بھارت سی پیک سے کیوں محروم ہے؟

زیر تعمیر اقتصادی راہداری صرف چین اور پاکستان کا دوطرفہ منصوبہ نہیں بلکہ اس میں بھارت کی شمولیت‘ اس خطے کی بڑی آبادی کے لئے زیادہ مفید ہو گا۔ پاکستان اور بھارت کی بڑی بڑی آبادیاں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہیں۔ چین اس خطے میں ہمارا پڑوسی ہے۔ اس نے بہت بڑی آبادی کو‘ غربت و افلاس کی دلدل سے نکالنے کا عمل شروع کر رکھا ہے جبکہ پاکستان اور بھارت دونوں ہی مسلسل کشیدگی کے نتیجے میں‘ خلقت کے بہت بڑے حصے کو افلاس اور اذیت میں زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ”اقتصادی راہداری (سی پیک) پاکستان اور چین کے درمیان دو طرفہ منصوبہ دکھائی دیتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اس راہداری کے حتمی فوائد اُسی وقت حاصل کیے جا سکتے ہیں جب خطے کے دیگر ممالک بھارت‘ وسطی ایشیائی ریاستوں افغانستان‘ ایران اور شرق اوسط کو اس میں شامل کیا جائے۔ منصوبے کی موجودہ حرکیات صرف مغرب کی جانب دکھائی دیتی ہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کو دیکھتے ہوئے‘ نہ تو پاکستان نے‘ بھارت کو اس منصوبے میں شامل ہونے کی دعوت دی اور نہ ہی بھارت نے‘ اس راہداری میں کوئی دلچسپی ظاہر کی بلکہ کھل کر مخالفت کی۔ مخالفت کی وجہ اپنی خود مختاری کے مبینہ طور پر مجروح ہونے کا دعویٰ ہے۔ نئی دلی کا کہنا ہے کہ اس راہداری کا کچھ حصہ پاکستان کے زیرِ کنٹرول آزاد کشمیر میں سے گزرتا ہے۔ بھارت اسے متنازع علاقہ قرار دیتا ہے۔ بھارت کا مؤقف ہے کہ پاکستان اور چین کو اس علاقے میں اقتصادی راہداری قائم کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا جب چین اور پاکستان نے کشمیر میں کوئی منصوبہ بنا یا ہو۔ ماضی میں بھی کچھ منصوبے بنائے گئے۔

انہیں پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا؛ 1970ء کی دہائی میں قراقرم ہائی وے کی تعمیر۔ لیکن ایک سڑک کے مقابلے میں چونکہ اقتصادی راہداری کا سکیل بہت وسیع ہے‘ اس لیے بھارت کی طرف سے بہت طاقتور ردعمل آیا۔

بھارت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چاہے کشمیر میں ترقی کا کوئی منصوبہ بنے یا نہ بنے‘ اُس کی اور پاکستان کی کشمیر کے بارے میں‘ قانونی اور سیاسی پوزیشن اپنی جگہ پر موجود رہے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر فرض کر لیا جائے کہ راہداری ایک متنازع علاقے سے گزرتی ہے‘ تو پھر چین کے بنگلہ دیش اور میانمار کے متنازع علاقے میں‘ بننے والے منصوبوں کے بارے میں کیا کہا جائے؟ کچھ بھارتی حلقے چین کے ان ممالک میں بننے والے منصوبوں کو مشکوک نظروں سے دیکھتے ہیں‘ بہت زیادہ ردعمل ظاہر نہیں کرتے لیکن پاک چین منصوبے کو وہ ایک خاص عینک سے دیکھتے ہیں۔ وہ ماضی‘ خاص طور سے 1960ء کی دہائی کی چین کے ساتھ‘ تنائو سے باہر نکلنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی ذہنیت نے ”بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے‘‘ کی انٹرنیشنل فورم پر مخالفت کی۔ بھارت نے ساٹھ سے زائد ممالک کے ساتھ بات کرنے کا موقع گنوا دیا۔ اس فورم پر بھارت کے اتحادی‘ جاپان اور امریکہ کی نمائندگی بھی موجود تھی۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی منصوبے میں شریک ہونا یا اس سے گریز کرنا بھارت کا حق ہے لیکن اکیسویں صدی کے ایک اہم ترین منصوبے سے کنارہ کشی کرنا کسی طور سے دانائی نہیں۔ یہ منصوبہ بے پناہ معاشی اور ترقیاتی امکانات لیے ہوئے ہے۔ اگر بھارت عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھ رہا ہے تو اسے اپنی معیشت کو توانا بنانا ہو گا۔ یہ منصوبہ اسے اپنے مفادات کے ساتھ ساتھ دیگر مالی مفادات حاصل کرنے کے قابل بنا دے گا۔ اقتصادی راہداری اسے توانائی اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے قابل بنا سکتی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ بھارت کے آج کل تیل کی دولت سے مالا مال شرق اوسط کی ریاستوں اور ایران کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ وہ ان ذرائع سے اپنی توانائی کی ضروریات پوری کر سکتا ہے لیکن پاکستان کے بغیر بھارت کے لیے ان ذرائع سے استفادہ کرنے کے لیے‘ ایک طویل سمندری سفر درکار ہو گا۔ اس پر اٹھنے والے اخراجات اس کے ثمرات پر پانی پھیر دیں گے۔ کم قیمت سے بننے والا پاک‘ ایران اور بھارت پائپ لائن منصوبہ‘ اسی سیاسی رقابت کی نذر ہو گیا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ افغانستان کے ساتھ براہ راست روابط کے لیے پاکستان ایک اہم عنصر ہے۔ پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت کے لیے افغانستان میں تجارتی مواقع سے فائدہ اٹھانا بہت مشکل ہے۔ یہی صور تحال شرق اوسط کی ہے۔

سچی بات یہی ہے کہ جنوبی ایشیا میں پائی جانے والی کشیدگی کی تمام ذمہ داری بھارت پر عائد نہیں ہوتی۔ پاکستان کا بھی اس میں کردار ہے ۔ درحقیقت اسلام آباد نے کبھی بھی بھارت کو اس راہداری میں شرکت کی دعوت نہیں دی۔ پاکستانی حکام روزِ اول سے ہی الزام لگا رہے ہیں کہ بھارت اس منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے سازشیں کر رہا ہے۔ بلوچستان میں ہونے والی شورش پر بھارت کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ اسلام آباد اس حقیقت کو نظر انداز کرتا ہے کہ دنیا کی دوسری بڑی آبادی اور ابھرتی ہوئی معیشت کو‘ اس منصوبے سے باہر رکھ کر اپنے فوائد حاصل نہیںکر سکتا۔ اگر پاکستانی اشرافیہ‘ حقیقت پسندانہ سوچ رکھتی تو ان کا ملک‘ بھارت کو توانائی فراہم کرنے والی گزر گاہ کا کام دے سکتا تھا۔

وہ اس سے بے پناہ مالی اور سیاسی فوائد اٹھا سکتا ہے۔ اگر پاکستان کی سرزمین سے گزرکر بھارتی اشیا‘ وسطی ایشیا کی طرف جاتیں تو پاکستان بذاتِ خود ایک تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کر جاتا۔ اس کی وجہ سے بھارت کو پاکستان پر زیادہ انحصار کرنا پڑتا اور وہ اس سے کسی طور‘ پاکستان کو ناراض نہ ہونے دیتا۔ یہ پاکستان اور بھارت کے لیے مشکل ہے کہ وہ کشمیر پر اپنی قوم پرستی کے جذبات کو تبدیل کریں۔ کسی بھی حکومت کو اس کی سیاسی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے لیکن کشمیر کے مسئلے پر تنائو کم کرنے کا راستہ تجارتی گزر گاہ ہی ہے۔ اس پر تعاون ان دونوں ممالک کے بہت سے مسائل کو اگر حل نہیں کر سکتا‘ تو بھی یہ مسائل ایک طرف رکھے جا سکتے ہیں۔ گہری تاریکی میں روشنی‘ چاہے کتنی ہی کم کیوں نہ ہو‘ واضح دکھائی دیتی ہے۔ اگر دونوں ملکوںکی حکومتیں‘ سیاسی الجھائو چھوڑ کر اپنے عوام کے مفاد کو‘ مقدم رکھیں تو اُنہیں اپنی اپنی سوچ کو تبدیل کرنا ہو گا۔ ایسا جلدی ہو جائے تو یہ بروقت ہو گا ورنہ دیر سے کرنے میں خسارہ ہے‘‘۔ استفادہ: ” گلوبل ٹائمز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے