جنسی ہراسانی کی شکایت

اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ انسان اپنی جبلتوں کی اسیری تک قبول کر لیتا ہے، پھر چاہے وہ مال کی جبلت ہو، جنس کی یا پھر برتری کی۔ انسان کی فطرت میں موجود ان تمام داعیات کا صحیح جگہ پر ظہور ہو، خدا تعالی نے اس کا پورا بندوبست کر کےاسے دنیا میں بھیجا ہے,لیکن انسانی فطرت مسخ ہوجائے تو وہ ایسے ذرائع سے بھی ان تقاضوں کی تسکین قبول کر لیتی ہے جو دوسروں کی حق تلفی کا باعث بن جاتی ہیں۔

کسی کو جنسی طور پر ہراساں کرنا بھی ایسا ہی قبیح فعل ہے۔اس فعل کی شناعت اس وقت اور بھی بڑھ جاتی ہے جب معاشرے اس شکایت کو اٹھانے کی بھی تمام راہیں بند کر دے۔انسانی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جبلتوں کی یہ غلامی بلا تفریق مرد اور عورت دونوں نے قبول کی ہے۔جس طرح ایک معصوم عورت کو جنسی استحصال کے بعد کرب و الم سہنا پڑتا بلکل اسی تکلیف سے یوسف نامی ایک معصوم مرد کو زلیخا جیسی خاتون کے ہاتھوں گزرنا پڑا تھا۔

معاشرے کی تنظیم ،اظہار رائے کی آزادی اور ریاست کا نظم قائم ہونے کے بعد اب اس طرح کے معاملات میں حق تلفی کو روکنے کے امکانات نہ صرف یہ کہ بڑھ گئے بلکہ لوگوں میں اپنے تحفظ کا شعور بھی پیدا ہو رہا ہے، ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کے واقعات میں شکایت کنندہ کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟

کیا اسے اپنی ایسی کسی شکایت کا اظہار نام لے کر سر بازار کردینا چاہیے؟ میرے خیال میں ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔اس کی وجہ بہت سادہ ہے، کسی پر جنسی ہراسانی کا الزام لگانا، سماج میں اس کی عزت کو نیلام کرنے کے مترادف ہے۔وہ انسان پورے معاشرے کی نظر میں ایک مجرم کی حیثیت سے کھڑا ہوجاتا ہے۔ پھر کیس عوام کی عدالت میں چلتا ہے، جس کا کوئی قاعدہ کوئی قانون نہیں ہے۔ایک جانب سے کپڑے اتارے جاتے ہیں، پھر دوسری جانب سے یہی کام ہوتا ہے ۔اور ایسے چند ہی دنوں میں واقعات ماضی کا قصہ بن جاتے ہیں، پھر ایک فریق کے چاہنے والے بغیر کسی قطعی فیصلے کے دوسرے کو درندا اور دوسرا فریق پہلے کو چھوٹا گردانتے ہیں۔اور یوں بد اخلاقی کی ایسی روایت وجود میں آتی ہے جونفرت ،جھوٹ ،الزامات کو اگلی نسلوں تک منتقل کر دیتی ہے۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ جھوٹ اپنی اپنی تاریخی سچائیاں بن جاتا ہے۔ایسے میں خاندان، ادارے اور ملک ہی نہیں قومیں ایک دوسرے سے متنفر ہوجاتی ہیں۔

انٹرنیٹ اور فیس بک کے آنے کے بعد لوگوں کو جہاں جنسی ہراسانی کے قبیح فعل کے خلاف آواز اٹھانے اور اس پر بات کرنے کی ہمت ملی ہے جو کہ ایک خوش آیند عمل ہے ۔وہیں یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ ان فورمز پر آئے دن جو الزامات دیکھنے کو ملتے ہیں اس پر معاشرے کی تربیت کے ساتھ ساتھ باقاعدہ قانون سازی کی جائے۔
اور الزام کو عوامی عدالت میں پیش کرنے کے بجائے کیسے درست طریقہ کار سے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔

ہمارے خیال میں اس قانون سازی اور معاشرے کہ تربیت میں درج ذیل امور کو مد نظر رکھنا چاہیے:

1-کسی پر جنسی ہراسانی کا الزام ایک متعلقہ محکمے کے علاوہ کہیں اور کسی فورم پر لگانا قابل سزا/جرمانہ جرم ہونا چاہیے۔
اور اگر یہ الزام کہیں سامنے آجائے تو عام لوگوں کو کف لسان سے کام لینا چاہیے، اور اس وقت تک جب تک شکایت کنندہ یا مجرم کسی پر کوئی بات نہیں کرنی چاہیے جب تک الزام ثابت نہ ہوجائے۔اور شکایت کنندہ کو مناسب فورم پر جا کر بات کرنے کی ہمت دلانی چاہیے۔

2-عام عدالتوں کے بجائے اس طرح کے الزامات کے لیے خاص متعلقہ محکمے بننے چاہیے ہیں، اور انھیں ملزم کا نام اس وقت تک عام کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جب تک کہ جرم اس پر پوری طرح ثابت نہ ہوجائے۔یہی معاملہ شکایت کنندہ کی معلومات کے بارے میں ہونا چاہیے۔
میڈیا، اخبارات کو اپنی سماجی ذمے داری محسوس کرنی چاہیے اور اس طرح کے موضوعات پر اندر کی خبریں نکالنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔

3-جرم کے ثبوت کے لیے، عورت/مرد سے عینی گواہیوں کے مطالبے کے بجائے عورت/مرد کا نفساتی تجزیہ، اس کے ماضی کے احوال ،واقعاتی قرائن سے معاملے کی گہرائی تک پہنچنا چاہیے۔
اسی طرح کیس رجسٹر کروانے کے لیے، اور شکایت کنندہ کے تحفظ کے لیے فاصلاتی نظام شکایت مرتب کرنا چاہیے، جہاں محکموں میں دھکے کھانے اور غیر محفوظ ہونے سے بچایا جا سکے۔

4-کوشش کرنی چاہیے کہ اگر کسی جگہ غلطی اور حد سے تجاوز ہوا ہے تو جب تک پوری تحقیق نہ ہوجائے کیس کی روداد باہر نہ آسکیں۔
اور قانونی ماہرین کے علاوہ معاشرے کے معتبر افراد کو کاروائی کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ ایسے حساس واقعات کی شفافیت تحقیق سے ہو سکے۔

5-اگر اس معاملے میں کوئی مجرم ثابت ہوتا ہے، تو پھر شکایت کنندہ یا محکمے کو چاہیئے کہ وہ اس کا اعلان کر کے لوگوں کو متنبہ کرے۔ لیکن اس کے دوستوں، گھر والوں اور تعلق داروں کے تحفظ کی اپیل کے ساتھ۔
عام لوگوں کی بھی تربیت کرنی چاہیے کہ ایسے مجرمین کے ارد گرد کے افراد کے کردار زیر بحث نہ لائیں۔

6-اگر الزام غلط ثابت ہوتا ہے تو الزام لگانے والے پر سزا/جرمانہ عائد ہونا چاہیے۔ اور ملزم کو اس بات کی تشہیر کی بھی اجازت ملنی چاہیے کہ فلاں نے مجھ پر غلط الزام لگایا تھا جو ثابت نہ ہوسکا۔

7-الزام ثابت ہونے کے بعد مجرم کو جسمانی سزا کے ساتھ ساتھ نفسیاتی علاج معالجہ کا بند و بست بھی کیا جانا چاہیے تاکہ اس کے مرض کا علاج بھی کیا جا سکے۔اور وہ مستقبل میں معاشرے میں مثبت کردار ادا کر سکے۔

ہمارے ادر گرد روز ایسے واقعات سننے میں آتے ہیں، اور وہ بالعموم معورف افراد کے بارے میں ہوتے ہیں، عام لوگوں کی اس میں بہت دلچسپی پیدا ہوجاتی ہے، اور پورے معاملے کو ایک خاص جذباتی فضا میں سنا اور سنایا جاتا ہے، ہم سب کو خدا سے پناہ مانگنی چاہیے کہ وہ ہمیں ہماری جبلتوں کا غلام بننے سے بچائے۔اور کہیں ایسا بھی نہ ہو کہ ہم خود ایک دن کسی ایسے الزام کا نشانہ بن جائیں اور پھر عوام کی عدالت میں مجرم کی حیثیت سے صفائیاں دیتے پھریں اور پوری زندگی نفرت اور غصہ کا نشانہ بنے رہیں ،لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم جو کل کو اپنے لیے سوچیں گے،وہی آج دوسروں کے لیے سوچنا شروع کریں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے