ڈیئربلاول بھٹو!میں جاننا چاہتا ہوں…

کل جب سے ندیم چن صاحب کے پی پی پی چھوڑ جانے کی خبر سامنے آئی ہے تب سے پی پی پی کے اندر اور باہر ایک شدید بحث چھڑی ہوئی ہے جس میں جذباتیت کا عنصر بہت زیادہ ہے۔

لیکن بلاول صاحب کے بیان نے اس بحث کو ایک نیا ہی رنگ دے دیا ہے اور بقول ان کے چن نظر آتا تھا، نظریاتی نہیں تھا۔ اس بات سے ایک چیز تو ثابت ہوتی ہے کہ بلاول صاحب کے ذہن میں نظریات کے حوالے سے ایک جامعہ خا کہ ہے جس پر وہ لوگوں کو تولتے ہیں۔

ندیم چن کی سیٹ پنجاب کی ان اکا دکا سیٹوں میں شامل تھی جہاں پی پی پی مضبوط تھی اور ان کے جانے سے پی پی پی کی پنجاب میں کمر ٹوٹ جائے گی۔ بے شک ہم اپنے آپ کو تسلی دینے کےلئےلاکھ کہیں کہ کسی کے آنے جانے سے پی پی پی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن جب کوئی بلند کردار اور معیار والا شخص پارٹی کو چھوڑتا ہے تو بہرحال پارٹی کو بہت فرق پڑتا ہے، کیونکہ پارٹیاں بہرحال انسانوں پر ہی مشتمل ہوتی ہیں ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ندیم چن نظریاتی نہیں تھا تو باقی کون نظریاتی ہے، کیا ملک ریاض نظریاتی ہے، یا عاصم حسین نظریاتی ہے، یا انور مجید نظریاتی ہے یا گیلانی نظریاتی ہے۔ اور اس سے بھی پہلے بلاول صاحب کو چاہیے کہ کھل کو بتائیں کہ ان کے نظریات ہیں کیا چونکہ پی پی پی کے جن نظریات کی وجہ سے ہم پی پی پی میں ہیں یا جن نظریات پر بھٹو صاحب نے پی پی پی کی بنیاد رکھی تھی، آپ تو ان کے مکمل الٹ جا رہے ہیں۔

اگر آپ نے نظریات تبدیل کر لیے ہیں تو ہمیں بتایئں تاکہ ہم بھی انہیں جان سکیں اور اگر ان سے متفق نہ ہوں تو پارٹی چھوڑ کر کوئی نئی پارٹی بنایئں۔

کیا رضا ربانی جیسے جمہوریت کے فخر کو رسوا کر کے اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کو چیرمین سینیٹ منتخب کروانا آپ کا نظریہ ہے؟

کیا سندھ میں گنے کے کاشتکاروں پر پولیس کے ذریعے تشدد کروا کر جھوٹے مقدمات درج کروا کر اپنی مرضی کے ریٹس وصول کرنا آپ کا نظریہ ہے؟

کیا ملیر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے سارے فنڈز اور ذرائع کو بحریہ ٹاؤن کراچی کی ڈیویلپمنٹ میں جھونک دینا آپ کا نظریہ ہے؟

کیا آپ کا یہ نظریہ ہے کہ سندھ کے اندر جاگیرداری جیسے غیر انسانی نظام کو برقرار رکھیں اور باقی ملک میں انسانی حقوق کی باتیں کریں؟

کیا یہ آپ کا نظریہ ہے کہ پورے ملک میں ہونے والی کرپشن پر آپ گفتگو کریں لیکن جونہی سندھ کی بات آۓ تو آپ ہر اس برے کام کو ڈیفینڈ کریں جن پر آپ باقی ملک میں تنقید کرتے ہیں؟

کیا یہ آپ کا نظریہ ہے کہ اقتدار و لوٹ مار کی ہوس میں آپ اپنی ماں کے قاتلوں کو شریک اقتدار کریں اور پھر اپنی ماں کے قاتل پکڑے نہ جانے کا ڈھونڈورا بھی پیٹیں؟

آج تو نواز شریف بھی کہہ رہا ہے کہ میں بڑا نظریاتی ہوں لیکن نہ تو اس کے نظریے کی ہمیں کوئی سمجھ آ رہی ہے اور نہ ہی آپ کے نظریے کی۔

ہماری پارٹی ہماری آنکھوں کے سامنے ختم ہو رہی ہے اور اگر، ہم کارکنوں، نے اب بھی آواز نہ اٹھائی تو ہماری داستاں بھی نہ ہو گی داستانوں میں۔

اور پارٹی کے اس زوال کی وجہ صرف پارٹی قیادت ہے، چونکہ سب کے سب فیصلوں کا اختیار اس کے ہاتھ میں ہے، لہذا جواب دہ بھی وہی ہے اور ذمہ دار بھی وہی ہے۔

میں آج پارٹی قیادت سے یہ سوال پوچھتا ہوں کہ رضا ربانی کو ذلیل کر کے اسٹیبلشمنٹ کے مہرے کو چیئرمین سینیٹ بنا کر پارٹی قیادت نے جمہوریت کی خدمت کی؟عوام کی خدمت کی یا کسی اور کی…؟ اور پارٹی کی پیٹھ میں یہ خنجر کیوں گھونپا گیا؟

آج چیئرمین سینیٹ ہمارا بیٹھا ہوتا تو ہم فخریہ کہ سکتے تھے کہ ہم وفاق کی علامت ہیں لیکن ہماری قیادت نے تو اپنے ہاتھوں سے اپنی پارٹی کو قتل کیا اور ہم سب لوگ خاموش رہے اور چند موقعہ پرست تب بھی آصف زرداری کو ”امام سیاست” ثابت کرتے رہے۔

چلیں اگر اسٹیبلشمنٹ چیئرمین سینیٹ کے بدلے، چاہے بھیک میں ہی، پی پی پی میں کچھ لوگ بلوچستان سے شامل کرواتی تو ہم سوچتے کے چلیں دلالی تو کی ہے لیکن کسی چیز کے بدلے لیکن آپ کو تو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا ہے اور آپ اس پر شرمندہ بھی نہیں ہیں ۔

ہمارے ملک میں ہماری سیاسی جماعتوں سے یہ کلچر مکمل ختم ہو چکا ہے کہ پارٹی قیادت سے کوئی سوال اٹھایا جائے، حالانکہ ہر مہذب اور جمہوری روایات پر یقین رکھنے والے معاشرے میں پارٹی کی ہر ناکامی کا سوال پارٹی قیادت سے مانگا جاتا ہے۔ یورپ اور خاص کر کے انگلینڈ میں اگر پارٹی الیکشن ہار جائے توایسا تصور بھی نہیں ہوتا کہ لیڈر استعفیٰ دے کر گھر نہ چلا جائے ۔

آج جب پی پی پی اپنے زوال کی انتہاؤں کو چھو رہی ہے، لوگ جوق در جوق پارٹی چھوڑ کر جا رہے ہیں، اپنی پارٹی کے ممبر کو چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں پارٹی نے خود شکست دی ہے تو ہم سب کو مل کر پارٹی قیادت سے سوال پوچھنا ہو گا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہورہا ہے۔ یہ پارٹی کی تبدیلی، بھٹو صاحب کے نظریات کی طرف اور عوامی سیاست کی واپسی کی طرف پہلا قدم ہو سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے