مسئلہ کشمیر،حقائق ،جذبات اورمشکلات

مسئلہ کشمیر کا آسان حل یہ ہے کہ 5جنوری1949کی قرارداد پر عمل کرتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان اپنی فوجیں نکالیں ،مشیر رائے شماری کا تقرر ہو، قرارداد 1949ء کی روح کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے2کروڑ آبادی میں سے اہل بالغ افراد پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک کے حق میں اپنا فیصلہ دیں ،لیکن یہ اتناآسان نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کو یہ اعتبار ہی نہیں کہ اہل ریاست جموں وکشمیر اُن کے ساتھ ہیں۔

ریاست جموں وکشمیر میں جیت کی دوڑاوررائے شماری پر عدم اتفاق کے ، مسئلے کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے ہم ریاست جموں وکشمیر کے رقبہ اور آبادی کی تقسیم کو دیکھتے ہیں۔

بھارت کے زیرا نتظام جموں وکشمیر کی آبادی ایک کروڑ 40لاکھ ہے۔جس میں سے جموں ڈویژن59لاکھ ، کشمیرڈویژن 77لاکھ اورلداخ 4لاکھ نفوس پرمشتمل ہے۔ پاکستان کے زیرا نتظام آزادکشمیر 40لاکھ جبکہ گلگت بلتستان کی آبادی 20لاکھ ہے، 2لاکھ 22ہزار376مربع کلو میٹر پر محیط ریاست جموں وکشمیر میں سے71ہزار مربع کلو میٹرگلگت بلتستان ، 13ہزار 297مربع کلو میٹر آزادکشمیر، 37ہزار مربع کلو میٹر چین اور 1لاکھ 1ہزار387مربع کلو میٹر ،ہندوستان کے پاس ہے ۔

دونوں ممالک کے درمیان 1001کلو میٹر لائن آف کنٹرول ہے جس کی جموں ڈویژن میں لمبائی 205کلو میٹر ، کشمیر ڈویژن میں 460کلو میٹر ، لداخ اور سیاہ چن میں 336کلو میٹر ہے . ہندوستان کے زیر انتظام صوبہ کشمیر کا رقبہ 15948مربع کلو میٹر ہے ،جہاں ہندوستان کے خلاف مسلح مزاحمت اور الحاق پاکستان کے علاوہ قومی آزادی کی تحریک بھی موجود ہے۔

جموں کا رقبہ26293اور لداخ کا رقبہ59 ہزار 146مربع کلو میٹر ہے ۔ہندوستان کے زیرانتظام جموں وکشمیر میں آبادی کی تقسیم کچھ یوں ہے : 68.43فی صد مسلمان ہیں اور28.4فی صدہندو ہیں ، کشمیر ڈویژن میں 95فیصد مسلمان ہیں۔ صوبہ جموں میں ہندووں کی تعداد 62.5فیصد اور مسلمانوں کی تعداد 33.45فیصد ہے۔

جموں ڈویژن کے جن اضلاع میں ہندوکی تعداد زیادہ ہے وہاں عملاََ کوئی موثر مزاحمت نہیں ۔ ضلع اودھم پور 88.11فیصد ،ضلع جموں 84.26فیصد،ضلع سامبا86.33فیصد ،ضلع کٹھوعہ میں87.81فیصد ہندوہیں، ڈوڈہ ڈسڑکٹ میں ہندووں کی تعداد45.77فیصد ہے،جبکہ راجوری ،ریاسی پونچھ ،کشتواڑ اور رام بن میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے۔

اگر ہم آبادی کے اعدادوشمار کو دیکھیں تو بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 68فیصد مسلمان ہیں اس حساب سے اُن کی آبادی 98لاکھ بنتی ہے ۔ ہندوستان جموں ڈویژن جبکہ پاکستان گلگت بلتستان کے حوالے سے مطمئن ہے کہ رائے شماری کے وقت ان دوخطوں کی ایک بڑی تعداد اُ ن کے ساتھ کھڑی ہوگی ۔اصل مسئلہ وادی اور اُ س کے مضافاتی علاقے(صوبہ کشمیر)اور آزادکشمیر ہے ۔یہاں کے لوگوں کو اپنے حق میں کرنے کے لیے باروداور خون کا کھیل جاری ہے ۔

اگر اقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل کرتے ہوئے رائے شماری کروائی جائے اور پاکستان کے زیرانتظام علاقوں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان میں 60لاکھ کی آبادی میں سے تمام لوگ پاکستان کے حق میں بھی رائے دیں ، پھر بھی پاکستان کو بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سے40لاکھ افراد کی قابل اعتبار حمایت کی ضرورت ہے ، دوسری طرف ہندوستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں ایک کروڑ 40لاکھ کی آباد ی ہے ، جسے اپنے تابع رکھنے کے لیے ہندوستان کم وبیش پاکستان کی فوج کے برابر اپنی فوج رکھے ہوئے ہے

پاکستانی حکمرانوں کو یہ خطرہ ہے کہ اتنی بڑی فوج کی موجودگی میں نتائج اگر پاکستان کے حق میں بھی ہوں، ہندوستان کسی بھی قیمت پر اُسے تبدیل کرلے گا، یوں یہ مسئلہ ناقابل اعتبار رویوں کا شکار ہے جس کی قیمت ریاست جموں وکشمیر کے لوگ ادا کررہے ہیں ،ایک اور بات آزادکشمیر اور پاکستان کے حکمران ہمیشہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق پاکستان کو آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سے اپنی مکمل فوج نکالنا ہوگی جبکہ بھارت کو اپنی فوج کا بڑا حصہ ۔۔۔۔ بڑے حصے سے مرادیہ ہے کہ اگر بھارت کی کشمیر میں فوج سات لاکھ ہے توتین لاکھ 51 ہزار۔۔۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ تین لاکھ 49 ہزار فوج کی موجودگی میں بھارت کبھی بھی پاکستان کے حق میں فیصلہ نہیں ہونے دے گا۔

رہی بات خود مختار کشمیر کا نظریہ رکھنے والوں کی، مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے ہونے والے سروے کے مطابق ریاست جموں وکشمیر کے 80فیصد سے زائد لوگ مکمل آزادی کی سوچ رکھتے ہیں ، شاید یہی خوف ہے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہیں کیا جارہا ۔دونوں ممالک جانتے ہیں کہ جیسے ہی کسی تیسری طاقت نے ریاست جموں وکشمیر میں قدم رکھے مکمل آزادی کے حق میں موجود خاموش اکثریت ایک توانا سیاسی قوت کے طور پر سامنے آئے گی لیکن اس وقت جو صورتحال ہے ۔اگر اُسے دیکھا جائے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور نہ ہی کسی دوسرے بین الاقوامی فورم میں فرسٹ آپشن مکمل آزادی کا وجود ہے۔اور نہ ہی خودمختار کشمیر کے حامی افراد اس قدر منظم ہیں کہ وہ منقسم کشمیر کے تمام ریجنز میں ہندوستان اور پاکستان کے لیے اتنی مشکلات پیدا کر سکیں کہ اُن کی بات سُنی جائے ،جذباتی باتیں اپنی جگہ انسانی حقوق کی کسی تنظیم یا کسی بھی ملک کے پارلیمنٹ کے کسی ممبر کی انفرادی حمایت بھی قابل قدر، لیکن سچ یہ ہے کہ اقوام متحدہ ، اسلامی کانفرنس ، یورپی یونین ،سارک کسی بھی جگہ ریاست جموں کشمیر کی نمائندگی نہیں

ملکوں کے تعلقات اُن کی معاشی ضروریات کے تابع ہوتے ہیں،ہندوستان سوا ارب لوگوں کی منڈی ہے ۔ پاکستان میں 20کروڑ افراد ہیں ۔دونوں ممالک کی اپنی اپنی جغرافیائی اہمیت ہے اور اس کے مقابلے میں کشمیری شناخت کی علم بردار جماعتیں ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہیں۔جب اُن میں سے کسی ایک جماعت یا اُن کی اجتماعی جدوجہد طے شدہ دائرے سے تجاوز کرنے لگے ، اُسے واپس دھکیل دیا جاتا ہے ۔اُس پر ہندوستانی اور پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ ہونے کے الزامات لگوائے جاتے ہیں۔ طاقت کا بے رحمانہ استعمال کیا جاتا ہے ۔اگر پھر بھی باز نہ آئے تو اُن کی قیادت کومروادیا جاتا ہے ۔

منقسم کشمیر کے تینوں حصوں میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے و ہی عینک پہننے کی اجازت ہے جو بااختیار قوتوں کی مرضی کی ہو۔دیگر کوئی بھی عینک غداری تصور ہوتی ہے ، نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اہل ریاست اپنے عزیزوں کے مرنے پر بھی بات نہیں کرسکتے ۔ انہیں اُس بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے جہاں اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھانے ، اُن پر آنسو بہانے اور کنٹرولڈاحتجاج کے علاوہ اُ ان کے پاس کوئی آپشن نہیں۔ لیکن اگر جے کے ایل ایف۔کے این پی ،نیپ کی طرح کشمیری شناخت کی علم بردار کوئی جماعت اگر اس کے خلاف آواز اُٹھائے تو غدار ٹھہرتی ہے۔

پاکستان کے زیر انتظام آزادکشمیر کے وزیر اعظم راجا فاروق حیدر خان انہیں’’ حرام زادے‘‘ کہتے ہیں ۔اُن پر لعنت بھیجتے ہیں اور اُن پر ہندوستانی ایجنٹ ہونے کا الزام عائد کرتے ہیں۔۔۔۔ نظریاتی تخریب کارکہا جاتا ہے۔ محترم راجہ فاروق حیدر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو اُنھیں سینکٹروں ایسے’’ مُحب وطن‘‘لوگ نظر آئیں گے ، جو 2016کے انتخابات میں اُن کے ساتھ کھڑے تھے ۔اور آج کل بقول اُن کے وہ بھی’’حرام زادے‘‘ہیں۔ فاروق حیدر ن لیگ کے سربراہ ہیں ۔۔۔ ویسے ن لیگ کا نظریہ ہے کیا؟محترم فاروق حیدر کو بھی معلوم نہیں ہوگا ۔بس ایک شخص ہے نوازشریف ، جس کے نام پر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں مسلم لیگ نواز(نوازشریف کے نام پر) رجسٹرڈ ہے ، نوازشریف نااہل ہو چکے ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے سرابرہ اب شہباز شریف ہیں ۔۔۔۔ہوسکتا ہے یہ جماعت کچھ عرصہ بعد مسلم لیگ شہباز ہو۔۔

رہی بات فاروق حیدر کی فادر پارٹی مسلم کانفرنس کی تو اُس پر کشمیر ی شناخت کے علم بردار وں کی طرف سے بھاری فرد جرم عائد ہے 19جولائی 1947کی قرار داد الحاق پاکستان کے مطابق ریاست جموں کشمیر کے آخری مہاراجا ہری سنگھ نے پاکستان سے معاہدہ قائمہ کیا ۔مسلم کانفرنس نے اُس کے خلاف آزادی کے نام پر مسلح بغاوت کی ۔ باغی حکومت قائم کی جس کے نتیجہ میں ریاست تقسیم ہوگئی۔لاکھوں لوگ شہید ہوئے ،اسی سملم کانفرنس نے معاہدہ کراچی کے ذریعے 71 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ پاکستان کو دے دیا۔1947سے قبل جو اختیارات ریاست کو حاصل تھے اقتدر کے لیے ان سے دست برداری اختیار کی ۔ ”کشمیربنے گا پاکستان” کے نعرے کو آزادی کا نام دیا

کشمیری شناخت علم برداروں کا کہنا ہے ، الحاق کے نام پر آزادی ،دراصل سب سے بڑی نظریاتی تخریب کاری ہے ، حقیقت یہ ہے وِن وِن پوزیشن کی دوڑنے اہل کشمیر کو شدید مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے ، دونوں ممالک اپنے مفادات کی جنگ کشمیر میں لڑرہے ہیں جس کے نتیجہ میں1988ء سے لے کر آج تک ہزاروں ریاستی باشندے مارے جاچکے ہیں

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1989سے لے کر فروری2018تک94922افراد جاں بحق ہوئے ۔ 22866خواتین بیوہ ہوئیں ۔11043خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی جبکہ ہندوستانی اعدادوشمار کے مطابق 1988سے2017دسمبر تک کی تفصیل کچھ یوں ہے۔1988میں 31لوگ مارے گے ، جن میں سے29عام شہری ،سیکیورٹی فورسز کا ایک اہل کار،اور ایک جہادی تھا،1989میں 79عام شہری ،13سیکیورٹی اہل کارمارے گئے۔1990میں 1177لوگ مارے گے جن میں 862عام شہری 132سیکیورٹی فورسز کے اہل کار اور 183جہادی شامل تھے۔1991میں 1393افراد مارے گے جس میں سے 594عام شہری 185سیکیورٹی فورسز کے اہل کار 614جہادی تھے۔

1992میں 859عام شہری 177سیکیورٹی فورسز اور873جہادیوں سمیت کل 1909افراد مارے گے ۔1993میں 1023عام شہری ،216سیکیورٹی فورسز کے اہلکار 328جہادی ،اس طرح 2566افراد لقمہ اجل بننے ۔1994میں 2899افراد مارے گے جن میں سے1012عام شہری 236سیکیورٹی فورسز 1651جہاد ی شامل تھے۔1995میں 2796افراد مارے گے جن میں 1161عام شہری 297سیکیورٹی فورسز اور1338جہاد شامل تھے۔1996میں2903افراد مارے گے جن میں1333عام شہری 1194جہاد ی،376سیکیورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔

1997میں 2372افراد مارے گے جن میں 840عام شہری،355سیکیورٹی فورسز کے اہلکاراور 1177جہاد شامل تھے۔1998میں877عام شہری 339سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور1045جہادی شامل تھے۔1999میں 2538افراد لقمہ اجل بننے جن میں 799عام شہری ،555سیکیورٹی فورسزاور 1184جہاد تھے۔سن 2000میں 3288افراد لقمہ اجل بننے جن میں 1808جہاد ی 638سیکیورٹی فورسزاور842عام شہری شامل ہیں۔2001میں 4507آدمی مارے گے جن میں 1067عام شہری ،590سیکیورٹی فورسز،اور2850جہادی شامل تھے۔2002میں،3022افراد مارے گئے جن میں سے839عام شہری 469سیکیورٹی فوسز 1714جہادی شامل تھے۔2003میں 2542افراد مارے گے جن میں658عام شہری ،338سیکیورٹی فورسز کے اہلکاراور1546جہادی شامل تھے۔

2004میں1810آدمی مارے گے جن میں سے534عام شہری 325سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور951جہاد تھے۔2005میں 521عام شہری 218سیکیورٹی فورسز کے اہلکاراور ایک ہزار جہادیوں سمیت 1739افراد مارے گے۔2006میں،1116افراد مارے گے جن میں 349عام شہری ،168سیکیورٹی فورسز کے اہلکاراور599جہادی تھے۔2007،میں 777افراد مارے گے جن میں 164عام شہری 121سیکیورٹی فورسز اور452جہاد تھے۔2008میں 541افراد مارے گے جن میں سے59عام شہری90سیکیورٹی فوسز کے اہلکار اور382جہاد ی شامل تھے۔

2009ء میں 375افراد مارے گے جن میں 55عام شہری 78سیکیورٹی فورسز242جہادی تھے۔2010میں بھی 375افراد مارے گے جن میں 36عام شہری 69سیکیورٹی فورسز اور270جہاد ی شامل تھے۔2011میں 183افراد مارے گے جن میں سے34عام شہری 30سیکیورٹی فورسز کے اہلکاراور119جہادی تھے۔2012میں 117افراد مارے گے جن میں سے16عام شہری 17سیکیورٹی فورسز کے اہلکاراور 84جہادی شامل تھے۔2013میں 181افراد مارے گے ۔جن میں 20عام شہری61سیکیورٹی فورسز اور100جہاد ی شامل تھے۔2014میں193افراد مارے گے جن میں سے 32عام شہری 51سیکیورٹی فورسز اور110جہاد ی شامل تھے۔

2015میں 174افراد مارے گے جن میں سے20عام شہری 41سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور113جہادی تھے۔2016میں267افراد مارے گے جن میں168جہادی 88سیکیورٹی فورسز کے اہلکاراور14عام شہری تھے ۔2017میں 398لوگ مارے گے جن میں سے 218جہادی 83سیکیورٹی اہلکاراور57عام شہری ہیں۔2018ء میں 47افراد مارے گے جن میں سے 26جہادی اور15سیکیورٹی فورسز کے اہلکار اور 6عام شہری شامل ہیں ۔اسی طرح بھارتی مقبوضہ کشمیر کی حکومت کے اعداد وشمار کے مطابق 1988سے لیکر 2018تک 14801عام شہری جاں بحق ہوئے ،جبکہ 23377جہادی اور6372سیکیورٹی فورسز کے اہلکار مارے گے۔

2003ء میں سیز فائر لائن پر جنگ بندی کا معاہدہ ہوا اس کے باوجود 4000ہزار سے زائد سیز فائر لائن پر جھڑپیں ہوئیں 2016سے لیکر 2018تک بھارتی فوج کی فائرنگ سے آزادکشمیر کے حدود میں 119سے زائد لوگ جاں بحق ہوئے ۔

1947سے لے کر آج تک آزادکشمیر کی حدود میں 26سو سے زائد فوجیوں کے زندگی سے ہاتھ دھونے کی بھی اطلاعات ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ خطہ میدان جنگ کیوں ہے؟؟؟؟اپنے اپنے مفادات کے لیے ریاست جموں وکشمیر کے لوگوں کی قربانی کیوں ؟گولی اُس پار سے چلے یا اِس پار سے ،اُس کا نشانہ ریاست کا باشندہ ہوتا ہے۔

1947میں اس خطہ میں لاکھوں لوگ مارے گئے ۔70سال گزر گئے اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ حل نہیں ہوا ۔1988سے لے کر2018تک ہزاروں شہادتیں ہوئیں ۔اربوں روپے کی املاک تباہ ہوئیں ۔خواتین کی عصمت دری جنگی ہتھیار بنی ۔ہمارے قبرستان بھرگئے ۔ گھر اُجڑگئے ۔لاکھوں لوگوں کو اپنی سرزمین سے ہجرت کرنا پڑی ۔اَنا کے اس کھیل کی بھاری قیمت ادا کرکے ہم تھک چکے ۔ مفادات کیلئے چلنے والی ہر گولی ہمارے لوگوں کے سینے کو چھلنی کرتی ہے۔ پھر بھی ہم غدار؟؟؟ اس کے خلاف بات کریں ،تو ایجنٹ ۔

ریاست جموں وکشمیر کے لوگ جب امن چاہتے ہیں ، اُن پر ایک ایسی جنگ کیوں مسلط کی گئی ہے جس کے وہ فریق نہیں بننا چاہتے ،اختلافات اور خواہشات کی تسکین کیلئے انٹرنیشنل بارڈر بھی موجود ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے وِن وِن پوزیشن کی دوڑ کے بجائے جذبات سے نکل کر حقائق کا سامنا کرتے ہوئے ایک ایسا حل نکالا جائے جس میں تینوں فریقین کی وِن وِن پوزیشن برقرار رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے