انعام میلے کا ہے مگر دوستو!

آج آپ سے تین چار اہم باتیں ہوں گی، اسلام آباد میں ہونے والے قومی کتاب میلہ، نیلم طورو کی رپورٹ، امریکی سفارتکار، احتساب، انصاف، ایمنسٹی اسکیم کے علاوہ سیاست پر بات ہوگی، چوہدری نثار علی خان اور عطاء الحق قاسمی کا خصوصی تذکرہ ہوگا۔

قومی کتاب میلے کی باتیں بعد میں ہوں گی پہلے ذرا سیاست اور امریکہ کی باتیں کرلیں۔ امریکیوں نے بڑی زیادتی کی ہے، پہلے انہوں نے ہمارے وزیراعظم (جو خود کو اصلی نہیں کہتے) کے کپڑے اتروائے اور اب اسلام آباد میں ہمارے ایک شہری پر گاڑی چڑھا دی۔ اسلام آباد میں قائم امریکی سفارت خانے کے ملٹری اتاشی نے مارگلہ روڈ پر سرخ بتی کی پروا کئے بغیر گاڑی موٹر سائیکل سواروں پر چڑھا دی، معلوم ہوا ہے کہ امریکی فوجی افسر نشے میں تھا، اشارے کی خلاف ورزی کرنے والے قاتل امریکی کو ملکی قوانین کے تحت سزا ملنی چاہئے کیونکہ کسی پاکستانی کی جان بھی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کسی امریکی شہری کی ہے، ویسے میری تو یہ بھی تجویز ہے کہ آئندہ جب کوئی امریکی عہدیدار پاکستان کے دورے پر آئے تو ائیرپورٹ پر اس کے کپڑے اتروا لینے چاہئیں، اس کی خوب تلاشی لینی چاہئے تاکہ ہم بدلہ تو اتار سکیں۔

وزیراعظم نے حال ہی میں ایمنسٹی اسکیم کا اجراء کیا ہے، اس اسکیم سے چوروں، ڈاکوئوں، منشیات فروشوں، لٹیروں اورسیاستدانوں کے بچوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ اس اسکیم نے چوروں کو اور دلیر کردیا ہے اس اسکیم کے تحت (اصلی طور پر) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے مہربانوں کو راضی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی لئے بیمار ولایت اسحٰق ڈار کے بچوں نے دبئی میں جائیدادیں فروخت کرنے کا ارادہ کیا ہے، شریف فیملی بھی اپنی چھپی ہوئی جائیدادیں فروخت کر کے پیسے کی مالک بن جائے گی، یہ کام ایسا ہی ہے کہ گلی سے باہر کوئی شخص کسی سے پچاس ہزار روپے چھینے اور پھر مسجد میں ہزار روپیہ جمع کروا دے اور پھر کہے کہ یہ میری جائز کمائی ہے ۔ اس 49ہزار کو تو حکومت بھی ناجائز نہیں کہہ سکتی۔ ویسے تو ٹھگوں کے راج میں ایسے ہی ہوتا ہے مثلاً حلال کی کمائی کے 2.5ملین پر 15فیصد ٹیکس لگتا ہے اور حرام کی لامحدود کمائی پر صرف 2فیصد ٹیکس لگتا ہے۔ اس حکومت کا کیا انصاف پرستانہ فیصلہ ہے۔ جب قومی اسمبلی اور سینیٹ موجود ہے تو کیوں اس اسکیم کیلئے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت کو یہ ڈر تھا کہ کہیں ایوان اسے مسترد نہ کردے، اب بھی اگر کوئی سپریم کورٹ چلا گیا تو ہوسکتا ہے کہ اس ایمنسٹی اسکیم کو مسترد کردیا جائے کیونکہ دو روز پہلے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ہر ایک سے ایک ایک پائی کا حساب لیں گے۔

حساب کے معاملے میں نیب بہت سرگرم ہے، اب شریف فیملی کی خواہش ہے کہ نیب کا ادارہ ختم کردیا جائے اس مقصد کیلئے وہ شخص کچھ نہ کچھ کررہا ہے جس کے امریکیوں نے کپڑے اتروائے تھے۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ موصوف خود بھی ایل این جی کے معاملے میں ملوث ہیں۔ نیب ایل این جی پر تحقیقات کررہا ہے مگر کیا ایسا قوم کرنے دے گی، کیا سپریم کورٹ اس عمل کو جائزقرار دے گا کہ نیب کے ادارے کو ختم کردیا جائے۔ ویسے نیب کو اگر مزید دلچسپی ہو کہ لندن فلیٹس کی رقم کہاں سے آئی تو وہ ایک سابق بیورو کریٹ کو قابو کر لے۔ یہ بیوروکریٹ ابھی زندہ ہے جن دنوں میں موٹر وے کا معاہدہ ہوا تھا، یہ بیورو کریٹ اس وقت سیکرٹری مواصلات تھا، وہ یہ معاہدہ کروانے پر بڑا خوش تھا، اس نے اسلام آباد کے ایک بڑے ہوٹل میں ایک مسلم لیگی جوڑے سے کہا کہ ’’لو جی میاں صاحب مجھے یاد کریں گے، میں نے ان کا بہت بڑا کام کردیا ہے، موٹر وے کا معاہدہ کروا دیا ہے‘‘ کسی نے پوچھا کس کے ساتھ معاہدہ کروایا ہے؟ اس سوال پر کراچی سے تعلق رکھنے والے بیوروکریٹ نے بہت کچھ بتایا ۔ بعد میں اسی بیوروکریٹ نے میاں نوازشریف کو دیئے گئے تمام مبینہ چیکوں کی کاپیاں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کو پیش کی تھیں، اسی لئے پھر وہ پیپلز پارٹی کے قریب ہوگیا۔

یکم اپریل کی دوپہر نیلم طورو نے عمران خان کو رپورٹ پیش کی، یہ رپورٹ خواتین کی ترقی کے حوالے سے تھی، نیلم طورو خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت میں ویمن کمیشن کی سربراہ ہیں، حال ہی میں اقوام متحدہ سے ہو کر آئی ہیں، وہ اقوام متحدہ کے ایسے اجلاسوں میں گئیں جہاں عورتوں کے مسائل، انہیں ملنے والے مواقع پر خاصی بحث ہوئی، نیلم طورو نے خواتین کی ترقی کے حوالے سے خیبرپختونخوا میں خاصا کام کیا ہے، انہیں چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں خصوصی رپورٹ میڈیا کوبھی جاری کریں تاکہ ان کی کارکردگی قوم کے سامنے آسکے۔

آٹھ اپریل کو ہم تو کتاب میلے میں تھے، اسلام آباد اور راولپنڈی میں خوب بارش برس رہی تھی، اس روز تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے راولپنڈی میں میلہ لگایا ہوا تھا، بارش کے باوجود لوگ بڑی تعداد میں عمران خان کی محبت میں نکل آئے۔ اس سے ایک روزقبل رمیش کمار تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے، رمیش کمار مسلم لیگ ن کے ایم این اے ہیں۔ اب سنا ہے کہ ن لیگ کے کئی اہم رہنما پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں، ان میں سے بہت سے پی ٹی آئی کا حصہ بننے والے ہیں، نیب عدالت میں نوازشریف کی بڑھتی ہوئی مایوسی کے بعد اراکین اسمبلی نے ادھر ادھر اڑنا شروع کردیا ہے۔

مجھے یہ تو نہیں پتہ کہ چوہدری نثار علی خان کب پی ٹی آئی میں شامل ہورہے ہیں مگر مجھے اتنا ضرور پتہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان کی عمران خان کے ساتھ بچپن سے دوستی ہے، چوہدری نثار علی خان ایچی سن کالج میں کرکٹ ٹیم کے کپتان ہوا کرتے تھے جبکہ عمران خان بارہویں کھلاڑی، کیونکہ عمران خان ہاکی سے کرکٹ کی طرف آئے تھے لیکن پھر وقت نے عمران خان کو بڑا کرکٹر بنا دیا اور اب شاید بہت ہی کم لوگوں کو پتہ ہو کہ نثار علی خان بھی کسی کرکٹ ٹیم کا کپتان رہا ہے ان کی عمران خان سے اب بھی بہت دوستی ہے، یہ بات مجھے خود چوہدری نثار علی خان نے بتائی تھی، وہ اس وقت اپوزیشن لیڈر تھے، کوئی بات ہوئی تو چوہدری صاحب کہنے لگے ’’میری عمران خان سے بڑی لمبی چوڑی دوستی ہے، اس دوستی میں بڑے قصے ہیں پھر کسی دن میں آپ سے شیئر کروں گا‘‘۔

اب بات کرتے ہیں قومی کتاب میلے کی۔ یہ میلہ بڑا کامیاب رہا، یہ اس میلے کا انعام تھا کہ کئی پرانے دوستوں سے ملاقات ہوگئی۔ میں شاید زیادہ نام تو نہ لکھ سکوں مگر محمود شام، انور شعور اور افتخار عارف سے عرصے بعد ملاقات ہوئی، اسی طرح غضنفر ہاشمی، رخشندہ نوید، بینا گوئیندی، عائشہ مسعود اور اپنی پیاری شاعرہ ناصرہ زبیری سے بھی عرصے بعد ملاقات ہوئی، ڈاکٹر شاہد صدیقی کے علاوہ سلیم صافی اور سبوخ سید سے بھی ملنا ہوا، طاہر ملک ہمیشہ سچائی کا ساتھ دیتے ہیں خواہ وہ سچائی اپنے ہی خلاف کیوں نہ ہو، پروفیسر احسان اکبر، توصیف تبسم اور محبوب ظفر بھی نظر آئے۔

یہ ایک خوبصورت میلہ تھا، ڈاکٹر انعام الحق جاوید کو بہت مبارک۔ انہوں نے صدر مملکت سے سی ڈی اے کی شکایت بھی کی جو کتاب کیفے میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ یہاں عزیر احمد کے علاوہ مریم موتی والا سے بھی گپ شپ ہوئی۔ عطاء الحق قاسمی ایک ایسے قلم کار ہیں کہ ہم سب ان کا بہت احترام کرتے ہیں اور میں تو ان سے پیار بھی کرتا ہوں مگر مجھے ن لیگیوں پر حیرت ہے کہ وہ قاسمی صاحب کے حق میں ایک جملہ بھی نہ کہہ سکے۔ مسلم لیگ ن کا کوئی وزیر، کوئی رکن اسمبلی، کوئی ن لیگی رہنما اس شخص کیلئے ایک جملہ ادا نہ کرسکا جس نے ساری زندگی ان کی وکالت کی، شاید ایسے ہی لوگوں کو بڑے بے مروت کہاجاتا ہے مجھے افسوس ہے کہ قابل احترام قاسمی صاحب کا واسطہ بڑے بے مروت لوگوں سے پڑا ہے۔ کتاب میلے میں خوبصورت ترانہ بھی سننے کو ملا۔ جسے طارق نعیم نے لکھا ہے اور کورس کے ساتھ رخسانہ مرتضیٰ نے گایا ہے کہ

؎ کتابوں کی دنیا سلامت رہے
روشنی، دوستی کی علامت رہے

پاکستان کے سیاسی اور معاشرتی حالات دیکھ کر زاہد فخری کا شعر یاد آرہا ہے کہ

؎ ہمارے خواب کا منظر بدلنے والا ہے
چراغ رہنے دو سورج نکلنے والا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے