میرے وعدوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

اس وقت بیرونِ ملک کتنے قانونی ، غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانی ہیں۔ان میں مستقل مقیم اور غیر مستقل کتنے ہیں ، آزاد کتنے اور قیدی کتنے، سرکاری ریکارڈ میں بیرونِ ملک کسی بھی شکل میں جانے والوں کی تعداد کتنی ہے، اصل میں کتنے پاکستانی باہر ہیں؟ دیگر اعداد و شمار کی طرح اس بابت بھی اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے۔

ویسے بھی جس ریاست کو یہی نہ معلوم ہو کہ اس کی چار دیواری میں کتنے غیر پاکستانی بستے ہیں اور ان کا قانونی مرتبہ کیا ہے۔اس ریاست سے اپنے ہی بیرونِ ملک شہریوں کے بارے میں کوئی بھی درست ریکارڈ رکھنے کی تمنا اپنے اور ریاست کے ساتھ نری زیادتی ہے۔

بہرحال ہم اپنی سہولت کے لیے فرض کیے لیتے ہیں کہ پانچ ملین پاکستانی تارکینِ وطن ایسے ہیں جن کا کوئی نہ کوئی ریکارڈِ مہاجرت و آمدورفت و مرتبہ کسی نہ کسی دیسی بدیسی ادارے کے پاس موجود ہے۔ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ پاکستانی جس بیرونی ملک میں بھی ہیں ، وہاں کے تمام ضابطوں بشمول ٹیکس قوانین پر عمل کرتے ہیں۔ہم فرض کر لیتے ہیں کہ ان میں سے نصف دوہری شہریت یا غیر معینہ مدت تک قیام کا اجازت نامہ رکھتے ہیں۔
اور ہم یہ بھی فرض کر لیتے ہیں کہ یہی وہ پاکستانی ہیں جنھیں ہر آتا جاتا حکمران اور افسر بیرونِ ملک پاکستانی سفیر کہتا ہے ، ان کی محنت و عظمت کو سلام کرتا ہے ، یہ پاکستانی دیارِ غیر میں جن سیاسی ، سماجی ، اقتصادی ، نسلی اور اپنے ہی سفارتخانوں کے پیدا کردہ مسائل سے گذر چکے ہیں یا گذر رہے ہیں یا گذریں گے ان کے بارے میں بیرونی دورے پر جانے والے ہر قابلِ ذکر پاکستانی عمل دار کو اپنے پرائیویٹ سیکریٹری یا متعلقہ ملک میں مقیم پاکستانی سفیر یا دفترِ خارجہ کے نوٹس اور بریفنگ کے سبب وطن واپسی تک کماحقہ عارضی واقفیت بھی رہتی ہے۔

جب ریاست کو اقتصادی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ انھی پاکستانیوں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کی دعوت بھی دیتی ہے ، بیرونِ ملک سے زرمبادلہ بھیجنے والے وطن کے ان اقتصادی سپاہیوں کو سلام بھی پیش کرتی ہے اور ان کی سیلف میڈنیس کا قصیدہ بھی پڑھتی ہے۔انھیں اوورسیز پاکستانی ہونے کا شناختی کارڈ قیمتاً دیتی ہے کہ جس کا مطلب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس کارڈ کے ہوتے انھیں وہی حقوق حاصل ہیں جو پاکستان کی سرزمین پر بسنے والے کسی بھی عام پاکستانی کو حاصل ہیں۔یہ تو ہوئی انٹرویل سے پہلے کی فلم۔

انٹرویل کے بعد کہانی نیا ٹرن لیتی ہے جب ہمارا سمندر پار ہیرو انٹرویل سے پہلے کے وعدوں اور محبتوں کے باغ کی عالمِ سرشاری میں سیر کرتا کرتا آنکھیں کھولتا ہے اور اسے یہ بتایا جاتا ہے کہ ویسے تو آپ برابر کے پاکستانی ہیں مگر آپ پاکستان کے انتخابات میں ووٹ نہیں دے سکتے ، الیکشن میں کھڑے نہیں ہو سکتے اور اگر آپ کی دوہری شہریت یا اقامہ یا از قسمِ گرین کارڈ ہے تو آئینی یا سرکاری عہدہ یا نوکری بھی نہیں کر سکتے۔

کسی بھی ریاست کا حق ہے کہ وہ دوہری شہریت کے حامل افراد کے حقوق جزوی یا کلی طور پر محدود کر سکے۔ مگر ماجرا یہ ہے کہ کوئی بھی سمندر پار شہری تب تک دوہری شہریت نہیں لے سکتا جب تک اس کے اصل ملک اور اپنائے ہوئے ملک کا یہ حق دینے پر مشترکہ اتفاق نہ ہو۔بہت سے ممالک اپنے شہریوں کو دوہری شہریت رکھنے سے قطعًا روکتے ہیں اور نہ رکنے والے کو اپنی شہریت سے محروم کر دیتے ہیں۔مگر پاکستان کے بہت سے ممالک سے اپنے شہریوں کے لیے دوہری شہریت اور قانوناً دو پاسپورٹ رکھنے کے سمجھوتے ہیں۔

دوہری شہریت کا مطلب بیک وقت دو کشتیوں کے بیچ پاؤں رکھنا نہیں۔بلکہ یہ مطلب ہے اگر میں کسی ایک ملک میں رہ رہا ہوں تو اس ملک کے حقوق و فرائض سے متعلق قوانین لاگو ہوں گے اور جب میں دوسرے ملک میں جاؤں گا تو وہاں کے قوانین مجھ پر لاگو ہوں گے۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے دو ریاستوں کے درمیان دوہرے ٹیکس کا معاہدہ۔جس کے تحت کسی شہری کی ایک ہی آمدنی پر دوہرا ٹیکس نہیں کاٹا جا سکتا۔اگر وہ شہری اے ملک میں ہے تو پھر اے ملک کے ٹیکس قوانین ہی اس پر لاگو ہوں گے۔اسے بس بی ملک کی ٹیکس اتھارٹیز کو اپنے نئے پتے اور ٹیکس اسٹیٹس کے بارے میں مطلع کرنا ہوگا۔اور جب وہ اے ملک سے بی ملک جائے گا تو بھی یہی عمل دھرایا جائے گا۔

چنانچہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب دو ریاستوں کی باہمی رضامندی سے دوہری شہریت رکھنا قانوناً جائز ہے تو پھر ان میں سے کوئی ایک ملک کیسے اعتراض کر سکتا ہے کہ چونکہ اس کی وفاداریاں منقسم ہیں لہذا اسے کسی حساس سیاسی، آئینی یا انتظامی عہدے پر تعینات ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔گویا ایک جانب ریاست دوہری شہریت کے تحت وفاداری کو تقسیم رکھنے کی قانوناً اجازت بھی دے رہی ہے اور دوسرے قانون کے تحت اس پر شک بھی کر رہی ہے ؟ کیا یہ منطق بالائے عقل ہے یا مجھ سے سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے ؟

اب رہا سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کا معاملہ۔جب میں پاکستان کا شناختی کارڈ رکھنے کے باوجود سمندر پار رہنے کے سبب الیکشن میں حصہ لے ہی نہیں سکتا تو ووٹ کا حق ملے نہ ملے کیا فرق پڑتا ہے۔کیسی کمال بات ہے کہ اگر میں پاکستان کی کسی جیل میں بھی بند ہوں مگر سزا یافتہ نہیں ہوں تب بھی الیکشن لڑ سکتا ہوں لیکن قانون پسند شہری ہونے کے باوجود اگر سمندر پار ہوں تو الیکشن نہیں لڑ سکتا۔

مجھے بڑی حیرت ہوئی جب مئی انیس سو اکیانوے میں پہلی بار لندن پہنچا۔اگلے ہی ہفتے بلدیاتی انتخابات تھے۔ایک پولنگ اسٹیشن کے سامنے سے گذرا تو ووٹ دینے کے مجاز شہریوں کی فہرست میں لکھا تھا کہ دولتِ مشترکہ کے شہری بھی ووٹ دینے کے اہل ہیں۔چنانچہ اپنا پاکستانی پاسپورٹ دکھا کر میں نے ان بلدیاتی انتخابات میں ووٹ دیا۔ایک طرف اعتماد کا یہ عالم اور دوسری جانب تمام تر شہری دستاویز ، چار نسلوں کا پاکستانی شجرہ اور تین نسلوں کا شناختی کارڈ ریکارڈ ہونے کے باوجود میں اس لیے ووٹ نہیں دے سکتا کیونکہ میں بیرونِ ملک رہتا ہوں۔

سپریم کورٹ نے دو ہزار تیرہ کے انتخابات سے پہلے الیکشن کمیشن کو ہدایت دی کہ سمندر پار پاکستانیوں کو پولنگ میں حصہ لینے کی سہولت فراہم کی جائے۔ یہ عذر پیش کیا گیا کہ پاکستانی ایک سو ساٹھ ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں بہت سے میزبان ممالک اپنے ہاں اس جمہوری مشق کی اجازت بھی نہیں دیں گے۔پولنگ اسٹیشن بنانے اور پھر ان کے لیے پاکستان سے بڑی تعداد میں عملہ بھیجنا۔اتنا خرچہ ہے کہ قارون کا خزانہ بھی کم پڑ جائے گا۔پوسٹل بیلٹ میں ہیرا پھیری کا امکان ہے۔

سافٹ وئیر یا ایپ کے ذریعے سمندر پار ووٹروں کی رجسٹریشن اور تصدیق تو ہو سکتی ہے مگر ٹیکنالوجی تیار نہیں۔نادرا نے کہا ہے کہ ہم نے ٹیکنالوجی بھی بنا لی ہے اور مشین بھی تیار ہے جس کی مدد سے ای ووٹنگ اور فوری گنتی ہو سکتی ہے۔

اب الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی اور ہارڈ وئیر کو پہلے بطور پائلٹ پروجیکٹ آزمایا جائے گا پھر مکمل طور پر اپنانے یا نہ اپنانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔مگر الیکشن میں وقت اس قدر کم ہے کہ اب دو ہزار تئیس میں ہی یہ سب ممکن ہو پائے گا۔

مجھے یاد ہے جب دو ہزار تیرہ میں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہدایات دی تھیں تب الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا تھا کہ دو ہزار تیرہ کا الیکشن سر پر ہے اب یہ کام دو ہزار اٹھارہ میں ہی ہو سکے گا۔تیرے وعدوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے