عام آدمی کون اور کیا چاہتا ہے؟

عام آدمی کو ایک ہزار ایک طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے لیکن میرے نزدیک اس سے بڑھ کر اسے DEFINEکرنا ممکن ہی نہیں۔عام آدمی کی زندگی کا محور و مرکز صرف اتنا سا ہی ہوتا ہے ۔دل میں اب تک جل رہی ہیں آرزو کی دو لوئیںایک وہ پیاری سی لڑکی ایک وہ چھوٹا سا گھرعام آدمی جبلتوں کی جیل میں ہنسی خوشی ’’عمرقید‘‘کاٹنا چاہتا ہے۔

اسے نہ ’’فاتح عالم‘‘ بننے کا شوق ہوتا ہے اور نہ وہ فرعون یا قارون بننے کے جنون میں مبتلا ہوتا ہے۔وہ دنیا میں آنے سے لیکر یہاں سے جانے تک کچھ زیادہ نہیں مانگتا۔بھلا سا بچپن گزر جائے۔ماں باپ سکھ سکون اور تھوڑی سی عزت کے ساتھ اسے پال پوس کے جوان کر سکیں، ہلکا پھلکا پڑھا لکھا دیں تو کوئی ماڑی موٹی نوکری ملنے پر بروقت اس کی شادی ہوجائے تو وہ تین مرلے کے آنگن میں بچوں کو گند ڈالتے اور بیوی کو صفائی کرتے دیکھ کر خوش ہو۔بچے کبھی بھوکے نہ سوئیں اور ذرا بڑے ہو جائیں تو آوارہ پھرنے یا مزدوری کرنے کی بجائے سکول جائیں جو سستا اور صاف ستھرا ہو ۔

خود، بیوی بچوں اور ماں باپ میں سے کوئی بیمار پڑ جائے تو وہ خود کو سوفیصد بے بس، لاچار محسوس نہ کرے ۔کوئی ہو جو بیمار کے سر اور نبض پر ہاتھ رکھ سکے۔ کوئی بڑا بااثر اس کے ساتھ کسی بھی قسم کی زیادتی کرے تو وہ تھانے جاتے ہوئے نہ ڈرے۔تھانے میں اس کی شکایت سن لی جائے اورپھر دور بھی کر دی جائے۔ معاف کیجئے میں عام آدمی کی اک اہم اور بنیادی ضرورت تو بھول ہی گیاکہ اسے پینے کیلئے پیریئر یا پریمیئم ڈرنکنگ واٹر نہیں، عام سا صاف پانی بھی چاہئے جو بے شک بہت زیادہ صاف نہ بھی ہو تو چلے گا۔اس میں غلاظت اور زہر (آرسینک) کی مقدار قابل برداشت ہو تو بھی ٹھیک ہے کیونکہ عام آدمی خواص کی نسبت کہیں زیادہ سخت جان ہوتا ہے ۔

عام آدمی بیرون ملک تعطیلات کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھتا۔وہ تو صرف اتنا چاہتا ہے کہ کبھی کبھار قسطوں پر خریدی ہوئی اپنی موٹر سائیکل کے پیچھے اپنی گھر والی اور ٹینکی پر اپنے دو تین بچوں کو بٹھا کر کسی پارک میں جاکر انہیں جی بھر کے گول گپے اور دہی بھلے کھلاسکے۔وہ خوش، اس کا خاندان خوش اور ہم سب کا رب خوش، جس کے بعد برکتوں کا نزول سنبھالا نہ جائے گا۔باقی رہ گئیں عیدیں شبراتیں، کوئی شادی بیاہ تو بس اتنا ہو کہ وہ اور اس کے بیوی بچے نئے کپڑوں کو نہ ترسیں اور جب کوئی چل بسے تو اس کو کفن قبر کیلئے ادھار نہ مانگنا پڑے۔بس یہ چار دن کی زندگی دھیمے دھیرے سہجے سہجے یونہی چلتی رہے ۔

کوئی اتنا کر دے کہ زندگی گھسیٹنے گھسیٹنے کے بجائے گزارنے لائق کر دے ۔عام آدمی کبھی ایم این اے، ایم پی اے، وزیر ، مشیر، جج، جنرل، افسر وغیرہ بننے کا نہیں سوچتا۔وہ تو صرف ان دو مصرعوں کے درمیان سینڈوچ بن کے جینا چاہتا ہے ۔دل میں اب تک جل رہی ہیں آرزو کی دو لوئیںایک وہ پیاری سی لڑکی ایک وہ چھوٹا سا گھریہاں ’’پیاری‘‘ کا مطلب کوئی سپرماڈل نہیں، پیاری وہ جو پیامن بھائے کیونکہ مجھے یقین ہے کہ لیلیٰ، ہیر،سوہنی، سسی، سہتی، شیریں، صاحباں….یہاں تک کہ جولیٹ بھی عام تام سی ہی ہو گی۔البتہ جولیٹ بارے اتنا یقین ضرور ہے کہ اس کا رنگ شرطیہ گورا ہوگا ۔یہی کیس ایران کی شیریں کا ہے ۔اب چلتے ہیں عام آدمی کی زندگی کے آخری ایپی سوڈ کی طرف …..

بیٹیوں کو باعزت طور پر رخصت کر سکے، بہوئوں کوناک کٹائے بغیر گھر لاسکے۔نواسوں ،نواسیوں، پوتوں، پوتیوں کو کچھ دن گود کھلا سکے تو سمجھو کمال ہو گیا۔سونے پر سہاگہ…….راحتوں، خوشیوں، آسودگیوں کی آخری انتہا کہ زندگی بھر مشقت کے نتیجہ میں اتنی بچت ضرور ہو گئی ہو کہ وہ اپنی اہلیہ سمیت حج کیلئے جاسکے۔واپسی پر بیٹے، بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں اس کا فقید المثال استقبال کریں اور ’’حاجی صاحب ‘‘ اپنے بچوں، بچوں کے بچوں اور عزیز واقارب کو آب زم زم، تسبیحیں، جائے نماز اور کھجوروں کے تحفے پیش کرنے کے بعد جب اپنے رب کے حضور پیش ہوں تو اپنے حکمرانوں کی شکایت نہ کریں کہ ان شیطانوں نے میری اور میر ے خاندان کی زندگی عذاب کئے رکھی اور مسلسل مجھے جرم اور گناہ کی طرف دھکیلتے رہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے