹل نہیں رکنا۔۔ شہزاد خان کے ساتھ جو شخص آیا تھا وہ دیکھنے میں بڑا عام سا چہرہ تھا لیکن اس کے چہرہ پر مسکراہٹ بہت قیمتی سی تھی۔

تھوڑی ہی دیر میں راجہ اسد کے ساتھ ایسی بے تکلفی ہو گئی جیسے برسوں سے شناسا ہوں۔ بے حد ملنسار، نہایت عاجز۔۔ دل موہ لینے والی شخصیت ثابت ہوئے، صبح سے لے کر رات تک ہروقت ساتھ رہنا، ہر کام کے لیے کہنا ہو جائے گا۔میں نے انہیں کیا خطاب دیا ہے اور کیوں دیا ،وہ پھر کبھی سہی۔

آتے ہیں اس بات کی جانب جس نے مجھے یہ کالم لکھنے پر مجبور کیا، شہزاد نے ایسی بات بتائی کہ میں نے سوچا اسے اپنے پڑھنے والوں کے ساتھ بھی بانٹا جائے، یہ ایسی بات ہے جو بیک وقت خوشی بھی دیتی ہے اور غم بھی، خوشی اس بات کی کہ اچھا کام ہو سکتا ہے اور غم اس بات کا کہ یہ اچھا کام ہمارے یہاں کوئی کرتا نہیں۔

شہزاد خان بتا رہا تھا اسے اپنے اپارٹمنٹ کے پاس ایک کیرالا (انڈیا) کا دکاندار ملا۔ وہ کہنے لگا، ہمارے کیرالا کا وزیر یہاں آیا۔ اس کی اماراتی حکام سے ملاقات ہوئی ۔

اپنی ملاقات میں بھارتی وزیر نے کہا ہماری ریاست کیرالا کے بہت سے لوگ یہاں پر ہیں، انہیں ڈرائیونگ لائسنس کے حصول میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک ڈرائیونگ ٹیسٹ انہیں سات ہزار درہم کا پڑ جاتا ہے، یہ زیادہ ہے اس کے لیے کچھ کیا جائے۔

متحدہ عرب امارات نے بھارتی وزیر کی بات سننے کے فوراً بعد کیرالا میں ایک ڈرائیونگ انسٹی ٹیوٹ قائم کر دیا اور بہت کم خرچ میں اب وہاں کے لوگ یہاں آنے سے پہلے ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر لیتے ہیں۔

میں یہ سوچ رہا تھا ہمارے وزیر اور سیاستدان یہاں آتے ہیں تو کیا کرتے ہیں، ہمارے بڑے بڑے سیاستدان یہاں بزنس تلاش کرتے ہیں، وہ یہ دیکھتے ہیں کہ اماراتی حکام کے ساتھ ہونے والی اپنی ملاقاتوں میں مناسب کاروبار کے لیے مدد مانگتے ہیں، اقامہ کیسے بن سکتا ہے وہ پوچھتے ہیں۔

بھارتی وزیر آیا تو اس نے اپنے لوگوں کی بات کی لیکن ہمارے لوگ صرف اپنے ذاتی تعلقات بہتر کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں، ہمارے حکمران فوجی ڈکٹیٹر ہوں یا سیاستدان ۔۔ ان کے تعلقات غیر ملکی حکمرانوں کے ساتھ بنتے ہیں مگر وہ ان تعلقات کو صرف اپنے تک رکھتے ہیں اور اس کا فائدہ ہمارے ملک کو نہیں پہنچتا۔
کاش کوئی ہمارا وزیر اپنی ذاتی ائیر لائن کے لیے نہیں بلکہ قومی ائیرلائن کی بہتری کے لیے اماراتی حکام سے بات کرے، کاش کوئی پاکستانی سیاستدان پاکستان سے آنے والے مزدوروں کے حالات زندگی کو بہتر بنانے کے لیے بات کرے، کوئی اقامہ اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے ملک کے بے روزگار جوانوں کے لیے مانگے۔

کیا وقت تھا کہ متحدہ عرب امارات کو اپنی فضائی سروس کے قیام کے لیے پی آئی اے کی ضرورت تھی، آج وہ امارات ائیر لائنز دنیا کی بہترین ائیرلائنز میں شمار ہوتی ہے لیکن اسے انگلی سے پکڑ کر چلنا سکھانے والی پی آئی اے ترقی کے بجائے تنزلی کی جانب مائل ہے۔
ہمارے حکمرانوں کو کیا؟۔ پاکستان سٹیل ملز، پی آئی اے، پاکستان ریلوے، پیکو، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس سمیت تمام سرکاری صنعت تباہ ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے، ان کی نجکاری کر دی جائے گی، ایک قومی ادارہ خریدنے والے کو دوسرا ادارہ مفت دے دیا جائے گا۔

یہ تمام قومی ادارے بند ہوتے ہیں تو ہو جائیں ہمیں کیا؟۔ہمارے بزنس تو الحمد للہ ، اللہ کے فضل و کرم سے ترقی کے ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ ہم بھی اللہ کے کرم سے ملکی ترقی کا نہیں سوچتے کیونکہ اگلے پانچ سال بعد شاید ہم حکومت میں نہ ہوں بلکہ حکومت کے بجائے جیلوں میں ہوں، اس لیے ہم کیوں اس ملک کے لیے سوچیں؟۔
ہم تو جب بھی متحدہ عرب امارات جائیں گے، قطر، سعودی عرب، برطانیہ یا امریکہ جائیں گے تو اپنے بزنس کو مزید پھیلانے کا سوچیں گے، آخر اس وطن نے ہمیں دیا کیا ہے؟۔ بزنس تو ہمارے اپنے ہیں، ہماری آنے والی نسلیں اس کے ذریعہ ملک پہ راج کریں گی۔ قومی خدمت کا انجام تو قید یا پھانسی ہی ٹھہرا ہے تو پھر کیوں کریں؟۔

کاش کوئی سیاستدان بیرون ملک جا کے اپنے لیے کاروبار ڈھونڈنے کے بجائے برطانوی، سعودی ، امریکی اور اماراتی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے راغب کرے۔۔ اللہ کرے ایسا ہو جائے، لوگ ذاتی مفادات اور ذاتی تعلقات کے حصار سے باہر نکل کر قومی اور اجتماعی مفاد کے بارے میں سوچنا شروع کر دیں۔

ہمارے سیاستدانوں کے غیر ملکی حکمرانوں سے تعلقات توسرکاری سطح پر بنتے ہیں لیکن اس کا فائدہ ریاست کے بجائے شخصیات کو ہوتا ہے ، یہ خود ساختہ جلا وطنی میں جائیں تو وہاں انہیں پناہ مل جاتی ہے لیکن یہ حکومت میں ہوں تو ان تعلقات کو ملک کی بہتری کے لیے استعمال نہیں کرتے۔

کاش کوئی حکمران ایسا بھی آئے جو اپنے بجائے ملک کا سوچے، کاش، اے کاش کوئی ایسا بھی ہو۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے