سیاستدانوں کی فریب کاریاں

پاکستان کے سیاسی حلقوں میں بھر پور طریقے سے آنے والے الیکشن کی تیاریاں ہورہی ہیں- سیاست کے بھوکوں نے تمام شہروں اور دیہاتوں کی گلی کوچوں میں سیاست کا بازار داغ کررکھا ہے، جگہ جگہ سیاسی پارٹیاں اپنے حریف کو زیر کرکے اقتدار پر براجمان ہونے کا خواب دیکھ رہی ہیں، اقتدار کی لالچ سے سیاستدان تمام ضابطہ اخلاق کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں سبقت لینے کی کوشیش کررہے ہیں، وہ عوام کے ہمدر بن کر ملک اور قوم کی بے لوث خدمات سرانجام دینے کے جزبات کا مظاہرہ کررہے ہیں، ان دنوں میں سیاستدانوں کو عوام اور ان کے طرح طرح کے مسائل خوب یاد آرہے ہیں، جنہیں حل کرکے عوام کو خوشحال زندگی فراہم کرنے کی وہ قسمیں اٹھارہی ہیں، یوں وہ اس دفعہ بھی حسب سابق غلط وعدوں، جھوٹے نعروں کا سہارا لیتے ہوئے عوام کو فریب دے کر منصب اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئیے پورے زور سے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں-

سیاستدانوں کی یہ باتیں کوئی نئی نہیں، بلکہ پورے ستر سالوں سے ہمارے نااہل سیاستدانوں کی سیاست انہیں جھوٹی باتوں، دوکھوں اور فریب کاریوں کے بل بوتے پر چمک دمک رہی ہے- اس پورے عرصے میں پاکستان کے افق سیاست پر وہی افراد آتے رہے ہیں جو سب سے زیادہ مکار، چاپلوس اور فریب کار تھے، البتہ حکمرانوں کے چہرے بدلتے ضرور رہے مگر اسی معیار پر ہی ان کا انتخاب ہوتا رہا –

اس نکتے سے بھی ہمیں غافل نہیں رہنا چاہیے کہ پاکستان کی تاریخ میں کوئی دور ایسا نہیں گزرا کہ جس میں اقتدار اعلی کے لئیے موزوں اور مناسب شخص انتخاب کرنے میں بیرونی ملکوں کی مداخلت نہ رہی ہو، آپ نااہل سابق وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف کی ہی مثال لے لیجیے، جو کئی بار اقتدار پر قبضہ کرکے حکمرانی کرتے رہے اور ہر دفعہ اسے پاکستان کا وزیراعظم بنانے میں سعودی عرب کا نمایاں کردار ادا کرتا رہا، ہدف پاکستان کے اندر اپنے مخصوص ایجنڈوں پر کام کروانا تھا جن میں سر فہرست ’’وہابی اِزم‘‘ کا پرچار تھا، جسے سعودی عرب نے مغرب کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے پوری دنیا میں پھیلانے کا مصمم ارادہ کررکھا تھا، چنانچہ نواز شریف کے ذریعے سعودی عرب نے پاکستان میں اپنے اس مقصد کو پورا کروا کر دم لیا،

موصوف کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے کہ دشمنوں کو مثبت جواب دے کر خوش رکھے خواہ اس سے ملک اور قوم کا کتنا نقصان ہی کیوں نہ ہوجائے، جب سنہ 1999ء میں پاکستان اور ہندوستان کی جنگ ہوئی ۔ جس میں پاکستانی فوج نے بھارت کے تین لڑاکا جہاز مار گرائے اس کے علاوہ بھارتی فوج کارگل سیکٹر میں توازن کھو بیٹھی اس جنگ میں پاکستان کی مالی اور افرادی قوت کو بڑا نقصان پہنچا، گلگت بلتستان کے جوانوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا، لیکن اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم واجپائی پاکستانی دورے پر آئے اور لاہور میں انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے گلہ کیا کہ ہم آپکی میزبانی سے مستفید ہو رہے ہیں مگر آپ کی فوج نے کارگل پر قبضہ کرلیاہے وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے کہا قصہ ختم ہوگیا ہے ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہماری دوستی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننی چاہیے جب کہ کارگل جنگ بھارت نے اسرائیل کے اشارے سے چھیڑی تھی –

10فروری 2008 کو نئی دہلی میں اسرائیل کےسفیر مارک سوفر نے کھلے الفاظ میں کہا کہ ان کے ملک نے 1999ء میں پاکستان کے ساتھ کارگل کی جنگ کا رخ بدلنے میں بھارت کی مدد کی تھی۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ایک ہفت روزہ "آﺅٹ لک” کو انٹرویو میں اسرائیلی سفیر نے بتایا کہ کس طرح کارگل کے بعد دونوں ملکوں کے دفاعی تعلقات کو فروغ حاصل ہوا جب اسرائیل نے ایک نازک مرحلے پر زمینی صورت حال بدلنے میں بھارت کو بچایا۔ سفیر نے کہا”میرا خیال ہے ہم نے بھارت کو ثابت کیا کہ وہ ہم پر بھروسہ کر سکتا ہے اور ہمارے پاس اسکے لیے وسائل موجود ہیں۔ ضرورت کے وقت ایک دوست ہی حقیقی دوست ہوتا ہے۔“

اسرائیلی سفیر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ بھارت اسرائیلی تعلقات اسلحے کی خرید و فروخت سے آگے بڑھیں گے۔ اس نے مزید کہا:”ہمارے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات خفیہ نہیں، تاہم جو بات خفیہ ہے وہ یہ ہے کہ دفاعی تعلقات کی نوعیت کیا ہے اور تمام احترام کے ساتھ خفیہ حصہ ایک راز رہے گا۔“
واقعتاً اقتدار انسان کو اندھا بنادیتا ہے-

مختصر یہ ہے کہ زیلی قصہ میں بادشاہ کو نواز شریف سمجھیں تو اس کے سارے کرتوت اور آنجناب کی موجودہ حالت اچھی طرح سمجھ آجائے گی –

ایک بادشاہ تھا جس کی ہیبت رعایا کے دلوں پر غیر معمولی تھی، وہ خواہشات نفسانی کا متوالا، خوشامد پسند اور دنیا کے ہر ناشائستہ اعمال سے محبت کرنے والا تھا، جو اس کے ناشائستہ اعمال کا مداح تھا اس سے خوش اور نصیحت کرنے والوں کا دشمن تھا- ساری رعایا اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کرنے پر مجبور تھی – دولت کے نشے اور لشکر کی فراوانی نے اس کے دماغ کو عرش پر پہنچایا ہوا تھا، شیطان نے اس کو بے دینی کی آخری منزل تک پہنچا دیا، دینداروں سے اسے انتہائی نفرت ہوگئی، بت پرستی ملک میں عام ہوگئی-

ایک روز اس نے ایک شخص کے متعلق جو ملک کے دانشمندوں میں شمار کیا جاتا تھا لوگوں سے سوال کیا کہ وہ کیا کرتا ہے؟ مجھے اس سے ایک کار خاص میں مشورہ درکار ہے- لوگوں نے کہا عالیجاہ وہ دنیا سے اس قدر متنفر ہے کہ کسی وقت گھر سے باہر ہی نہیں نکلتا، یہ سن کر بادشاہ نہایت برافروختہ ہوا اور حکم دیا کہ اس کو میرے سامنے حاضر کیا جائے، جب وہ بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا بادشاہ نے اس کو بہت سمجھایا کہ کسی ترکیب سے اس کو اپنے راستے پر لے آئے، مگر جب کوئی صورت کامیابی کی نہ دیکھی غضبناک ہوکر پوچھا کہ تجھ کو یہ گوشہ نشینی کی رائے کس نے دی ہے؟ اس نے کہا میرے نفس نے- بادشاہ نے کہا تیرے نفس نے تجھ کو ہلاک کیا ہے لہذا میں تیرے نفس کو وہ سزا دینا چاہتا ہوں جو ایک ہلاک کرنے والے کو دی جاتی ہے، دانشمند نے کہا اے بادشاہ مجھے تیری دانائی سے قوی امید ہے کہ تو میرے اور اپنے درمیان کوئی فیصلہ خود نہ کرے گا بلکہ فیصلہ کے واسطے ایک قاضی مقرر کرے گا جس کے فیصلہ سے میں مطمئن ہوجاؤں- بادشاہ نے کہا بتلا وہ قاضی کون ہے؟ دانشمند نے کہا جس کے فیصلہ پر میں راضی ہوں وہ تیری عقل ہے- بادشاہ نے کہا بیان کر کیا کہنا چاہتا ہے؟ دانشمند نے کہا میں نے ایک عقلمند سے سنا ہے کہ جو بے وقوف ہوتا ہے وہ جو چیز کسی کام نہیں آتی، جس کی کوئی اصل وحقیقت نہیں ہوتی ہے کو کار آمد سمجھ لیتا ہے اور جو چیز اصالت رکھتی ہے، مفید اور کارآمد ہوتی ہے اسے بے کار سمجھ لیتا ہے پھر وہ بے حقیقت چیز کو اختیار کرلیتا ہے اور اصل چیز کو ترک کردیتا ہے- جب سے میں نے یہ سنا ہے میں نے بے حقیقت شے کو جو یہ دنیائے فانی ہےترک کردیا ہے اور حقیقی سے جو دارباقی ہے اختیار کر لیا ہے- پھر کہا اے بادشاہ یہ دنیا بڑا عبرت کا مقام ہے- یہ آدمی کو کھبی آقا بناتی ہے تو کھبی اسی کو خادم، ایک آدمی کو ہنستی ہے پھر اسے رلاتی ہے – کھبی ایک ہاتھ کو بخشش وعطا کے لئے بڑھاتی ہے کھبی اسی ہاتھ کو سوال کے لئیے دراز کراتی ہے- ایک کو عزت دی ہے اور اسی کو بعد میں زلت میں ڈال دیا ہے- بزرگ کو حقیر، رفیع کو پست، مسرور کو محزون، سیر کو گرسنہ- زندہ کو مردہ بنانے والی سے دل لگا نا اگر بے وقوفی نہیں ہے تو اورکیا ہے؟

اے بادشاہ یہ جو آپ نے کہا کہ میں نے ترک دنیا کرکے اپنے نفس اور آپنے اہل وعيال کے ساتھ دشمنی کی ہے ایسا نہیں ہے-، بلکہ ان کی دوستی اور صحیح خدمت کے لیے میں نے ناجائز خواہشات کو ترک کیا ہے، البتہ وہ پردہ جو محبت دنیا نے میری آ نکھوں پر ڈال رکھا تھا وہ اٹھ چکا ہے، اب میں دوست اور دشمن کو اپنے اور بیگانے کو پہچانتا ہوں، کون دوست کے لباس میں شیر کی طرح مجروح کرتا ہے اور کون بھڑیے کی طرح پھاڑ ڈالنے والا ہے اور کون خوشامدی کتے کی طرح کاٹنے کی فکر میں رہتا ہے اور کون گربہ مسکین بنا ہوا تاک میں لگا رہتا ہے –

اے بادشاہ یہ جو تو اپنے گرد فداکار، جان نثار، وفادار اور خریدار دیکھ رہا ہے ان میں ایک بھی تیرا وفادار نہیں، سب پیسے کے یار ہیں- تیرا ان میں کوئی یار وغمگسار نہیں- اگر یہ سلطنت، دولت اور یہ طاقت تیرے پاس نہ رہے تو پھر دیکھنا تو سلام کرے گا اور جواب نہ پائے گا

آج پاکستان کی سیاسی دنیا میں اس بادشاہ کا مصداق تام نااہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی شکل میں نظر آتا ہے جس نے اپنے آپ کو مطلق العنان بادشاہ سمجھ کر ملک پر حکمرانی کی اس نے نہ ملکی مفاد کا خیال رکھا اور نہ ہی قومی مفادات کا البتہ آنجناب نے اپنی ذات اولاد اور اپنے خاندان پر قومی خزانے کا منہ کھول کر راتوں رات امیرترین لوگوں کی صف میں ضرور شامل کیا ہے کیا کہنے سیاستدانوں کی فریب کاریاں –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے