نواز شریف کو نقصان ہو گا

چوہدری حیات محمد خان ہمارے چوہدری شجاعت حسین کے پردادا تھے‘ درمیانے درجے کے کاشتکار تھے‘ گجرات میں دریائے چناب کے کنارے چھوٹے سے گاؤں ’’نت وڑائچ‘‘ میں رہتے تھے‘ سادہ طبیعت کے درویش انسان تھے‘ لوگوں کو کھانا کھلانے میں مشہور تھے‘ ان کا ایک قول آگے چل کر چوہدری خاندان کی مہمان نوازی کی بنیاد بنا۔

وہ اپنے بچوں کو کہا کرتے تھے ’’دیکھو کسی کو کھانا کھلانے سے کوئی غریب نہیں ہو جاتا‘‘ بچوں نے یہ بات پلے باندھ لی چنانچہ آج چوہدری برادران کی پانچویں نسل ہے‘ ان کے گھر سے کوئی شخص کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جا سکتا خواہ وہ ان کا جانی دشمن ہی کیوں نہ ہو‘ چوہدری برادران کے گھر میں سب کچھ بند ہو سکتا ہے‘ لائیٹس تک بجھ سکتی ہیں لیکن کچن 24 گھنٹے کھلا رہتا ہے‘ یہ بند نہیں ہوتااور یہ چوہدری برادران کی قومی شناخت ہے۔

چوہدری شجاعت حسین نے ’’سچ تو یہ ہے‘‘ کے نام سے معرکۃ الآراء بائیو گرافی لکھی‘ مجھے یہ کتاب پڑھنے کا موقع ملا۔’’سچ تو یہ ہے‘‘ محض ایک کتاب نہیں‘ یہ سیاست کی پانچ دہائیوں کی ایف آئی آر ہے‘ ہماری سیاست میں پچاس سال سے کیا ہو رہا ہے‘ یہ کتاب اس کا دستاویزی ثبوت ہے‘ میں یہ کتاب پڑھ کر تین نتائج پر پہنچا‘ایک‘ سیاست میں کوئی چیز مستقل اور حتمی نہیں ہوتی‘ دو‘ حکومتوں کے فیصلے ووٹ سے نہیں ہوتے اور تین‘ یہ کتاب پاناما لیکس کے بعدمیاں نواز شریف کو شدید نقصان پہنچائے گی‘ یہ ان کے امیج کو مزید لے کر بیٹھ جائے گی۔

کیسے؟ آپ واقعات ملاحظہ کیجیے اور آخر میں فیصلہ کیجیے اس کتاب سے میاں نواز شریف کا کیا امیج سامنے آ رہا ہے‘مثلاً چوہدری شجاعت حسین نے انکشاف کیا‘ جنرل ضیاء الحق نے 1977ء کے مارشل لاء کے بعد نوے دنوں میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا‘ میرے والد چوہدری ظہور الٰہی لاہور سے بھٹو کے خلاف الیکشن لڑنا چاہتے تھے‘ ہم لاہور میں اپنے دفتر میں بیٹھے تھے‘ ہمارے ملازم نے بتایا‘ باہر ایک نوجوان آیا ہے۔

یہ چوہدری صاحب سے ملنا چاہتا ہے‘ والد صاحب نے پرویز الٰہی کو باہر بھجوا دیا‘ پرویز الٰہی نے دیکھا‘ ایک گورا چٹا نوجوان برآمدے میں بیٹھا ہے‘ نوجوان نے پرویز الٰہی کو اپنا وزیٹنگ کارڈ دے کر کہا‘مجھے میرے والد میاں محمد شریف نے چوہدری ظہور الٰہی کی الیکشن مہم میں فنڈز دینے کے لیے بھیجا ہے‘ پرویز الٰہی نے جواب دیا ’’ہم کسی سے فنڈ نہیں لیتے‘‘ یوں یہ ملاقات ختم ہو گئی‘ وہ نوجوان میاں نواز شریف تھا۔

1985ء کے غیر جماعتی الیکشنز کے بعد جنرل ضیاء الحق ملک اللہ یار خان‘ چوہدری عبدالغفور اور مخدوم زادہ حسن محمود میں سے کسی ایک کو پنجاب کا وزیراعلیٰ بنانا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف نے خود ہی اپنا نام فلوٹ کرا دیا‘ ہمارا گروپ مضبوط تھا‘ ہم نے اپنا چیف منسٹر لانے کے لیے گھر میں میٹنگ بلوائی‘ میٹنگ میں خواجہ سعد رفیق کی والدہ بھی شامل تھیں‘ فیصلہ ہوا ہم پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنائیں گے‘ ہم نے رابطے شروع کر دیے لیکن پھر ہمیں گورنر پنجاب جنرل غلام جیلانی نے گورنر ہاؤس بلا لیا‘ بریگیڈیئر قیوم بھی وہاں موجود تھے۔

جنرل جیلانی نے ہمیں پیشکش کی‘ آپ اپنی مرضی کی وزارتیں‘ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدے لے لیں اور وزارت اعلیٰ میاں نواز شریف کو دے دیں‘ ہم نے دو دن کا وقت مانگا‘ ہماری اگلی میٹنگ میاں محمد شریف کے ایمپریس روڈ کے دفتر میں ہوئی‘ بریگیڈیئر قیوم بھی موجودتھے‘ ہم میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنانے پر رضا مند ہو گئے‘ میٹنگ کے آخر میں میاں شہباز شریف قرآن مجید لے آئے اور کہا‘ یہ قرآن مجید ضامن ہے‘ ہم آپ سے کوئی وعدہ خلافی نہیں کریں گے‘ ہم نے قرآن مجید کی ضمانت لینے سے انکار کر دیا۔

ہم نواز شریف کے لیے ایم پی ایز کی حمایت لینے کے لیے نکلے تو پہلی ملاقات انور علی چیمہ کے گھر ہوئی‘ چوہدری انور علی کی تقریر کے بعد پرویز الٰہی نے تقریر کی‘ میاں نواز شریف کی تقریر کی باری آئی تو یہ گھبرا گئے اور پرویز الٰہی سے کہا ’’آپ ہی میری طرف سے بات کر دیں‘‘ ہم نے اصرار کیا آپ وزیر اعلیٰ بن رہے ہیں‘ آپ کو تقریر کرنی چاہیے‘ یہ اٹھے لیکن بمشکل ایک دو منٹ تقریر کر سکے۔

یہ شاید میاں نواز شریف کی پہلی تقریر تھی‘ میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ بننے کے بعد وہ تمام وعدے توڑ دیے جن کے لیے شہباز شریف قرآن مجید لے کر آئے تھے‘ یہ ہمارا گروپ بھی توڑنے لگے‘ ہم گلہ کرتے تو شہباز شریف صفائیاں دینے لگتے‘ ہم جنرل جیلانی اور بریگیڈیئر قیوم سے شکایت کرتے اور وہ بے چارگی سے ہماری طرف دیکھنے لگتے‘ پرویز الٰہی تنگ آ کر صدر ضیاء الحق کے پاس چلے گئے۔

جنرل ضیاء الحق نے ہمیں نواز شریف کے خلاف عدم اعتماد لانے کا اشارہ دے دیا‘ ہم نے نواز شریف کو ہٹانے کی تیاری کر لی لیکن میاں صاحب نے عین وقت پر ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل کو راضی کر لیا‘ جنرل حمید گل نے ضیاء الحق کو منا لیا اور یوں نواز شریف فارغ ہونے سے بچ گئے‘ چوہدری شجاعت حسین نے انکشاف کیا‘ نواز شریف نے چند دن بعد ہمیں صلح کے لیے بلایا‘ بریگیڈیئر قیوم کے گھر ملاقات ہوئی‘ جنرل جیلانی بھی وہاں موجود تھے۔

نواز شریف اور شہباز شریف دونوں نے ہم سے معافی مانگی‘ نواز شریف نے دوبار پرویز الٰہی کا ماتھا چوما‘ شہبا زشریف نے دس منٹ میں دس بار پرویز الٰہی کو گلے لگایا اور یوں ہماری صلح ہوگئی لیکن یہ لوگ تھوڑے دن بعد دوبارہ پرانی روش پر چل پڑے‘ ہم نے جنرل جیلانی سے شکایت کی‘ وہ بھی ان سے نالاں ہو چکے تھے‘ جنرل جیلانی نے ہمیں کہا ’’ہم آپ کے قصور وار ہیں‘ ہمیں اس معاملے میں آنا ہی نہیں چاہیے تھا‘ ہمارے ساتھ بھی اب ان کا یہی رویہ ہے‘‘۔

ہمارے اختلافات کی خبریں جنرل ضیاء الحق تک پہنچیں تو صدر نے نواز شریف کو راولپنڈی بلا کر حکم دیا‘ پرویز الٰہی اور ان کے ساتھیوں کو فوراً دوبارہ کابینہ میں شامل کرو‘ صدر کا لہجہ اتنا سخت تھا کہ نواز شریف کی آنکھوں میں نمی آگئی۔

چوہدری شجاعت حسین نے انکشاف کیا بے نظیر بھٹو 10 اپریل1986ء کو پاکستان واپس آئیں ‘ میاں نواز شریف محترمہ کو لاہور ائیرپورٹ سے گرفتار کرنا چاہتے تھے‘ ان کا کہنا تھا ’’ہم محترمہ کو ائیر پورٹ ہی سے پک کر لیں گے‘‘ لیکن وزیراعظم محمد خان جونیجو نے ڈانٹ کر کہا ’’میاں صاحب وہ ایک بڑی پارٹی کی لیڈر ہیں‘ یہ آپ کیسی بات کررہے ہیں‘‘ میاں نواز شریف 1988ء میں لاہور ہائی کورٹ میں اپنی مرضی کا چیف جسٹس لگوانا چاہتے تھے‘ میں نے وزیراعظم کو مشورہ دیا آپ سینئر ترین جج کو چیف لگا دیں۔

محمد خان جونیجو نے میری بات مان لی اور یوں جسٹس عبدالشکور سلام کو چیف جسٹس بنا دیا‘ میں اطلاع دینے کے لیے چیف جسٹس کے گھر گیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا وہ دو کمروں کے معمولی سے گھر میں رہتے تھے‘ 1988ء کے الیکشنوں سے قبل میاںمحمد شریف ہمارے گھر آئے‘ ہماری والدہ سے ملے اور وعدہ کیا‘ میاں نواز شریف جب بھی وزیراعظم بنیں گے‘ پرویز الٰہی وزیراعلیٰ ہوں گے۔

الیکشن ہوئے‘ ہمارا گروپ تگڑا تھا‘ بے نظیر بھٹو نے فاروق احمد لغاری کے ذریعے پرویز الٰہی کو پیش کش کی آپ وزیراعلیٰ بن جائیں‘ ہم آپ کی مدد کریں گے لیکن ہماری والدہ میاں محمد شریف کو زبان دے چکی تھیں چنانچہ ہم نے دوسری بار میاں نواز شریف کو وزیراعلیٰ بنوا دیا‘ بے نظیر بھٹو نے 1988ء میں وزیراعظم بننے کے بعد جنرل ضیاء الحق کی فیملی کو آرمی چیف ہاؤس خالی کرنے کا حکم دے دیا‘ جنرل ضیاء الحق کے خاندان کے پاس کوئی ذاتی گھر نہیں تھا۔

بیگم شفیقہ ضیاء نے نوازشریف سے رابطہ کیا‘ نواز شریف نے بیگم صاحبہ کو یہ مشورہ دے کر ٹال دیا ’’آپ کرائے پر کوئی گھر لے لیں‘‘ میری والدہ کو پتہ چلا تو انھوں نے ہم سے ویسٹریج راولپنڈی کا گھر خالی کرایا اور یہ گھر ضیاء الحق خاندان کے حوالے کر دیا‘ ہم نے اسلام آباد میں کرائے کا گھر لے لیا‘ ضیاء خاندان ساڑھے تین سال ہمارے گھر میں رہا‘یہ لوگ اپنا گھر تعمیرہونے کے بعد شفٹ ہوئے‘ چوہدری شجاعت حسین نے انکشاف کیا۔

اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی)1990ء میں میاں نواز شریف کووزیراعظم نہیں بنانا چاہتا تھا‘ آئی جے آئی کا خیال تھا وزیراعظم چھوٹے صوبے سے ہونا چاہیے لیکن آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ نے کور کمانڈرز کی میٹنگ میں یہ کہہ کر نواز شریف کے حق میں فیصلہ دے دیا ’’ یہ سوچ غلط ہے کہ اکثریت حاصل کرنے کے باوجود کسی پنجابی کو وزیراعظم نہیں ہونا چاہیے‘اگر نواز شریف کو مطلوبہ تعداد میں ارکان اسمبلی کی حمایت حاصل ہے تو ان کے وزیراعظم بننے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔

یوں نواز شریف پہلی بار وزیراعظم بن گئے‘ وزیراعظم بننے کے بعد میاں محمد شریف کے وعدے کے مطابق چوہدری پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ ہونا چاہیے تھا لیکن ہمارے ساتھ تیسری بار دھوکا ہو گیا‘ نواز شریف نے غلام حیدر وائیں کو کٹھ پتلی وزیراعلیٰ بنا دیا‘ چوہدری صاحب نے انکشاف کیا‘ جنرل آصف نواز کے بعد میاں نواز شریف اپنا آرمی چیف لانا چاہتے تھے‘ چوہدری نثار کور کمانڈر راولپنڈی جنرل غلام محمد ملک اور جنرل مجید ملک جنرل رحم دل بھٹی کے حق میں تھے۔

میں نے مشورہ دیا ‘آپ میرے تیرے جنرل کے چکر میں نہ پڑیں‘ سینئر ترین جنرل کو چپ چاپ آرمی چیف بنا دیں لیکن یہ نہ مانے اور یوں صدر غلام اسحاق خان نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے جنرل عبدالوحید کاکڑ کو آرمی چیف بنا دیا‘ چوہدری صاحب نے انکشاف کیا۔

میاں شہباز شریف 1993ء میں پنجاب کے اپوزیشن لیڈر تھے‘ یہ وزیراعلیٰ منظور وٹو سے گھبرا کر کمر درد کا بہانہ کر کے لندن چلے گئے اور میاں صاحبان نے چوہدری پرویز الٰہی کو اس مشکل وقت میں اپوزیشن لیڈر بنا دیا‘ لندن جانے سے پہلے میاں شہباز شریف نے پرویز الٰہی کو اپنے گھر بلایا‘ شہباز شریف کے وکیل آفتاب فرخ بھی وہاں موجود تھے۔

شہباز شریف نے جب پرویز الٰہی کو اپنی بیماری کے بارے میں بتایا تو آفتاب فرخ نے ہنس کر کہا ’’میاں صاحب آپ کم از کم پرویز الٰہی کو تو سچی بات بتا دیں‘ آپ مقدمات سے بچنے کے لیے لندن بھاگ رہے ہیں‘‘۔ (باقی کل ملاحظہ کیجیے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے