پنجاب میں بھی قدوس بزنجو؟

چودھری شجاعت حسین کی کتاب کی تقریب رونمائی سیاست و صحافت کے ستاروں کا ایک حسین اجتماع تھی لیکن اس تقریب میں پاکستان کے آئندہ سیاسی منظر کی کچھ جھلکیاں بھی موجود تھیں۔ تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو تھے جو خصوصی طور پر کوئٹہ سے لاہور تشریف لائے تھے۔ انہوں نے چودھری شجاعت حسین کی کتاب پر کم اور نواز شریف کے طعنوں پر زیادہ بات کی اور لاہور کے اہل فکر و دانش سے کہا کہ جو لوگ مجھے پانچ سو ووٹوں کا طعنہ دیتے ہیں وہ کبھی میرے علاقے آواران آ کر لوگوں کو پوچھیں کہ 2013ء میں وہاں ریاست موجود تھی یا نہیں؟ جن پانچ سو لوگوں نے مجھے ووٹ دیئے انہوں نے اپنی جانیں دائو پر لگائیں اور الیکشن کے دن مجھ پر بھی راکٹ حملے ہوئے۔ بزنجو صاحب نے تخت لاہور میں چودھری شجاعت حسین کے پہلو میں کھڑے ہو کر کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں مجھے پانچ سو ووٹ فوج نے دلوائے وہ بتائیں کہ فوج مجھے پانچ سو ووٹ کیوں دلواتی فوج نے مجھے پچاس ہزار ووٹ کیوں نہ دلوائے؟

عبدالقدوس بزنجو کے سامنے نذیر ناجی، مجیب الرحمان شامی، حسن نثار، عارف نظامی، افتخار احمد، ضیاء شاہد، جگنو سیٹھی،ایاز امیر، وسیم بادامی، چودھری خادم حسین، سعید قاضٗی، اجمل جامی اور طاہر خلیل سمیت ملک کے نامور اہل فکر و دانش بیٹھے تھے۔ انہوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے انہیں یہ بھی بتا دیا کہ بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کی تبدیلی کی کوشش کا آغاز حقیقت میں سردار اختر مینگل کی تائید سے ہوا۔ ابتداء میں صرف ڈپٹی اسپیکر کا ہدف تھا لیکن جب جوڑ توڑ شروع ہوا تو پتہ چلا کہ اسپیکر اور وزیر اعلیٰ کو ہٹانا بھی بہت آسان ہے اور پھر مسلم لیگ (ن) کے اندر بغاوت ہو گئی۔ بزنجو صاحب کا تعلق مسلم لیگ (ق) سے تھا۔ وہ نواز شریف سے پوچھ رہے تھے کہ جب آپ نے مجھے 2013ء میں ڈپٹی اسپیکر بنایا تو آپ کو اس وقت میرے پانچ سو ووٹ یاد نہ آئے جب آپ کی جماعت کے ناراض ساتھیوں نے مجھے وزیراعلیٰ بنا دیا تو آپ مجھے پانچ سو ووٹوں کا طعنہ دینے لگے۔

میں عبدالقدوس بزنجو کی باتیں سُن کر چودھری برادران کی ذہانت کو داد دے رہا تھا۔ انہوں نے چند روز قبل نواز شریف کے دائیں بائیں حاصل بزنجو اور محمود اچکزئی کو دیکھا ہو گا لہٰذا انہوں نے مناسب سمجھا کہ وہ عبدالقدوس بزنجو کو لاہور بلائیں اور اپنے پہلو میں کھڑا کر کے اہل لاہور کو بتائیں کہ پچھلے الیکشن میں آواران میں جن پانچ سو افراد نے بزنجو صاحب کو ووٹ دیئے تھے وہ کتنے محب وطن اور بہادر لوگ تھے۔ حیرت یہ تھی کہ عبدالقدوس بزنجو نے یہ الیکشن مسلم لیگ (ق) کے ٹکٹ پر لڑا لیکن کچھ دن پہلے انہوں نے ایک نئی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی تھی اس کے باوجود وہ بار بار اپنے آپ کو چودھری شجاعت حسین کا ایک عام سا ورکر قرار دے رہے تھے۔

میرے کان اُس وقت ناصرف کھڑے ہو گئے بلکہ کچھ پھڑپھڑائے جب عبدالقدوس بزنجو نے بڑے واضح الفاظ میں کہا کہ میں جہاں بھی جائوں گا ہمیشہ چودھری شجاعت حسین کا وفادار رہوں گا اور پنڈال تالیوں سے گونج اٹھا۔ تالیاں بجانے والوں میں پنجاب اسمبلی کے رکن چودھری ظہیر الدین بھی شامل تھے جو صرف دو دن پہلے مسلم لیگ (ق) چھوڑ کر تحریک انصاف میں چلے گئے تھے لیکن صرف دو دن کے بعد واپس آ گئے تھے۔ بزنجو صاحب نے بار بار نواز شریف کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ لوگوں کو عزت دینا سیکھیں، وفا کرنا سیکھیں، آپ دوسروں کو عزت نہیں دیتے اس لئے لوگ آپ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، چودھری برادران کی خوبی یہ ہے کہ جو انہیں چھوڑ دے وہ دوسری جگہ جا کر بھی ان کی تعریف کرتا رہتا ہے۔ کچھ ایسی ہی باتیں شیخ رشید احمد نے کیں تاہم شیخ صاحب نے بھی کتاب پر کم اور دیگر معاملات پر زیادہ بات کی اور کچھ باتیں اس خاکسار کے بارے میں بھی کیں۔

کتاب کی تقریب رونمائی میں اس ناچیز نے یہ عرض کیا تھا کہ چودھری ظہور الٰہی کو جنرل ایوب خان کے دور آمریت میں ایبڈو قانون کے تحت نااہل کیا گیا لیکن ایوب خان چلا گیا اور چودھری ظہور الٰہی کی سیاست ختم نہ ہو سکی لہٰذا نااہلی کے قوانین کے ذریعہ آپ سیاستدانوں کو پارلیمنٹ سے نکال سکتے ہیں لیکن اُن کی سیاست ختم نہیں کر سکتے۔ میں نے اکبر بگٹی کی شہادت کے متعلق سچ لکھنے پر چودھری شجاعت حسین کی تحسین کی تھی۔ شیخ رشید احمد نے اپنی تقریر کا آغاز ہی مجھے مخاطب کر کے کیا۔ پہلے تو انہوں نے حاضرین کو یہ بتایا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں انہیں ناجائز اسلحے کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا تو حامد میر اور عامر متین نے مقدمے کے فیصلے سے دو دن پہلے اڈیالہ جیل آ کر مجھے بتا دیا کہ آپ کو سات سال قید کی سزا ہو گی۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ہمیں سزا کا پتہ کیسے چلا لیکن یہ ضرور بتایا کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے قائد نواز شریف سمیت تمام ساتھی ایم این اے حضرات سے کہا کہ اسمبلی میں شور مچائو لیکن کوئی نہ بولا۔

شیخ صاحب کا کہنا تھا کہ حامد میر نے اکبر بگٹی کی شہادت کے متعلق جو کہا وہ تصویر کا ایک رخ ہے بگٹی صاحب کے ساتھ کچھ فوجی افسران بھی مارے گئے تھے جن کی لاشیں راولپنڈی لائی گئی تھیں۔ شیخ صاحب یہ کہنا چاہتے تھے کہ بگٹی صاحب کو فوج نے نہیں مارا ہو سکتا ہے جس غار میں وہ مقیم تھے وہاں انہوں نے فوجی افسران کو بلایا اور کوئی حادثہ پیش آ گیا لیکن میں نے تو صرف اس دعوے کی تحسین کی جو چودھری شجاعت حسین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ چودھری صاحب نے فوج پر تنقید نہیں کی بلکہ ایک ایسے ڈکٹیٹر کی منافقت کو بے نقاب کیا جس کی حکومت میں وہ خود شامل تھے لہٰذا ان کی حیثیت ایک عینی شاہد کی ہے اور میرے لئے ایک عینی شاہد کی گواہی کو نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے۔

شیخ صاحب کو اس سلسلے میں واقعی ٹھوس حقائق کا علم ہے تو وہ قوم کے سامنے ضرور لے کر آئیں۔
چودھری شجاعت حسین نے عینی شاہد کی حیثیت سے ایک اور بات اپنی کتاب میں لکھی ہے جو کسی دھماکے اور سانحے سے کم نہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سابق چیف جسٹس اور سابق ہیرو جناب افتخار محمد چودھری کو جسٹس (ر) مشتاق احمد میرے گھر لائے جس کے بعد چودھری شجاعت حسین اُنہیں چیف جسٹس بنوانے کے لئے سرگرم ہو گئے۔ چودھری شجاعت نے افتخار محمد چودھری کی پرویز مشرف سے ملاقات کروائی جس میں جج صاحب نے حکمران وقت سے کہا کہ میں قانون کے دائرے میں رہ کر آپ کے اعتماد پر پورا اُتروں گا اور یوں وہ چیف جسٹس بنا دیئے گئے۔ بعد ازاں چیف جسٹس کے وزیر اعظم شوکت عزیز سے اختلافات پیدا ہو گئے اور شوکت عزیز نے ان کے خلاف نااہلی کا ریفرنس دائر کرایا۔ جب یہ ریفرنس مسترد ہو گیا تو چودھری شجاعت حسین نے چیف جسٹس اور مشرف کے درمیان صلح کروا دی اور طے پایا کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے دیں گے۔ شوکت عزیز نے استعفیٰ نہ دیا۔

حالات بگڑتے گئے اور یوں آئین معطل ہو گیا۔ جو بات چودھری صاحب نے نہیں لکھی وہ یہ ہے کہ آئین کی معطلی کے بعد جو تحریک چلی وہ صرف ایک فرد افتخار محمد چودھری کے لئے نہیں بلکہ ان درجنوں ججوں کے لئے بھی تھی جنہوں نے پی سی او پر حلف لینے سے انکار کیا۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد کوئی حکمران کسی چودھری شجاعت حسین کی سفارش پر کسی افتخار محمد چودھری کو چیف جسٹس یا اعلیٰ عدلیہ کا جج نہیں بنا سکتا لیکن جو سچ چودھری شجاعت نے لکھ دیا ہے اس پر وہ دادِ شجاعت کے مستحق ہیں۔ چودھری صاحب کی کتاب میں جنوبی پنجاب کا بھی ذکر ہے کیونکہ چودھری پرویز الٰہی نے اپنی وزارت اعلیٰ میں جنوبی پنجاب کے لئے کافی کام کیا۔ پاکستان کی آئندہ سیاست میں جنوبی پنجاب کا کردار بہت اہم ہے اسی لئے جنوبی پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے ناراض اراکین پارلیمنٹ تحریک انصاف میں جانے کے بجائے آزاد گروپ بنا رہے ہیں۔ یہ آزاد گروپ عمران خان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اسی لئے ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کی تقریب رونمائی میں مجھے کہنا پڑا کہ ہو سکتا ہے پنجاب کا اگلا وزیر اعلیٰ کوئی عبدالقدوس بزنجو ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے